سزا میں قیدی برابر ہیں چنانچہ نواز شریف اور مریم نواز
کو قیدی نمبر بھی الاٹ ہوئے اور دیگر قیدیوں کی طرح جیل میں رکھا گیا ہے
ویری گڈ، شکر ہے ان کو اس طرح ہائوس اریسٹ نہیں کیا جس طرح رائو انوار اور
بہت سے دیگر کو رکھا جاتا ہے۔
افسوسناک حملے میں بلوچستان کے علاقے میں ایک ہی دن میں ١٢٠ سے زائد افراد
کی شہادت ہوتی ہے اللہ سب کو غریق رحمت کرے مگر یہاں بھی شہادتوں میں پک
اینڈ چوز ہورہا ہے۔
جب دہشتگردی کے واقعات رک جاتے ہیں یعنی دہشت گرد یا تو ڈر کر یا پلانگ سے
خاموشی ہو اسٹریجی کے ساتھ اپنے حوصلے، وسائل اور معاملات کی پلاننگ کرتے
ہیں تو ہم خوش ہوکر دعوے شروع کردیتے ہیں کہ توڑ دی جناب کمر، بازو، ٹانگیں
اور سر سب توڑ دیئے دہشت گردوں کے اور خاتمہ ہوگیا اور یہ ہو گیا وہ ہوگیا۔
ہمیں خوابات دیکھنے اور قوم کو دکھانے کی بڑی جلدی ہوتی ہے، اس طرح لگتا یہ
ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کر کے اب ہم فارغ ہوگئے ہیں چنانچہ ایک دوسرے پر
الزام تراشیاں اور سیاسی و غیر سیاسی ایکشن اور ایڈونجرز شروع ہوجاتے ہیں
یہ سب دیکھ کر دہشت گرد بھی ٹی وی دیکھ دیکھ کر ہنستے ہونگے کہ چلو ابھی
انہیں دکھاتے ہیں دہشت گردوں کا کیا کچھ توٹ گیا ہے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے
ہیں کہ دہشت گردوں کے تانے بانے سیاسی جماعتوں میں نہیں ہوتے بلکہ وہ
باقاعدہ ایک فورس کی طرح ہتھیار اور نظریے سے لیس ہیں اور ان کے حوصلے بھی
ویسے ہی ہیں اور ان کے ارادے اور ایکشن بھی تسلسل کے ساتھ اور ان کی مرضی
کے ساتھ ہوتے ہیں اگر وہ چند ماہ کوئی کاروائی نہیں کرتے تو اس میں ہمارا
کیا کریڈت ؟ یہ سارا تو ان کی پلاننگ کے حساب سے ہوتا ہے پھر جب وہ سب
پلاننگ کرلیتے ہیں تو پھر وہی ایک حملہ کرتے ہیں اور ہم اپنے زخم چاٹتے نظر
آتے ہیں۔
پہلے پشاور لہو لہو ہوا، پھر بنوں میں شیطانی کھیل کھیلا دہشت گردوں نے اور
اب مستونگ کا المیہ ہمارے سامنے ہیں۔
دہشتگرد جہاں بھی ہیں وہ آرام سے وہیں موجود ہیں، ان کو وسائل اور اسلحہ
بارود بھی حیرت انگیز طور پر میسر ہوتا ہے جو ظاہر ہے کہ کوئی جیب میں رکھ
کر تو نہیں لاتا ہوگا بلکہ چیکنگ کے سخت ترین مراحل سے گزر کر ہی آتا ہوگا۔
ان کے شیطانی دماغ رکھنے والے نظر نہیں آتے اور نہ قوم کو ان میں سے کسی
رہنما کے نام تک سے آگہی ہے مگر وہ لگتا ہے کہ نام سے زیادہ کام پر توجہ
دیتے ہیں۔ جو تھوڑا بہت وہ ڈرتے بھی ہونگے تو امریکی ڈرون سے ڈرتے ہونگے کہ
تاریخ شاہد ہے کہ طالبان اور دہشت گرد دوسری تنظیموں کے جتنے ٹاپ کے لیڈران
امریکی حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں ان میں سے ١٠ فیصد بھی ہم بہادروں نے ہلاک
نہیں کیئے، ہم ان کو ہلاک کرنا تو دور کی بات ان کی کمین گاہوں اور ان کے
وسائل اور پاکستان میں ان سے ہمدردی رکھنے والے واضع لیڈران کو تباہ کرنے
میں ناکام ہیں تو دہشت گردوں کے لیڈران تک پہنچنا تو جوئے شیر لانے کے
مترادف ہے۔ ان کے منصوبہ ساز بھی ہونگے اور ان کے لئے جانیں قربان کرنے
والے شیطان بھی بے شمار ان کے پاس موجود ہیں جو نام کا کریڈت نہیں لیتے
بلکہ اپنے مکروہ نظریات میں پختہ ہیں۔
کیسے یہ لوگ ایک علاقے سے پشاور، بنوں، مستونگ اور جانے کہاں کہاں جاتے،
اپنے رہائش اور نقل و حمل کا بھرپور انتظام کرتے ہیں اور اپنے منصوبہ کے
اوقات پر باآسانی اپنی کاروائیاں انجام دے دیتے ہیں۔ اور ہم سیاسی اور
حکومتی پلاننگ کے تحت نہتے مجرموں کو جیٹ طیارے، ہیلی کاپٹر اور انتہائی
فعال اہلکاروں کے کانوائے میں درجنوں گاڑیوں میں جیل تک پہنچا کرخوشیاں
منارہے ہیں کہ ہماری پلاننگ صرف سیاسی جمع تفریق پر خوب چلتی ہے باقی
فدائیوں کا ہم کیا کرسکتے ہیں۔ ؟
١٢٠ یا ١٥٠ سے زائد افراد جو تھے اب نہیں رہتے، ان کے اہل و عیال ان کے
