معروف صحافی کالم نگار جناب امتیاز احمد بٹ آج 502 تشریف
لائے۔مرحوم بھائی کی تعزیت کی۔موجودہ صورت حال اور خصوصا صحافتی معاملات پر
اظہار خیال کیا۔اللہ سلامت رکھے روزنامہ جموں کشمیر میں جو دوستی جناب خالد
منہاس نے کرائی تھی ۤج بھی قائم ہے۔انہوں نے حیران کر دیا جموں کشمیر کے
جناب بشیر جعفری نے مرنے سے پہلے جن احباب کا ذکر کیا اور محبت سے یاد کیا
ان میں میرا نام بھی شامل تھا۔جعفری صاحب کمال کے شخص تھے چند سال پہلے
انتقال فرما گئے۔یہ وہی جعفری ہیں جو اے سی رہے انتہائی نفیس لکھتے تھے ۔آج
ان کو یاد کیا برادر عامر محبوب اور بہت سے دوست خبریں کے تجربات۔غرض بہت
کچھ شیئر کیا۔اللہ پاک انہیں خوش رکھے 502 دیکھا بڑے خوش ہوئے۔کہنے لگے یار
ٹکٹ کیوں نہیں ملا؟اس سوال کا جواب میں کیا دیتا۔انہیں یہ علم تھا کہ میاں
نواز شریف سے مڈ 2000 میں کتنے گہرے تعلقات تھے۔ہم ایک نئی صبح کی تلاش میں
2007 میں پی ٹی ۤئی میں ۤ گئے۔سچ پوچھیں میرا بھی خیال تھا کہ ایک ٹکٹ تو
کہیں بھی نہیں گیا۔لیکن اندازہ ہوا یہ نظام جمہوریت اور طرز سیاست بہت سے
لوگوں کے لئے موافق نہیں۔ایک کارکن مکھی کی طرح کام کرتے جائیں بناء ستائیش
کے اور اللہ ہی اللہ۔میں یوسف خریدنے ایک اٹی لئے نکل پڑا مجھے نہیں پتہ
تھا فرعون بھی مارکیٹ میں موجود ہے۔اللہ نے جو نصیب میں لکھا ہوتا ہے مل
جاتا ہے۔لیکن سچ پوچھیں اگر یہی سب کچھ سچ ہے تو پھر سزا و جزاء کیوں ؟بس
یہ ایک سوال ہے جو زندہ ہے اور ہر روز رات سونے سے پہلے میرے سامنے ۤآن
کھڑا ہوتا ہے۔اب بھی آدھی رات ہو گئی ہے یہ کم بخت سوال مجھ سے پوچھتا ہے
کہ کیا حق مانگا جاتا ہے یا چھینا جاتا ہے؟کبھی سید مودودی یاد ۤتے ہیں جو
کہا کرتے تھے اللہ مجھ سے کوشش کا پوچھے گا لیکن دوسرے ہی لمحے سوچتا ہوں
میں تو سید مودودی سے مل چکا ہوں وہ مجھے جانتے تھے میرا نام لے کر کہتے
تھے گجرانوالہ سے میرے ننھے دوست افتخار ۤ گئے ہیں ۔لیکن میری آئیندہ آنے
والی نسلوں کو کون سمجھائے گا۔میں تو کہتا رہا ہوں کوشش جاری رکھیں۔ ایک نہ
ایک دن موسم بدلے گا۔ان ٹکٹوں کے چکر میں نہ پڑیں۔ٹکٹ تو عمر چیمہ کو بھی
نہیں ملا سیف اللہ نیازی کو بھی نہیں۔جو 2013 میں ٹکٹ بانٹ رہے تھے۔
پی ٹی آئی ایک خواب کا نام تھی ہم ان دنوں جب یہ ٹانگے کی سواری تھی سوچا
کرتے تھے کہ کب وقت ۤئے گا۔ذاہد کاظمی میں سیف اللہ نیازی سردار اظہر طارق
کرنل یونس سب سوچا کرتے تھے کہ کیا ہم اپنے دور میں اپنی زندگی میں کچھ کر
پائیں گے وہ دن دیکھ پائیں گے کہ تحریک انصاف عوامی جماعت بنے گی۔ہماری
دعائیں تھی کہ وہ دن ۤئے لیکن شائد اس دعا میں اس کے ثمر سے فیض یاب ہونے
کے الفاظ ہم نے شامل نہیں کئے تھے۔امتیاز بٹ میری طرح نئے نئے کاروبار نئے
ۤئیڈیاز لئے گھومتا ہے میں اسے جھوٹی تسلی دیتا ہوں کہ میں یہ کام کرنے جا
