نواز شریف کے خلاف بغض بڑھتا کیوں جارہاہے ؟

 نواز شریف کی خواہش تھی کہ میں لاہور میں اپنی عوام کے سامنے گرفتاری دوں ۔اس پر بھی نگران حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ موٹروے ‘ جی ٹی روڈ اور لاہور سمیت تمام شہروں کو کینیٹنروں سے آراستہ کر کے بند کردیاگیا ۔ ائیرپورٹ رینجر کے حوالے اور پولیس کو گھروں پر چھاپے مارنے اور گرفتاریاں کرنے پر لگا دیا گیا ۔شہباز شریف سمیت کتنے ہی سینئیر لیگی رہنماؤں کے خلاف مقدمات بھی درج ہوچکے ۔ان اقدامات کو دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ الیکشن غیر جانبدارنہ ہی ہوں گے ۔ تحریک انصاف کو کنگ پارٹی کا درجہ حاصل ہوچکا ۔ وہ جہاں چاہے قانون کی دھجیاں بکھیرے ‘ اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ میں شام ڈھلے گھر پہنچا تو محلے میں تحریک انصاف کے کئی دفتر اچانک کھلے نظر آئے ۔ایک اجنبی شخص سے پوچھا کہ اچانک یہ سب کچھ کیسے ہوگیا ؟ اس نے رازدارانہ انداز میں بتایا کسی کو بتانا نہیں۔ 10ووٹ کی یقین دہانی پر 125-CCموٹرسائیکل ملتی ہے ‘جو دفتر کھولے ‘ اسے ایک لاکھ روپے نقد اور ایک ہزار روزانہ چائے پانی کا ملتاہے۔ جبکہ جلسہ کروانے پر پیشگی 50 ہزار ملتے ہیں ۔ اس نے مجھے بھی کہا باؤ جی ۔شیر کو بھول جائیں ‘ بلے کو یاد رکھیں جو ہماری غربت دور کررہا ہے ۔ یہ سن کر حیرت ہوئی کہ الیکشن کمیشن نے اخراجات کی جو حد مقرر کی ہے ۔عمران کی ATM کامیابی حاصل کرنے کے لیے کہیں زیادہ خرچ کررہی ہے ۔ حلقے میں ہر جانب تحریک انصاف کے ہی بینر دکھائی دیتے ہیں‘ باقی جماعتوں کے امیدوار وں میں علیم خان کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ۔ یہ تو ایک حلقے کی بات ہے ۔ نیب عدالت نے سزا سناتے ہوئے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ نیب ‘ نواز شریف پر کرپشن کاالزام ثابت نہیں کرسکا ۔اس کے باوجود عمران خان ہر جگہ نواز شریف اور اس کے خاندان کو چور کہہ کرمخاطب کرتے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے سپورٹر بھی چور چور کاشور مچاتے پھر رہے ہیں۔میں سمجھتا ہوں یہ نواز شریف اور اس کے خاندان کی توہین ہے جو ایک لفظ بھی جواب میں نہیں بولتا اور عمران کے تمام الزامات کو ہضم کرتا جارہا ہے ۔نواز شریف اگر چاہتے تو عمران کو مختلف القاب سے نواز سکتے تھے ۔کیونکہ اندرون ملک اور بیرون ملک خواتین سے دوستیوں اور جنسی جرائم کے اعتبار سے عمران خان کا ریکارڈ قابل رشک نہیں بلکہ مغرب معاشرے میں جتنی بھی خرابیاں موجود ہیں وہ سب کی سب عمران خان میں موجود ہیں۔گلالئی سمیت کتنی ہی خواتین ان پر بیہودہ میسج اور جنسی ہراساں کرنے کا الزام لگا چکی ہیں ۔ریحام بھی ہم جنس پرستی کا الزام اپنی کتاب میں عائاکرچکی ہے ۔ اگر یہی الزامات نواز شریف پر لگتے تو ایک اور جے آئی ٹی تشکیل پا چکی ہوتی لیکن انصاف کی دیوی کو شاید عمران پر اس قدر فریفتہ ہے کہ اس کے گناہ بھی نیکیاں اور عمران کے جھوٹ بھی سچ دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان پانچ مقامات پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ۔ سیتا وائٹ سے نکاح کے بغیر بیٹی کی پیدائش کے دستاویزی ثبو ت ریٹرنگ افسر وں کو پیش کیے گئے ۔ عمران کہیں بھی عدالت اور ریٹرنگ افسر کے سامنے پیش نہیں ہوئے ‘ پھر بھی وہ ہر جگہ اہل قرار پاچکے ہیں ۔ سرکاری ہیلی کاپٹر کے استعمال کا معاملہ بھی نیب کے سرد خانوں پہنچ چکا ہے ۔بنی گالہ محل کی غیر قانونی تعمیر کی جھوٹی دستاویز کو بھی سچ مان لیا گیا ۔ عمران خان عمرہ کرنے گئے ۔ میڈیا میں بہت شور مچا کہ ۔