ملک میں تبدیلی لانی ہے تو یہ کرنا پڑے گا

تحریر: سفیر احمد چوہدری، اسلام آباد
اقوام عالم کی تاریخ تغیرات سے بھری پڑی ہے ۔کسی بھی قوم کی ترقی کا دارومدار اس میں وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والی مثبت تبدیلیوں پر ہوتا ہے اور اگر یہی تغیرات منفی ہوں تو قوموں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ بھی بنتے ہیں ۔تاہم مثبت ہوں یا منفی قوموں کو اپنی بقا کے لئے وقت کے تقاضوں کے مطابق تغیرات سے گزرنا پڑتا ہے ۔آج سے 14 سو سال پہلے آنے والا اسلامی انقلاب ہو یا دو سوسال پہلے آنے والا انقلاب فرانس،دو بڑی عالمی جنگیں ہوں یا 1857 کی جنگ آزادی،ہر قوم کو اپنی بقا کی جنگ میں تغیرات سے گزرنا پڑا اور یہ تبدیلیاں ہی اقوام کے عروج اور زوال کا باعث بنیں۔

پاکستان 1947ء کو معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کا وجود میں آنا بھی ہندوستان کے مسلمانوں کے نظریات اور سوچ میں تبدیلی سے ممکن ہوا۔ وطن عزیز کو معرض وجود میں آئے 6دہائیوں سے زائد عرصہ بیت چکا ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان سالوں میں ہم نے بدعنوانی، بددیانتی ،فرقہ واریت، آمریت، منشیات ،جھوٹ غرض یہ کہ ہر چھوٹی بڑی برائی کو فروغ دیا۔ہمارا ملک وجود میں آنے کے کچھ سال بعد ہی سازشوں کا شکار ہونے لگا اور جمہوریت پر پہلا وار فیلڈ مارشل ایوب خان نے مارشل لاء لگا کر کیا اور قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا پھر اقتدار کی جنگ،سازشوں اور مفاد پرستی نے ہمارے ملک میں ایسے ڈیرے ڈالے کہ یہ برائیاں اب ناسور بن چکی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ایک کمزور جمہوریت طاقتور ترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے مگر پاکستان میں جمہوریت کو اول تو چلنے ہی نہ دیا گیا اور اگر چلی بھی تو بس اپنے مفادات کے لئے۔ جمہوریت ہو یا آمریت پاکستان میں اسے صرف اپنے مفادات کے لیے ہی استعمال کیا گیا۔
ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق پاکستان ایمان دار ممالک کی فہرست میں 160ویں نمبر پر ہے۔ذرا سوچئے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی جوکہ خود کو ایک سچا مسلمان کہتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، حج پر جاتے ہیں مگر ایمانداری میں ہم 160 ویں نمبر پر کیوں؟

درحقیقت ہمارے ہاں بددیانتی اوربدعنوانی ہر خاص و عام میں سرایت کر چکی ہے اور اس کا سدباب ناگزیر ہوچکا ہے۔پاکستان کو اس وقت تبدیلی کی اشد ضرورت ہے اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ ایک مشکل کام نظر آتا ہے۔مشکل اس لیے کہ یہاں صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح سمجھا جاتا ہے۔مشکل اس لئے کہ یہاں بے گناہوں کا قتل عام ایک عام سی بات ہے۔مشکل اس لئے کہ ہمیں ا سکولوں اور کالجوں میں غلط تاریخ پڑھائی گئی۔ مشکل اس لیے کہ دوسروں پر الزام تراشی کرنا عام سی بات ہے۔مشکل اس لیے کہ یہاں اجمل قصاب کو ہیرو مانا جاتا ہے جبکہ عبدالقدیر خان کو کوئی پوچھتا تک نہیں۔ مشکل اس لیے کے معاشرے کا بڑا حصہ غیر تعلیم یافتہ ہے۔ مشکل اس لیے کہ ملک ایک بڑے عرصے تک آمریت کا شکار رہا۔ مشکل اس لیے کہ یہاں آزادیِ اظہار تو ہے مگر اظہار کے بعد آزادی نہیں۔ مشکل اس لئے کہ ادارے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔ مشکل اس لئے کے آبادی بڑھنا اور سہولیات کا فقدان ایک بڑا مسئلہ ہے اور مشکل اس لئے کہ بدعنوانی اور بددیانتی ہمارے معاشرے کے ہر خاص و عام میں پائی جاتی ہے۔

تبدیلی درحقیقت سوچ کے بدلنے کا نام ہے اور سوچ کے بدلنے کے لئے انفرادی طور پر کوششیں کرنی چاہئیں کیونکہ افراد ہی سے مل کر اقوام بنتی ہیں۔ معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے خود کو بدلنا بہت ضروری ہے سارا الزام لیڈران پر ڈالنا بھی غلط بات ہے۔ ہماری انفرادی طور پر بھی کچھ ذمے داریاں بنتی ہیں۔ مثبت تبدیلیوں کے لئے افراد کا مثبت کردار بہت ضروری ہے۔