رہا ہوں وہ مجھے کہتا ہے کہ وہ گوادر کی زمین بیچے گا۔سچ پوچھیں امتیاز بٹ
کچھ نہیں بیچے گا اور نہ میں کوئی کمپنی بنا پائوں گا۔ہم نے سوچ رکھا تھا
کہ ایک مدت نوکری کی ہے آرام سے کھائیں گے۔لیکن آرام سے کھانا تو مل گیا
لیکن سچ پوچھیں وہ تڑپ اب بھی زندہ ہے۔کیا پھر وہ وقت آ گیا ہے کہ بریف کیس
یا لیپ ٹاپ کاندھوں پر لٹکائے کسی کی نوکری کرنے نکلیں۔اور شام کو تھکے
ہارے گھر آئیں بیگم بڑی عظیم چیز ہے مہینے کے شروع میں بچوں سے ملے پیسے
روز میرے بٹوے میں ڈال دیتی ہے اور پھر مجھ سے مانگتی رہتی ہے۔اسے یہ احساس
زندہ رکھنا ہے کہ میرا میاں جو مہینے کے بارہ لاکھ کماتا تھا ایک جنونی شخص
بن کر پی ٹی آئی کے قافلے میں شامل ہو گیا اور اب کنگلا ہے وہ محسوس نہ کرے
کہ اس کا سر تاج خالی ہے۔میں جب پریشان ہوتا ہوں تو اسے کہتا ہوں مرنے سے
پہلے ایک بار پھر میرا دور آئے گا پھر تم مہینے کہ تیس یا اکتیس کی درمیانی
رات کو ٹن کے میسیج کے ساتھ یہ خبر سنو گی کہ آپ کے اکائونٹ میں چالیس ہزار
ریال آ گیا ہے ۔
بشیر جعفری کی باتیں اور میرے جیسے کنگلے دانشور کا مزاج یہ مر ہی جانے
والی چیزیں ہیں۔میرا دکھ یہ نہیں کہ مجھے ٹکٹ نہیں ملا دکھ یہ ہے کہ میرے
جیسوں کو ملے گا بھی نہیں یا وہ کسی کے گریبان میں ہاتھ ڈال دے یا وہ جو
اتنے پیسے رکھے جس کو گننے کے لئے کئی بینکوں نے ایم بی اے رکھے ہوئے ہیں۔
مجھے 2013 یاد ہے وہاں اس وقت تو عام کارکنوں کو ٹکٹ مل گئے تھے۔لیکن اب
کیوں نہیں؟شائد اب بیوپاری درمیان میں آ گئے ہیں شائد ان کی چل رہی ہے۔مجھے
یہ جان کر دکھ ہوتا ہے جب راجہ نعیم نواز روتا ہے۔اس سے پہلے کتنے چھوڑ گئے
میں ڈٹا رہا اور رہوں گا۔مجھے محسن احسان کا شعر جو یاد ہے
ستم بھی ہو تو اسے ہم کرم ہی مانتے ہیں
اہم اہل ظرف شکایات کم ہی جانتے ہیں
شکائتیں اہل ظرف کریں بھی کس سے کون سنے گا۔بنی گالہ کا بمبو شکووں والوں
کے لئے اٹھتا۔
وہ وقت بھی نہیں رہا اور یہ وقت بھی چلا جائے گا ہاں یاد رہ جائیں گے یاد
روئیے ۔روئیے یاد رہ جاتے ہیں۔بے جی کہا کرتی تھیں ضرورت مند کی اگر ضرورت
نہیں پورا کر سکتے تو ہمدردی کے دو بول ہی بول دیا کرو۔اس میں تو کوئی شک
نہیں تھا کہ جسے نہیں ملا اور جسے مل گیا ان کو بٹھا کر کوئی ہمدردی کے دو
بول بول دیتا لیکن لگتا ہے وہ لوگ دکان اپنی بڑھا گئے ہیں۔اللہ پاک امتیاز
بٹ کو خوش رکھے زخم چھیڑ کر چلا گیا ہے۔مجاہد سید نے ایک خوبصورت شعر کہا
سنئیے چہرے کی گرد پونچھنے والا کوئی تو ہو لمبی مسافتوں سے جو گھر جائے
آدمی
یہاں چہرے کی گرد پونچھنے والا ہے ہی نہیں امتیاز آئے تو دل کھول کر دکھڑا
سنایا۔بشیر جعفری آپ ہم سے پہلے چلے گئے ہم آپ کے بعد آئیں گے۔ہم جو پرچی
چھوڑ کر جائیں گے وہ پرچی اور اس اوپر لکھے جانے والے نام آپ کے دوستوں
جیسے ہی ہوں گے۔اللہ آپ کا وہ جہان چنگا کرے۔آمین آہ بشیر جعفری واہ امتیاز
بٹ |