اگر مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو انتخابات میں
حصہ لینے والے 90 فیصد امیدواران ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں کچھ سال
پہلے یہ شرح کم تھی بحر کیف ایلیٹ کلاس ہی جمہوریت پہ براجمان رہی ہے اور
یہ جمہوریت کی نفی ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیاسی میدان بڑا پیجیدہ
ہے اس میں دوسرا جمشید دستی ڈھونڈنا بہت مشکل ہے مطلب یہ کہ ایک غریب
خاندان کا امیدوار کھائے گا کیا اور نچوڑے گا کیا؟ پہلے تو اس بے چارے کو
کوئی سپورٹ کرے گا ہی نہیں اور دوسرا ہماری دیسی عوام کوڈیرے ڈنڈے کا جو
چسکا لگ چکا ہے غریب امیدوا ر تو اس کا متحمل ہی نہیں ہوسکتااور تو اور
ایلیٹ کلاس امیدواروں نے عوام کو بریانی اور نان قورمے کی جو عادتیں ڈال دی
ہیں ان کے آگے بند باندھنا ایک غریب امیدوار کے لیے انتہائی کٹھن کام ہے
لہذا غریب امیدوار تو اپنی غریب عوام کے نخرے اٹھانے سے رہا، دیکھا جائے تو
یہ جمہوریت کی بہت بڑی نفی ہے جس کا باعث یا وجہ عوام اور سیاستدان دونوں
ہی ہیں جب کے نعرہ جمہوریت کا ہی مارتے ہیں لیکن دونوں (عوام اور سیاستدان
)کے قول و فعل میں تضاد صاف دیکھا جاسکتا ہے پھر جمہوریت نام کی چیز ڈھونڈے
نہیں ملتی گر ملتی ہے تو کتابوں کے اوراق میں۔ جس سانچے میں ہمارا معاشرہ
ڈھل چکا ہے اسے جمہوریت کے اصل روپ میں ڈھالنا انتہائی کٹھن ہوچکا ہے مثلا
تبدیلی کا نعرہ لگا کر خاندانی سیاست ختم کرنے کے دعوے دار خان صاحب اب اس
حالیہ نظام کے اس حد تک اثیر ہوچکے ہیں کہ وہ خود فرمارہے ہیں کہ ،، میں ان
لوگوں کو ٹکٹ دے رہا ہوں جنھیں الیکشن لڑنے کا تجربہ ہے،، تو پھر نیا
پاکستان کیسے بنے گا جب وہی پرانی خاندانی ایلیٹ کلاس ہی ہوگی۔جس طرح ہمارا
مزاج جمہوریت کی نفی کرتا ہے اس طرح بعض الیکشن کے قوانین بھی جمہوریت سے
متصادم نظر آتے ہیں،وہ اس طرح کہ فرض کریں کہ ایک حلقے میں چار امیدوار
الیکشن میں حصہ لیتے ہیں جس میں aچالیس ووٹ لیتا ہے ،bتیس ووٹ لیتا ہے،cبھی
تیس ووٹ لیتا ہے اور d بیس ووٹ لیتا ہے اب پاکستانی جمہوری نظام کے لحاظ سے
aکو سب پر فوقیت اور برتری حاصل ہے اور اس طرح aاس الیکشن کا فاتح قرار
پاتا ہے جب کہ یہ ایک بہت بڑی جمہوری خامی ہے اب یہ کسی نے نہیں سوچا کہ اس
کی مخالفت میں جو 80ووٹ پڑا ہے اس کا کیا؟یعنی ٹوٹل ووٹ حلقے میں کاؤنٹ
ہوئے 120،جن میں سے صرف 40ووٹ مسٹر aنے حاصل کیے ہیں اور باقی 80ووٹ اس کی
مخالفت میں ہوئے تو حقیقت میں مسٹر a کو اکثریت ریجیکٹ کر رہی ہے لیکن اس
کے باوجود ہمارے پارلیمانی نظام میں مسٹر aکو منسٹری عنائت فرمائی جائے گی
جو کہ جمہوری نظام کی بہت بڑی خامی ہے اس کا صاف صاف اور واضح حل یہ ہونا
چاہیے کہ برتری حاصل کرنے والے امیدوار کا کم سے کم پچاس فیصد تک ووٹ حاصل
کرنا لازمی قرار دیا جائے۔ چلو اس طرح عوام کی اکثریت کو اپنی پسند کی کچھ
تو پائیداری اور بہتری ملے گی اور انتخابات کا بہترین معیار قائم ہوگا جس
کی بدولت زیادہ نہیں تو کم سے کم پچاس فیصد لوگوں کی پسند کا امیدوار تو
سامنے آئے گا۔
ویسے دیکھا جائے تو انتخابات میں کچھ ہی دن رہ گئے ہیں جو کہ امیدواروں کے
لیے اپنی کمپین کرنے کی مد میں بہت مختصر وقت ہے ایک دو قومی پارٹیوں نے
وقت بڑھانے کی استدعا بھی کی تھی جس کی بدولت کچھ دنوں کا تو نہیں البتہ
ایک گھنٹے کا دورانیہ بڑھادیا گیا ہے،چلو کسی حد تک تو بات مان لی گئی ہے
اب یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ہماری کوئی سنتا نہیں ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ
ہم ووٹ ہمیشہ اپنی برادری کو دینا پسند کرتے ہیں کہ چلو منتخب ہونے کی صورت
