نہ یہ فلسطین ہے ،نہ غزہ،نہ شام ،نہ برما،افغانستان اور
عراق بھی نہیں ۔یہ مملکتِ خداد پاکستان ہے جہاں وحشت کا یہ عالم ہے جیسے
پُل صراط پر چلنے کے کمربستہ ہوں۔
مستونگ 120 افراد دوبارہ زندگی ملنے کی صورت میں بھی اب عمر بھرزندگی سے
دور ہوگئے ۔جسم سے جان جدا ہوتی تو شاید یہ ایک دفعہ کی تکلیف ہوتی لیکن یہ
لوگ جسمانی معذوری کی صورت جب تک سانسیں باقی ہیں اپنے جسم کے بوجھ کو
گھسیٹنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔یہ وہ معصوم جمہور ہیں جوانتخابات کے جوش کو
اپنے اندر سمائے اپنی ذات کی اہمیت کی خوشی کو محسوس کرتے ہوئے اس جلسہ میں
شامل ہوئے ۔انھیں کیا علم تھا اس بھیڑ میں اب وہ ساری عمر کے لئے کھو جائے
گے۔
128 شہید ہوگئے جو اپنے گھر کے سربراہ ہونگے یا وہ چراغ کے جن کی روشنی سے
گھر منور ہونے کی خواہش لئے ماں باپ نے اپنی ساری عمر اُنھیں اپنے محبت کے
سائے میں پروان چڑھایا ہوگا۔کتنے ہی ایسے گھرانے ہیں جہاں آج ایک نہیں کئی
جنازے اٹھے گے اور اُسی گھر کا کوئی اور باسی اسپتال میں اپنی زندگی کی جنگ
لڑ رہا ہوگا۔
چیخیں آہ و بکا کے قیامت سے پہلے قیامت کامنظر روح کو جھنجوڑ رہا ہے۔ایک
المیہ جس نے دوسو سے اوپر گھرانوں میں صفِ ماتم بچھادیا۔لیکن ہوگا کیا ہم
بھول جائے گے حکومت بھول جائے گی ہم سب اپنی اپنی زندگیوں میں مصرو ف ہو
جائے گے۔ایسے سانحات میں گھر کی کفالت کرنے والا جان سے گزر جائے تو متاثرہ
گھرانے پر غم کا پہاڑ ٹوٹنے کے ساتھ ساتھ اسے معاشی مسائل کا طوفان بھی
آگھیرتاہے۔ باقی رہے گی تو فقط مستونگ کے گھروں میں رہنے والی بے چارگی جو
آئیندہ نسلوں کے دلوں میں احساسِ کمتری کو جنم دے کر ریاست سے انتقام کے
نتیجے میں سامنے آئیگی۔لیکن افسوس ہم ان نسلوں کے دکھ کو نہیں سمجھتے اور
پھر نتائیج ہمیں ویسے ہی بھگتنے پڑتے ہیں جیسے ڈورن حملوں کے بعد معصوم
جانوں کے ضیائع کے نتیجے میں ان کی نسلوں کے دلوں میں پنپنے والی نفرت کی
صورت میں سامنے آئے ۔
ُ2018 انتخابی مہم کے دوران ہونے والا یہ تیسرا واقعہ ہے۔اس سے پہلے
بلوچستان کے شہر مستونگ میں ہی 13مئی2017 کو مولانا عبدالغفور حیدری کے
قافلے پر خود کش حملہ کیا گیا جس میں 25 افراد شہید اورمولانا عبدالغفور
سمیت 35افراد زخمی ہوئے۔بنوں میں اکرم درانی کے قافلے کے قریب دھماکہ ہوتا
ہے جس کے نتیجے میں 4 شہید اور10 زخمی ہوتے ہیں۔یکہ توت میں بیرسٹرہارون
بلورسمیت 13 افراد شہید اور47 زخمی ہوئے ۔مزاروں میں خود کش حملوں کے نتیجے
میں بھی جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ۔بہرحال مستونگ میں حالیا ہونے خودکش
حملہ گزشتہ چار سالوں میں ہونے والا سب سے بڑا سانحہ ہے۔سکیورٹی اداروں کے
