حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ
عنہ کے دور میں ایک علاقے کے گورنر تھے اس وقت امیر المومنین شہر کی جامعہ
مسجد میں جاتے اور عام لوگوں سے گورنر کی بابت پوچھتے کہ لوگوں! تمہیں
گورنر سے کوئی شکایت تو نہیں -
جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کی بابت
لوگوں سے پوچھا کہ گورنر سے کوئی شکایت تو نہیں تو لوگوں نے جواب دیا چار
شکایتیں ہیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے گورنر کو بلایا اور فرمایا
چار شکایتیں ہیں لوگوں کو آپ سے پہلی یہ کہ آپ لوگوں سے فجر کے وقت نہیں
ملتے اشراق کے وقت ملتے ہیں-
حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میری بیوی جس نے تیس سال
میری خدمت کی اب بیماری کی وجہ سے معذور ہو گئی ہے میں صبح نماز پڑھ کر
اپنی بیوی کو ناشتہ بنا کر دیتا ہوں اسکے کپڑے دھوتا ہوں اس کا پاخانہ صاف
کرتا ہوں اسلیے دیر ہو جاتی ھے لوگوں سے ملنے میں- جب لوگوں نے پہلی شکایت
کا جواب سنا تو انکے رونگھٹے کھڑے ہوگئے-
دوسری شکایت یہ ہے کہ آپ ہفتے میں ایک دن لوگوں سے نہیں ملتے-
سعید بن عامر رضی اللہ عنہ بولے میں اس کا جواب ہرگز نہ دیتا اگر پوچھنے
والے آپ نہ ہوتے بہرحال بتا دیتا ہوں میں گورنر ضرور ہوں لیکن بہت غریب ہوں
میرے پاس یہی ایک جوڑا کپڑوں کا ہے جسے میں ہفتے میں ایک دن دھوتا ہوں پھر
سوکھنے تک میں اپنی بیوی کے کپڑے پہنتا ہوں اس لئے لوگوں کے سامنے نہیں آتا
اس دن- یہ سن کر عمر فاروق رضی اللہ عنہ رونے لگے اور سعید بن عامر رضی
اللہ عنہ کے بھی آنسو جاری ہو گئے-
تیسری شکایت یہ کہ آپ رات کو ملتے نہیں
سعید بن عامر رضی اللہ عنہ بولے دن سارا مخلوق کی خدمت کرتا ہوں میری داڑھی
سفید ہو چکی ہے مطلب کہ کسی وقت بھی مالک کا بلاوا آسکتا ہے اس لئے پوری
رات اس رب ذوالجلال کی عبادت کرتا ہوں کہیں دن حشر کو رسوا نہ ہو جاؤں-
چوتھی شکایت ان لوگوں کی یہ ہے کہ آپ بے ہوش کیوں ہو جاتے ہیں؟
سعید بن عامر رضی اللہ عنہ بولے میں چالیس سال کی عمر میں مسلمان ہوا ان
چالیس سالوں کے گناہ یاد کر کے روتا ہوں کیا پتا میرا مالک مجھے بخشے گا
بھی یا نہیں بس خشیت الہی سے میں بے ہوش ہو جاتا ہوں اے عمر رضی اللہ عنہ
ان شکایتوں کے نتیجے میں جو میری سزا بنتی ہے دے دو -
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اٹھے اور رب سے التجا کی یا اللہ اس طرح کے
کچھ اور گورنر مجھے عطا کیے جائیں مجھے ان پر فخر ہے- |