انتخاب کا وقت ہے۔ امرا نے غربا کے گلی کوچوں کا رخ کر
رکھا ہے۔ سیاسی اجتماعات کی رونق عروج پہ ہے۔ کسی کے لیے میدان تنگ کیا جا
رہا ہے تو کسی کے لیے کھیل کے قوانین ہی تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ ساتھ ساتھ
امیدواروں میں جوڑ توڑ کا عمل جاری ہے۔ یعنی بادشاہ گر اپنا کھیل بخوبی
کھیل رہے ہیں۔ سنا تھا کہ دہشت گردی کا آسیب وطنِ عزیز سے کوچ کر چکا ہے۔
ریاست نے امن و امان کو ایسا بحال کیا ہے کہ کوئی بھی اپنے گھر سے باہر قدم
رکھتے ہوئے کسی قسم کا ڈر یا خوف محسوس نہیں کرتا۔ اگلے دنوں ایک طاقتور
صاحب نے بڑے رعب و دبدبے سے بتایا تھا کہ ملک میں امن و امان بحال ہو چکا
ہے سو کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ گذشتہ انتخاب میں سیاستدانوں کو دہشت
گردوں کی جانب سے دھمکیاں ملتی تھیں۔ جلسے جلوس نہیں ہو سکتے تھے۔ بشیر
بلور کو مار دیا گیا لیکن اس انتخاب میں ہر جانب اچھا ہی اچھا ہے۔ دہشت
گردی ختم ہو چکی ہے۔ سیاسی جلسے زور و شور سے ہو رہے ہیں۔ کسی کو کوئی ڈر
نہیں ہے۔ صاحب کی اس خوشخبری کو دو چار گھنٹے نہیں گزرے تھے کہ ایک خوفناک
دھماکہ میں بشیر بلور کے صاحب زادے ہارون بلور اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہو
گئے۔ ایک دن اور گزرا تو سابق وزیر اعلیٰ سرحد اکرم درانی پہ بم حملہ ہو
گیا جس میں وہ تو محفوظ رہے لیکن ان کے کئی ساتھی یہ جہاں چھوڑ گئے۔ اس
سانحہ کے بعد چند گھنٹے نہ گزرے تھے کہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم
رئیسانی کے بھائی سراج رئیسانی پہ حملہ ہو گیا جس میں وہ اپنے ساتھیوں سمیت
شہید ہو گئے۔ شہدا کی تعداد کم و بیش ڈیڑھ سو تک پہنچ گئی ہے جبکہ اسی
تعداد میں زخمی بھی ہیں۔ اب کون کس سے تعزیت کرے اور کون کس کے زخموں پہ
مرہم رکھے۔ سب ہی نقصان میں ہیں۔ کسی کا کم تو کسی کا زیادہ۔ نقصان تو
بہرحال اپنی جگہ ہے۔ ریاست کے اس عمل کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ
انتخاب سے قبل بہت سے لاڈلوں کا نام فورتھ شیڈول لسٹ سے نکال دیا گیا اور
انھیں انتخاب میں شرکت کی اجازت دے دی گئی۔ ایسے میں سوال تو اٹھتا ہے کہ
ریاست کس اوکھلی میں سر دیے ہوئے ہے۔
ریحام خان کی کتاب سے متعلق جو باتیں گردش میں رہیں۔ امیزن پہ جاری ہونے
والی ای کتاب میں اس کے برعکس مواد ملا۔ حمزہ علی عباسی جس مواد کو عوام کے
سامنے پیش کرتے رہے جانے اب وہ انھیں کس نے فراہم کیا تھا یا پھر شاید کسی
خوف کے سائے میں ان نے ایسی باتیں خان صاحب کے ساتھ نتھی کر کے ریحام خان
کے سر ڈال دیں جن کا بڑا حصہ اصل کتاب میں موجود ہی نہیں۔ ایسے میں ان سب
موضوعات کے حوالے سے حمزہ علی عباسی کی گرفت ہونی چاہیے کیونکہ اس نے ایک
جانب قوم کو گمراہ کیا اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جبکہ دوسری جانب
خود تحریکِ انصاف اور خان صاحب کے لیے مشکلات کھڑی کر دیں۔ ہمارے ایک دوست
کہا کرتے ہیں کہ جسے اپنے بھانڈے کے پھوٹنے کا ڈر ہوتا ہے وہ اسی صورتحال
کو دہرا کر کے دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ حمزہ علی عباسی نے
کچھ ایسا ہی اپنی جماعت اور قوم کے ساتھ کیا ہے۔ البتہ کتاب میں خان صاحب
کے حوالے سے کئی انکشافات کیے گئے ہیں جنھیں الزامات بھی کہا جا سکتا ہے۔
ان میں کس حد تک سچائی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ کیونکہ اگر خان
صاحب کتاب کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرتے ہیں تو بہت سی چیزیں واضح ہو
پائیں گی اور اگر خان صاحب اور ان کی جماعت خاموشی پہ ہی تکیہ کیے رکھتی ہے
جیسا کہ نعیم الحق کے بیان سے بھی ظاہر ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ریحام خان
مضبوط بنیاد پہ کھڑی ہیں اور اس نے چن چن کے خان صاحب کے کمزور حصوں پہ وار
کیا ہے جہاں بچاؤ کا رستہ نہیں ہے۔ یہ ایک خطرناک سلسلہ ہے۔ ہر شخص کی
زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ کوئی بھی شخص زندگی کے ہر پہلو پہ مثالی
نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے نابغہ بھی اپنے مرکزی میدان سے ہٹ کر دیگر معاملات میں
عام آدمی کی سطح سے بھی کم درجہ کی کارکردگی دیتے رہے ہیں۔ ریحام خان کو
علم تھا کہ عمران خان نے ہیرو کی زندگی گزاری ہے اس کی شامیں حسن و شباب کی
ہمسری میں گزری ہیں۔ اب جوانی بھی ہو شہرت بھی ہو تو نعمتِ شباب و شراب کا
کون کافر انکار کرے گا۔ ایسے ماحول میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اور ریحام خان
نے اسی کا فائدہ اٹھایا اور خان کے ماضی کو کریدنے کا پورا ساماں کیا۔
ریحام خان کے دعوے کے مطابق عمران خان کو ٹیریان کے معاملہ میں شریف
برادران سے زیادہ جمائما کے اس عمل سے نقصان پہنچا جب جمائما نے اپنی اور
ٹیریان کی اکٹھی تصویر سوشل میڈیا (انسٹاگرام) پہ جاری کی اور ٹیریان کو
اپنی سوتیلی بیٹی قرار دیا۔ ریحام خان نے ایک مکالمہ کتاب میں پیش کیا جس
میں عمران خان فخریہ بیان کرتے ہیں کہ ٹیریان اکیلی نہیں ہے بلکہ ایسے پانچ
بچے ہیں جنھیں عمران خان جانتے ہیں کہ وہ ان کے باپ ہیں۔ اور سب سے بڑے کی
موجودہ عمر ۳۴ برس ہے۔ ریحام حیرت سے پوچھتی ہے کہ تم کیسے جانتے ہو کہ تم
ہی ان کے باپ ہو تو عمران خان جواب دیتے ہیں کہ مجھے بچوں کی ماوں نے بتایا
ہے۔ ریحام یہ بھی پوچھتی ہے کہ کیا وہ سب گوروں کے دیس سے ہیں تو خان صاحب
جواب دیتے ہیں کہ نہیں کچھ بھارتی بھی ہیں۔ اور ان کے بارے میں جمائما بھی
جانتی ہے۔ ریحام خان نے کتاب میں کوکین کے دو پیکٹس کی تصاویر بھی شامل کی
ہیں جن کے بارے یہ تفصیل دی گئی ہے کہ یہ خان صاحب کے کوٹ کی جیب سے نکلے
ہیں۔ عائشہ گلالئی کے حوالے سے بھی کتاب میں انکشافات ملتے ہیں جن میں
عمران خان کو پلے بوائے کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں عائشہ
گلالئی کے معاملہ میں جسٹس وجیہ اور اسد عمر کا کردار بھی مشکوک کر دیا گیا
ہے۔ ریحام خان کے مطابق عائشہ گلالئی کے معاملہ میں ممکنہ طور اسد عمر کا
ہاتھ ہے۔ یہ اور ایسے کئی ذاتی نوعیت کے معاملات ہیں جس میں عمران خان کسی
دوسرے کو جواب دہ نہیں ہیں لیکن جب ریحام خان کی جانب سے یہ سب عمران خان
کی فخریہ یادیں بنا کر پیش کیا گیا تو پھر لامحالہ بات آرٹیکل باسٹھ اور
تریسٹھ تک جاتی ہے۔
میاں صاحب اور مریم نواز واپس آ چکے ہیں اور یہ واپسی بھی عجیب ڈرامائی
انداز میں ہوئی۔ سارا میڈیا اکرم درانی اور سراج رئیسانی پہ ہونے والے حملے
نظرانداز کر کے میاں صاحب کی جانب متوجہ رہا۔ حسبِ قانون میاں صاحب اور ان
کی بیٹی کو اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا لیکن ملک بھر میں نظامِ زندگی کو
معطل کیے رکھنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ راستے بند کر دینا، موبائل سروس بند
رکھنا…… اس کی کیا ضرورت تھی۔ جن نے آنا تھا ان نے شہر میں تو داخل ہونا نہ
تھا۔ نگران حکومت نے راستوں کی بندش سے نواز شریف کو ہی فائدہ پہنچایا ہے۔
ریاست نے اس گرفتاری میں کئی سوالات اپنے پیچھے چھوڑ دیے ہیں۔ جہاز کے اندر
وردی والوں کا موجود ہونا ایک بڑا سوال ہے۔ گرفتاری کے لیے نیب کے افسران
موجود تھے لیکن یہ لشکری چہ معنی دارد!۔ اس سارے عمل پہ بلاول بھٹو زرداری
نے جمہوری ردِ عمل کا مظاہرہ کیا ہے اور میاں صاحب کے معاملہ میں عوام کو
مشکلات میں ڈالنے، مسلم لیگی کارکنان کی گرفتاری اور بندشوں کی مذمت کی ہے
جبکہ وہیں دوسری جانب عمران خان نے ملک میں ہونے والے دہشت گری کے حملوں کی
ذمہ داری براہِ راست نواز شریف کے سر ڈال دی ہے۔ ملک کی دو اہم جماعتوں کے
قائدین کا یہ اندازِ بیاں دونوں کی سیاسی تربیت کا غماز ہے۔ رہی بات نواز
شریف کی تو انھیں اپنے عہد کے پیسہ کا حساب تو دینا ہو گا لیکن ٹھہریے! یاد
آیا جس ملک کا نظامِ تعلیم ایسا ہو کہ جہاں بچوں کو ابتدائی جماعتوں سے ہی
فیس معافی کی درخواستیں لکھنے کی تربیت دی جائے یعنی ہاتھ پھیلانا سکھایا
جائے۔ اس ملک میں گداگری اور چور بازاری کے سوا کیا عام ہو سکتا ہے؟ |