بیان کے مطابق یہ خودکش حملے ہیں اور خود کش حملہ ہونے کا مطلب اس کا تعلق
اسلام کے نام پر دہشت گردی کا بازار گرم کرنے والوں کی کاروائی کا نتیجہ
ہے۔انسانی لاشیں گرا کر کون سے مذہب کا پرچم بلند کرنے کا عزم ہم اس سے
عاجز ہیں۔
دوسری طرف اس سانحے نے ہمارے برقی ذرایع ابلاغ کی ترجیحات کا پول کھول کر
رکھ دیا۔ایک طرف ثابق وزیرِاعظم اور ان کی صاجزادی مریم نواز کی آمد تھی
اور ساتھ مستونگ کا سانحہ ۔یہ سانحہ ہر حال میڈیا کی اولین ترجیحات میں
ہونا لازم تھا ۔جبکہ نواز شریف دوسری اہم خبر، لیکن افسوس ریٹنگ کی دوڑ میں
آگے نکل جانے والے ہمارے ذرایع ابلاغ کے لئے 128 افراد کا لقمہ اجل بن جانا
معمولی بات تھی۔یوں ریاست کے چھوتھے ستون نے کھل کراپنے کمزرور ہونے کاقصہ
عام کیا۔کل جس خبر کو غیر اہم قرار دے کر دوسری خبر کا درجہ دیا گیا آج جب
خبروں کے بازار میں لفظوں کی کمی ہوگی تو ان لوگوں کے جنازوں کوکوریج دی
جائے گی۔خوفناک حقیقت یہ ہے کہ مستونگ سانحہ کے بعد مردہ خانوں میں لاشوں
کو رکھنے کی جگہ نا تھی ۔زخمیوں کے لئے سہولیات نہیں تھی لیکن یہ سب اہم نا
تھا۔نواز شریف صاحب کے طیارے سے لے کر آئیندہ انتخابات میں ن لیگ کے مقام
کا سوال اٹھایا جارہا تھا۔یہ واقعہ اسپتالوں کی صورتحال، مرنے والوں کے
لواحقین،زخمیوں کے لئے بہتر سے بہتر علاج،متعلقہ اداروں کے بیانات وغیرہ
جیسے اہم مسائل پر کوریج کی حثییت رکھتاتھا ۔لیکن افسوس ہمارے نامی گرامی
اینکرزجن کے لفظوں پر یہ قوم اعتماد کرتی ہے انھیں شرم نا آئی۔
رہی ریاست توریاست کو فوری طور پر پسماندگان کے لئے مالی امداد کا اعلان
کرنا چاہیے ۔دہشت گردی دنیا میں کے کسی بھی حصے میں ہو،اس کی روک تھام اور
اس کا سدباب خالصتا ریاست کی بنیادی اور اولین ذمے دراری ہوتی ہے ۔دہشت
گردی کے خلاف اور روک تھام کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے اور دہشت گردی کے
واقعات کے اسباب کا تعین کرنا بھی ریاست کی ذمے داری ہے ۔دہشت گردی کے
واقعے کے بعد اس سے متاثر ہونے والے افراد کو فوری طور پر اس کے اثرات سے
نکالنے کے لئے ہر حکومت متاثرین کا مالی نقصان پورا کرنے اور امدادکا اعلان
کرتی ہے ،مگر یہ امداد ملے گی یا نہیں اور ملے گی تو کب؟اس کا کچھ پتہ نہیں
ہوتا۔اگر ریاستی ادارے عوام کے جان و مال کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتے تو کم
از کم متاثرین کی اشک شوئی اور ان کے مالی نقصان کے ازالے سے گریز اور
تاخیر نہ کریں۔اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے پاکستانیوں کے ہاتھ شل
ہوچکے ہیں۔دشمن تو مٹانے پر تلا ہوا ہے۔ ہمارے ادارے بھی اپنی غلط حکمتِ
عملی کے ساتھ غیر دانستہ طور پر اُن کی مدد کررہے ہیں اﷲ میرے ملک کی حفاظت
فرمائے آمین۔ |