کس اتھارٹی نے زلفی بخاری کانام ای سی ایل لسٹ سے نکالا اور کس نے نور خان ائیرپورٹ استعمال کرنے کی اجازت دی ۔ چند دن کی بازگشت کے بعد یہ معاملہ بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا ۔ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی جس پر رؤف کلاسر کی جانب سے یہ تحریر درج تھی" عمران ‘ نجی محفلوں میں نیب عدالت کے جج کو گالیاں دیتا ہے کہ اس نے فیصلے میں یہ کیوں لکھا کہ نواز شریف پر کرپشن کا الزام ثابت نہیں ہوا ۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ عدالت فیصلہ بعد میں سناتی ہے ‘ عمران کو پہلے پتہ چل جاتاہے ۔یہ بھی اتفاق ہے کہ عمراں جو کہتے ہیں فیصلہ بھی وہی ہوتا ہے ۔ ڈیڑھ سال پہلے عمران نے نواز شریف کو اڈیالہ جیل میں ہی قید ہونے کی بات کی تھی ۔جو اب پوری ہوچکی ہے ۔ اس تناظرمیں یہی کہاجاسکتا ہے ۔ یا تو عمران خان ولی کامل کے درجے پر فائز ہوچکے ہیں یا ان کے روابط پس پردہ ایسی قوتوں کے ساتھ استوار ہوچکے ہیں جو فیصلے کرنا اختیار رکھتی ہیں۔ دال میں کچھ کالا ضرور ہے ۔ 2014ء دھرنے کے دوران پارلیمنٹ ‘ وزیر اعظم سیکرٹریٹ ‘ ریڈیو پاکستان سمیت کتنی ہی سرکاری املاک کو تحریک انصاف کے کارکنوں نے عمران کے بہکانے پر حملہ کرکے نقصان پہنچایا‘ ایس پی پولیس کو زودکوب کیاگیا ۔ اڑھائی سال تک پیش نہ ہونے پر دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان اور اہر القادری کو اشتہاری قرار دے دیا ۔جب عمران پیش ہوئے تو انہیں ہر قسم کے الزامات سے بری کردیا گیا ۔ دوسری جانب نواز شریف‘ کرپشن کے الزام سے بری ہوکر لندن سے وطن واپس پہنچے تو انہیں عوام سے خطاب کرکے گرفتاری دینے کی سہولت بھی فراہم نہیں کی گئی بلکہ کئی ٹی وی چینلز پر ان کے بارے میں توہین آمیز القابات کی تکرار جاری رہی ۔جہاں آمدنی سے زائد اثاثوں کا معاملہ ہے ۔واپڈا کے لائن سپرنٹنڈنٹ سے لے کر ججوں اور جرنیلوں تک کے اثاثے ان کی آمدن سے کہیں زیادہ ملیں گے ۔ایک مقولہ مشہور ہے کہ ہر سرکاری ملازمین کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کی رشوت لیتے ہیں ۔ چند نیک سیرت ملازمین سے معذر ت کے ساتھ۔ بطور مثال مشرف کی جائیداد دیکھ لیں۔ مقتدر حلقوں کو یہ بات نہیں بھولنا چاہیئے کہ آئین معطل کرنے ‘ ججز کو نظر بندکرنے ‘ لال مسجد میں بچیوں کو شہید کرنے کے باوجود اگر پرویز مشرف کو انکی رہائش گاہ "چک شہزاد"کو جیل قرار دے کر رہنے کی اجازت دی جاسکتی ہے تو ڈیڑھ کروڑ ووٹروں کے پسندیدہ لیڈر نواز شریف کو بھی اڈیالہ جیل کی بجائے اگر "جاتی عمرہ " میں مقید کردیاجاتاتو زیادہ بہتر ہوتا ۔نواز شریف کے ساتھ مریم نواز (بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں) کو سزا دینا زیادتی ہے ۔ جس کے پاس نہ تو کوئی انتظامی عہدہ تھا اور نہ ہی کرپشن کا کوئی الزام اس پر ہے ۔پھر باپ کے ساتھ بیٹی کو بھی جیل میں بند کرنا سراسر ناانصافی ہے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ نواز شریف کے خلاف مقتدر حلقوں میں بغض ‘عناد اور نفرت حد سے بڑھتی جارہی ہے ۔ اس کے باوجود کہ انہوں نے خود گرفتاری دے کر قانون کی حکمرانی تسلیم کی ہے پھر بھی نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے خلاف ہر سطح پر گرم ہوائیں چل رہی ہیں ۔عمران خان کی شکل میں مصنوعی لیڈر شپ پیدا کرکے ملک وقوم کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں کیاجاسکتا ۔حقیقی لیڈر شپ ہی بہتر قیادت کی حق دار ہے ۔
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 783883 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.