میں ہماری برادری کا منتخب امیدوار ہمارا تو خیال کرے گااور ہوتا بھی اسی
طرح ہی ہے پھر چاہے ہمارا منتخب برادر محلے یا ٹاؤن کا کوئی بھی کام نہ کرے
لیکن وہ ہمارے مسائل ضرور سنتا اور حل کرتا ہے کیونکہ ہم نے اسے ووٹ جو دیا
ہوتا ہے۔ بس ہمیں انفرادی یعنی اپنے اپنے کام کروانے سے مطلب ہوتا ہے اور
جیسے ہم خود غرض ہونگے تو لازمی بات ہے ویسا ہی امیدوار ہمارے لیے منتخب
ہوگاجبکہ مجموعی یا اجتماعی کام پھر رہ جائیں گے (جبکہ اجتماعی کام ایک
ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے کے لیے بہت ضروری ہیں) اور پھر آپ کے روڈ
،سکول،ہسپتال اور صاف پانی کی سہولتیں ناپید ہوتی جائیں گی جس سے سب سے
زیادہ آپ کی موجودہ اور آنے والی نسل کا ہی نقصان ہوگا لہذا اس نقصان سے
بچنے کا واحد حل ،اجتماعی اور مثبت سوچ ہے یعنی امیدوار ایسا چنا جائے جو
فلاحی اور تعمیری کاموں میں دلچسپی رکھتا ہوکیونکہ اگر آپ کے روڈ
،سکول،ہسپتال اور صاف پانی کے مسائل حل ہو جائیں گے تو یقینی طور پر آپ اور
آپ کی نسلوں کو تحفظ و استحکام اور روز افزوں بہترین نظام نصیب ہوگا جس سے
آپ کے علاقے میں ترقی اور خوشحالی کے علاوہ اخلاق اور مزاج میں نرمی اور
شکلوں میں خوبصورتی عیاں ہوگی۔اپنا حق حاصل کرنا اور کسی کا حق دلانا یہ
کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ بہت بڑی نیکی ہے اور اس کا بہت بڑا اجر ہے اس
نیک عمل کے باعث بہت سی نفسیاتی بیماریاں رفع ہوتی ہیں اور بالکل اسی طرح
کسی کا حق غصب کرنے کی صورت میں انسان بہت سی باطنی اور نفسیاتی بیماریوں
میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
کسی کے کہنے یا پھر خالی اوراق پہ اسلامی جمہوریہ پاکستان لکھنے سے ملک میں
جمہوریت نہیں پنپتی بلکہ اس کے لیے بہترین اور قابل عمل اقدامات کی ضرورت
پڑتی ہے اور بعض دفعہ موقع محل کے مطابق ان میں اصلاحات اور تبدیلیاں کرنا
بھی ناگزیر ہوجاتا ہے جبکہ ستر سالوں میں گر تبدیلیاں کی گئیں تو وہ بھی
آئین میں کی گئیں ، جس کی وجہ کچھ اور نہیں تھی ماسوائے ارباب اختیارخود کو
بچانے کے لیے ملک کے قانون سے کھیلتے رہے یعنی انھیں صرف اور صرف اپنی ذات
کی پرواہ رہی ۔ملک اور ملک کی عوام جائے بھاڑ میں ،ان ارباب اختیار نے
کونسا ملک میں رہنا ہوتا ہے اقتدار میں رہ کر بھی یہ بیرون ملک کے دوروں
میں مصروف دکھائی دیتے ہیں تو جب اقتدار میں نہ ہونگے تو صاف ظاہر ہے پھر
تو ملک میں ڈھونڈنے سے نہیں ملیں گے۔ ستر سالوں سے نظام کی بدقسمی یا خامی
یہی رہی ہے کہ جہاں بھی اصلاحات ناگزیر تھیں ان پہ توجہ نہیں کی گئی۔جہاں
جہاں نظام اصلاحات کا متقاضی ہے وہیں وہیں نئی سیاسی جماعتوں کا ابھرنا بھی
ضروری ہے جو اپنا نیا ، بہترین اسلامی اور جمہوری منشور لے کر آئیں ،نہیں
تو پرانی سیاسی پارٹیز ہی ملک کے نظام پر قابض رہیں گی اور پھر عوام یہی
کہے گی کہ یہ لوگ توسیاست میں باریاں لے رہے ہیں۔ اب آپ خود بتائیں جب
پارٹیز ہی کل ملا کے دوچار ہونگی تو پھر انھیں پوائنٹ کرنا کہ یہ باری باری
حکوت سنبھال رہے ہیں یا کہنا کہ یہ خاندان مغلیہ خاندان بنا ہوا ہے انھوں
نے سیاست کو گھر کی لونڈی بنا ررکھا ہے،سراسر غلط بات ہے۔اس دفعہ انتخابات
کی فضاء بہت بدلی بدلی سی دکھائی دیتی ہے ہر پل کوئی نئی ہی خبر ملتی
ہے،پہلے کی نسبت لوگوں کے مزاج اور نیت میں بھی تبدیلیاں محسوس کی جارہی ہے
اس مرتبہ گمان ہوتا ہے کہ انتخابات ایک انقلاب ثابت ہونے والے ہیں میر دعا
ہے کہ یہ تبدیلی میرے لیے ،آپ کے لیے ،ہماری قوم کے لیے،ہماری اسلامی
برادری اور پوری دنیا کے لیے خوش آئند اور بہترین ہو ۔آمین
|