رشتے دار ان کے پیارے، ان کی آرزوئیں، ان کی تمنائیں اور ان کے جذبات شہید
ہوجانے والوں کے ساتھ ساتھ قبر میں دن ہوجاتی ہیں۔ بے شمار یعنی ٢٠٠ سے
زائد زخمی ہوکر زندگی اور موت کے درمیان معلق ہیں ان کے پیارے انہیں دیکھ
دیکھ کر جی اور دیکھ دیکھ کر مر رہے ہیں۔
کوئی سیاسی حکومت ہوتی تو اس پر الزام تراشیوں اور استعفی مانگنے کے سلسلے
سڑکوں سے لیکر میڈیا اینکرز کے پروگراموں پر زور و شور سے جاری رہتے، مگر
نگران حکومت جو کہ گزشتہ ١ ماہ سے زائد عرصے سے ہر سیاہ سفید کی مالک حکومت
ہے، اس سے پوچھنا ایسا ہے گویا کفر کرنا۔ کوئی نگران حکومت کے وزرا سے
پوچھنے کا حوصلہ نہیں رکھتا کہ جناب حکومت اور سیکورٹی کی زمہ داری آپ کی
ہے اس عرصے میں تو آپ جواب دیجیے، نہییں جناب ایسا کوئی نہیں کرے گا کیونکہ
کسی نےنواز شریف کی طرح اپنے اوپر فضول کے مقدمات اور نیب کے نوٹسسز نہیں
لینے۔
ان واقعات میں سو سے زائد افراد شہید ہوئے مگر ہم پاکستانیوں کو دو چار
شہدا کے ناموں کے علاوہ کس کے نام یاد ہیں، جس طرح سیاسی رہنما، حکومتی
رہنما اور دیگر ہارون بلور اور سراج رئیسانی کے گھروں پر جاکر تعزیتیں
کررہے ہیں یہ اچھی بات ہے بہت اچھی بات ہے حوصلہ بڑھانا بھی ضروری ہے مگر
صرف چند افراد کا حوصلہ اور جو سو سے زائد بے نام پاکستانی ان چند حملوں
میں شہید ہوئے ہیں کیا ان کے اہل خانہ کو حوصلے اور تعزیتیں نہیں چاہیئے
کیا وہ انسان نہیں ہلاک ہوئے۔
جب قیدی سارے برابر ہیں تو شہدا برابر کیوں نہیں، کیوں نہیں سراج رئیسانی
اور ہارون بلور کے گھروں پر تعزیت کرنے والے بڑے بڑے نام تمام شہدا کے
گھروں پر نہیں جاتے اور انہیں ہمت، دلاسے اور حوصلے کیوں نہیں بانٹتے کیا
صرف اسلئے کہ اس پبلسٹی سے بڑے بڑے ناموں کو کوئی اشتہاری فائدہ نہیں ہوگا۔
افسوس کی بات ہے قیدی تو برابر اور شہدا میں تفریق۔ کیا اس طرح اقوام ترقی
پاتی ہیں یا مزید ذلت و رسوائی کےگڑہوں میں دھنستی چلی جاتی ہیں۔
کیا ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردوں کے حوصلے، وسائل اور اسلحہ ختم کردیا ہے
ہم نے اور اب ان کے پاس نہ خودکش مواد ہے اور نہ ہی خودکش افراد اور کیا
یہی وجہ ہے کہ ہم دہشت گردی کے تھم جانے پر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ دہشت
گردی اور دہشت گرد ختم ہوگئے ہیں اور دہشت گردوں سے نمٹنے والے اور نمٹانے
والے دوسری محازوں پر مصروف ہوجاتی ہیں کہ کس طرح اپنی مرضی کے گھوڑوں اور
گدھوں کو اقتدار کے سنگھاسن پر لایا جاسکے۔ ملک میں پاکستانی عوام سے زیادہ
پاکستانی اقتدار پر لوگ ہاتھ اور دانت صاف اور تیز کررہے ہیں۔
دل و دماغ اور الفاظ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں کہ کیا لکھا جائے اور کیا کیا
جائے، مگر لگتا ہے ہمارے کرنے کا کام کچھ نہیں اور ہر کام کی طرح اس کام پر
بھی ہم اپنی ذمہ داریاں اور اپنے فرائض بھول کر صرف یہ کہنے میں ہی عافیت
جانتے ہیں “ کہ اللہ کی یہی مرضی تھی اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے“ افسوس
صد افسوس۔
یااللہ ہمیں عقل سلیم اور عمل صالحہ عطا فرما اور ہمیں اس عذاب سے بچا کہ
جو ہم پر بحیثیت ایک قوم واجب ہوچکا ہے، ہم ہر ہر میدان اور ہر ہر موضوع پر
دنیا میں عبرت کا نشان بنے ہوئے ہیں اور ہمارے ارباب اختیار خواب خرگوش کے
مزے لوٹ رہے ہیں اور ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھال رہے ہیں اور
ہم عوام ہر ہر سطح پر انفرادی کرپشن، جہالت اور بے عملی کا بدترین نشان بن
چکے ہیں۔
یا اللہ معاف فرما اور ہم تو پاکستان کی حفاظت جتنی کرسکتے ہیں وہ ہمارے
سامنے ہی ہے، یا اللہ ہمارے ملک و قوم کی حفاظت فرما اور ہماری جہالت، بے
عملی، بے راہ ری اور بے انصافیوں پر ہمیں معاف فرما آمین
|