میرا ووٹ کس کا؟

 ایک دوست نے پوچھا ، ’’کس کو ووٹ دے رہے ہو‘‘۔ میں نے ہنس کرجواب دیا کہ کسی چور کو۔ ناراض ہو گیا کہ اس کی سنجیدہ بات کو بھی میں مذاق میں ٹالنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ میں جواب بہت سنجیدگی سے دے رہا ہوں۔ مجھے ہر حال میں ووٹ کسی چور ہی کو دینا ہے۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔پہلی وجہ یہ ہے کہ دنیا داری اور آج کے سیاسی پیمانے کے مطابق وہ تمام لوگ جو کسی نا کسی انداز میں حکومتی تعاون سے وسائل کی لوٹ مار میں مصروف رہے، وہ چور ہیں، ڈاکو ہیں، لٹیرے ہیں اور افسوس تو اسی بات کا ہے کہ میرے علاقے میں کوئی ایسا امیدوار ہے ہی نہیں جسے صاف ستھرا کہا جا سکے۔ سبھی وسائل کی لوٹ مار میں برابر شریک رہے ۔ ملک کی اکثریت انہیں چور کہتی ہے اور کوئی متبادل نہ ہونے کے سبب انہی میں سے کسی کو ووٹ دینا میری مجبوری ہے۔دوسری وجہ بڑی سادہ ہے کہ مجھے ذاتی طور پر چور ڈاکو کو ووٹ دینا پسند ہے۔اس لئے کہ ہمارے معاشرے میں جو قدریں پنپ رہی ہیں ان میں شریف آدمی فٹ نہیں ہوتا۔ آپ کو تھانے کچہری کا کوئی کام ہو۔ شریف آدمی پہلے خود عدالت لگا لیتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا اور کیسے ہوا۔ پھر آپ کے ساتھ جانے میں پس وپیش سے کام لیتا ہے۔ جہاں جاتا ہے سفارش اتنی کمزور ہوتی ہے کہ اگلے لوگ فقط چائے پلا کر ٹرخا دیتے ہیں۔ایسی شرافت میرے کس کام کی۔ چور اچکا اور بد معاش نمائندہ بغیر کچھ پوچھے دلیری سے آپ کے ساتھ جاتا اور ڈنکے کی چوٹ آپ کا کام کرواتا ہے۔تھانے کچہری والے بھی اس سے گھبراتے ہیں اور فوراً کام کرتے ہیں۔

ویسے تو میں رائے ونڈ روڈ پر رہتا ہوں،مگر ارد گرد کی صورت حال دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ سارے کا سارا علاقہ عملی طور پر کھوکھروں کی بستی ہے اور میں ان کا ایک مزارعہ۔ اس علاقے کی سب سے بڑی انڈسٹری زمینوں کی خرید، زمینوں کی فروخت اور زمینوں پر زبردستی قبضہ ہے۔ ماشا اﷲ یہاں کا ہر ایم این اے اور ہر ایم پی اے چاہے وہ ماضی میں نمائندہ تھا ، یا حال ہی میں تھا یا پھر امید سے ہے ، اس فن میں پوری طرح طاق ہے ۔ امیدسے ہے کے لفظ سے کوئی کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔ ملک میں اس وقت الیکشن کا شور ہے اور یہ عمل بڑی تیزی سے اختتا م کی طرف گامزن ہے۔اس علاقے سے بھی بہت سے لوگ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور ہر ایک کو امید ہے کہ وہی اگلے پانچ سال اس علاقے کی نمائندگی کرے گا۔ اس حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ امید سے ہیں۔ کسی کی دل آزاری ہو تو معذ رت خواہ ہوں۔اس علاقے کا ایک خاص مزاج ہے جو شاید لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا ۔ مجھے دو واقعات یاد آئے۔

میرے ایک دوست نے بڑے چاؤ سے ملتان روڈ کے نواح میں کسی کھوکھر صاحب سے ایک پلاٹ خریدا۔ مکان بنانے کے لئے پیسے اکٹھے کرتے کچھ ماہ لگ گئے۔ جب وہ مکان بنانے پلاٹ پر گیا تو ایک صاحب سٹے آرڈر لے کر آگئے۔ پتہ چلا کہ موصوف پلاٹ بیچنے والے کھوکھر صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ ان کا دعوی تھا کہ ان کے والد پلاٹ ان کے نام کر چکے تھے۔ بیماری میں غلطی سے وہ ان کا حصہ بیچ گئے حالانکہ بیچ نہ سکتے تھے ۔ اس لئے پلاٹ کی فروخت غلط قرار دے کر رجسٹری منسوخ کی جائے۔ پانچ چھ سال بعد جب ہائی کورٹ تک سے میرے دوست کے حق میں فیصلہ ہوا تو ایک نیا کیس اس کا منتظر تھا۔ اس دفعہ بیچنے والے کی بہو اور پہلا کیس فائل کرنے والے کی بھابی دعویدار تھی۔ وہ کیس ہائی کورٹ میں تھا کہ کچھ واقفان نے بیچ میں پڑ کر وہ پلاٹ کافی کم قیمت میں کسی دوسرے کھوکھر کوبکوا دیا۔ گو پیسے کافی کم ملے مگر میرے دوست نے وہی غنیمت جانا۔اب ایک کھوکھردوسرے کھوکھر سے خود نپٹے گا۔