سب سے پہلے ہمیں تعلیم پر توجہ دینا ہوگی۔ہماری شرح خواندگی بہت کم ہے اس کو بڑھانے کے لئے بجٹ میں ایک بڑی رقم رکھی جائے کیونکہ ایک تعلیم یافتہ شخص ہی صحیح اور غلط کے درمیان فیصلہ کر سکتا ہے۔ اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو امن ،رواداری اور محبت کا درس دیں اور معاشرے کی درست تعمیر میں عملی کردار ادا کریں اس کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ اور سرکاری اسکولوں کے درمیان فاصلے کو کم کیا جائے تاکہ غریبوں کے بچے بھی معیاری تعلیم حاصل کر سکیں۔ہمیں سائنس اور تحقیق میں سرمایا کاری کرنی چاہیے جس سے توانائی کے مسائل پر قابو پایا جاسکے۔

اس کے بعد صحت کا نمبر آتا ہے ہمیں صحت کے شعبے کی طرف جلد از جلد توجہ دینا ہوگی کیونکہ پڑھے لکھے اور صحتمند افراد ہی ایک مہذب معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں۔ اسپتالوں کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے اور ہنگامی بنیادوں پر صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے اقدامات کئے جائیں۔

جمہوریت کسی بھی ملک کے لیے انتہائی ناگزیر تصور کی جاتی ہے اور کامیاب اقوام کے پیچھے جمہوریت کا تسلسل ہوا کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا ملک ایک بڑے عرصے تک آمریت کا شکار رہا۔ایک پڑھے لکھے اور صحتمند معاشرے کے قیام کے لیے جمہوریت کا ہونا بھی بہت ضروری ہے لہٰذا جمہوریت کا تسلسل ہمارے لئے انتہائی اہم ہے جس میں آمریت کی کوئی گنجائش نہ ہو۔تعلیم اور آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ہماری آبادی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور سہولیات کا فقدان ہے۔ملک میں آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے آگاہی پیدا کی جانی چاہیے تاکہ ایک صحتمند اور سہولیات سے بھرپور معاشرے کو تشکیل دیا جا سکے۔

ہمیں ملک سے فرقہ واریت کو ختم کرنا ہوگا اور قائداعظم کے مطابق ایسی ریاست بننا ہوگا جہاں اقلیتوں کو تحفظ حاصل ہو ہر زبان، رنگ اور نسل کو عزت اور حق دیا جائے۔صوبوں کو منصفانہ حقوق دیئے جائیں تاکہ بعض صوبوں میں پیدا ہونے والی بغاوت اور قوم پرستی کو ختم کیا جا سکے۔ملک میں مساوات اور انصاف کا نظام قائم کیا جائے اور اداروں کو اپنی حدود سے تجاوزکرنے سے روکا جائے اور ان کا احترام کیا جائے۔

تبدیلی مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں بس ضرورت صرف انفرادی و اجتماعی طور پر مثبت اقدامات اٹھانے کی ہے۔اپنی ذات سے شروع کیجیے اگراپنی ذات کو ٹھیک کرلیا تو سمجھو کہ ملک کو بدلنے کا آدھا کام ہوگیا۔ آخر میں ایک بوڑھے آدمی کی کہانی ہے کہ ’’جب میں چھوٹا تھا تو میں دنیا کو بدلنا چاہتا تھا مگر مجھے دنیا کو بدلنا بہت مشکل لگا تو میں تو میں نے اپنی قوم کو بدلنے کا سوچا لیکن جب یہ پتا چلا کہ میں قوم بھی نہیں بدل سکتا تو میں نے اپنے شہر پر توجہ مرکوز کی،وہ بھی نا ہوسکا تو سوچا اپنے خاندان کو ہی تبدیل کروں اور اب بوڑھا ہونے کی وجہ سے صرف خود کو ہی تبدیل کرسکتا تھااچانک مجھے پتا چلا کہ اگر میں نے بہت عرصہ پہلے خود کو بدلہ ہوتا تو تو میں اپنے خاندان کو بدل سکتا تھا اور میرا خاندان شہر بدلنے میں اہم کردار ادا کر سکتا تھا جس سے پوری قوم بدل سکتی تھی اور آخرکار میں دنیا کو بدل سکتا تھا‘‘۔ تو خدارا! اپنے وطن کی خاطر اپنی اصلاح کیجئے، اپنا محاسبہ کیجئے، خود کو ٹھیک ثابت کیجئے یہی تبدیلی کی جانب ہمارا پہلا قدم ہوگا۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141409 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.