میری والدہ کا ایک پلاٹ ٹھوکر نیاز بیگ کے علاقے میں تھا۔ ہم نے چار دیواری کی ہوئی تھی ۔ میرے ایک کولیگ کا گھر اس پلاٹ سے ملحق تھا۔ اسے منت کی تھی کہ ذرا خیال رکھنا۔ ایک دن اس نے اطلاع دی کہ پلاٹ پر ایک ٹینٹ لگ گیا ہے اور اس میں چار پانچ کلاشنکوف بردار بیٹھے ہیں۔ میں بھاگم بھاگ وہاں پہنچا۔ ان سے پوچھا تو انتہائی بد تمیزی سے پیش آئے اور بتایا کہ علاقے کے عوامی نمائندے جناب کھوکھر صاحب نے یہ پلاٹ خرید لیا ہے ۔ ان کے پاس رجسٹری اور انتقال موجود ہے۔ میں پٹواری کے پاس پہنچا ۔ پٹواری کہنے لگا کہ جس خاتون کا پلاٹ تھا اس نے بیچ دیا ہے میں کیا کر سکتا ہوں۔ میں نے ہنس کر کہا کہ خاتون کو فوت ہوئے تین چار سال ہو چکے ہیں۔مرحومہ میری والدہ تھیں۔ مرگ کا سرٹیفیکیٹ آپ کو دے کر وارثان کا اندراج بھی ہو چکا۔ مگر پٹواری کچھ سننے کو تیار نہیں تھا۔ ان دنوں میرے بہنوئی وفاقی وزیر تھے۔ انہوں نے عوامی نمائندے کو فون کیا اور بتایا کہ وہ پلاٹ ان کا بھی ہے ۔ وارثان کی لسٹ دیکھو اور کچھ شرم کرو۔ اگلے دن کلاشنکوف والے رخصت ہو گئے اور ہمارا پلاٹ بچ گیا۔یہ اس علاقے کا مخصوص کلچر ہے۔

اس علاقے کو ہماری ساری قابل ذکر سیاسی جماعتوں نے بھی عملی طور پر کھوکھربرادری کا زیر تسلط علاقہ یعنی کھوکھر آ باد تسلیم کر لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شخص جس کے نام کے ساتھ کھوکھر نہیں تھااسے ٹکٹ کے قابل ہی تصور نہیں کیا گیا۔ایم این اے کا مقابلہ ہے تو کھوکھر بمقابلہ کھوکھر ، ایم پی اے کی سیٹ ہے تو یہاں بھی کھوکھر بمقابلہ کھوکھر۔کسی دوسرے کے بارے غور ہی نہیں کیا گیا۔لگتا ہے زمینوں پر قبضے ہر پارٹی کی ضرورت ہے اور کھوکھر خاندان کے لوگ چونکہ اس معاملے میں کمال رکھتے ہیں۔ قبضے کے معاملے میں ان سے بڑا فنکار لاہور میں پایا نہیں جاتا۔ اس لئے انہیں کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ پارٹی کوئی بھی ہو ، چند مخصوص لوگوں کو چھوڑ کر باقی تمام سیٹیں بکتی ہیں ۔ یہ خرید و فروخت پارٹی فنڈ کے نام پر ہو یا کسی اور انداز میں جو شخص جتنی اچھی پیشکش کر لیتا ہے ٹکٹ کا حقدار قرار پاتا ہے۔میرے کھوکھر آباد میں دونوں بڑی پارٹیوں نے ایک ہی خاندان میں سارے ٹکٹ بانٹ دئیے ہیں ۔ کہتے ہیں ایک طرف ماموں اور بھانجوں کاگروپ ہے اور دوسری طرف دو بھا ئی اور بیٹوں کا گروپ ہے اور دونوں گروپ ایک دوسرے کے قریبی عزیز ہیں اور ان سب کا تعلق کھوکھر برادری سے ہے۔ ٹکٹ دینے والوں کو یہ شعور بھی نہیں کہ نہ کہنے اور نہ چاہنے کے باوجود برادری ، گروپ بندیوں اور رشتہ داریوں کے اپنے کچھ خاص تعصب ہوتے ہیں۔ اچھا فیصلہ وہ ہوتا ہے کہ جس میں تما م گروپوں، تمام برادریوں اور تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کو اکاموڈیٹ کیا جائے۔مگر کیا کیا جائے سیاسی جماعتوں میں اس فہم کے لوگ ہی نہیں کہ جو اایسی باتیں سمجھتے اور جانتے ہوں اور ان کی افادیت سے آگاہ ہوں۔یوں کھوکھر آ ٓباد کی تشکیل ایک ناقص اور غیر عقلی فیصلہ ہے ۔ اب میرے علاقے کے لوگوں کے پاس کسی متبادل فیصلے کی گنجائش ہی نہیں۔ کاش کوئی جانا پہچانا اور معروف شخص یہاں امیدوار ہوتا تو دونوں بڑی پارٹیوں کو اپنی اوقات کا پتہ چل جاتا۔لیکن اب مجبوری میں انہی حالات پر گزارہ کرنا پڑے گا۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500521 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More