آخر کار سابقہ وزیر اعظم نواز شریف اور انکی دختر مریم
نواز احتساب عدالت کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں مجموعی طورنواز
شریف کو 10سال اور مریم نواز کو7برس کی سزا سنائے جانے کے بعد جمعہ کی شب
رات تقریباً 9بجے لندان سے ابو طہبی اور پھر لاہور کے ہوائی اڈے پر پہنچے ۔
دونوں کو لاہور ایئرپورٹ پر پہنچتے ہی گرفتار کرلیا گیا اور انہیں اسلام
آباد کی اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔ نواز شریف کو اڈیالہ جیل اور مریم
نواز کو سہالہ ریسٹ ہاؤس میں رکھنے کی خبریں گردیش کررہی تھیں لیکن ذرائع
ابلاغ کے مطابق مریم نواز نے سہالہ ریسٹ ہاؤز میں رہنے سے دوٹوک الفاظ میں
انکار کرتے ہوئے سرکاری حکام پر واضح کیا کہ وہ اپنے والد کو اکیلے اڈیالہ
جیل اور خود سہالہ ریسٹ ہاؤز رہنے نہیں جاسکتیں بلکہ وہ بھی اڈیالہ جیل میں
ہی والد کے ساتھ ہی رہیں گی۔ان کے اس انکار کے بعد حکام نے دونوں باپ بیٹی
کو لاہور سے اسلام آباد ایئر پورٹ خصوصی جیت طیارے کے ذریعہ پہنچایا۔مسلم
لیگ ن کے موجودہ صدر شہباز شریف نے اپنے قائد کے استقبال کا اعلان کیا تھا
اور ایک جلوس کی شکل میں لاہور ایئرپورٹ پہنچنے کا اعلان کیا تھا تاہم ان
کی قیادت میں یہ ریلی ایئر پورٹ تک نہیں پہنچ سکی ۔ پاکستان سے آمد سے قبل
مریم نواز کی جانب سے ٹویٹ کی گئی ایک ویڈیو میں سابق وزیر اعظم نے طیارے
سے اپنے پیغام میں کہا کہ ’’مجھے معلوم ہے کہ مجھے دس سال کی سزا ہوئی ہے
اور مجھے جیل لے جایا جائے گا لیکن پاکستان قوم کو میں یہ بتانا چاہتا ہوں
کہ یہ میں آپ کے لئے کررہا ہوں ، یہ قربانی آپ کی نسلوں کے لئے اور پاکستان
کے مستقبل کیلئے دے رہا ہوں‘‘۔ انہوں نے قوم سے درخواست کی کہ وہ ان کے
ساتھ قدم سے قدم ملاکر اور ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلے اور ملک کی تقریر بدلے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ موقعے بار بار نہیں آئیں گے۔اب دیکھنا ہے کہ 25؍
جولائی کو ہونے والے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت
ہوتی ہے یا نہیں ۔نواز شریف کی وطن واپسی ایک ایسے موقع پر جبکہ انکی اہلیہ
لندن کے ہاسپٹل میں کینسر کی وجہ سخت علیل اور بے ہوش ہیں ان حالات میں وہ
اپنی اہلیہ چھوڑ کرملک واپس ہوئے ہیں۔ اس سے پاکستانی عوام کے دلوں میں
نواز شریف اور مریم نواز کیلئے کس قسم کے تاثرات پائے جاتے ہیں یہ تو آنے
والا وقت ہی بتائے گا ۔جیسا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف ، انکی دختر مریم
نواز اور داماد کیپٹن صفدر (ر) کو احتساب عدالت نے جمعہ 6؍ جوالائی کوایون
فیلڈ ریفرنس مقدمہ کی سزا سنائی تھی ۔ جس وقت نواز شریف اور انکی بیٹی و
داماد کو احتساب عدالت نے سزا سنائی اس وقت نواز شریف اور مریم نواز لندن
میں مقیم تھے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق فیصلے کے بعد سب سے پہلے ریٹایئرڈکیپٹن
صفدر کو راولپنڈی سے ریلی کے دوران گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا
تھا۔نواز شریف اور مریم نواز کی وطن واپسی سے قبل ہی ان دونوں کا نام ایگزٹ
کنٹرول لسٹ (ECL)میں درج کردیا گیا تھا ۔ ای سی ایل حکومت پاکستان کا ایک
خارجہ سرحدی نظام ہے اس فہر ست میں جس شخص کا نام ڈالا جاتا ہے وہ ملک سے
باہرنہیں جاسکتا ہے۔ جیسا کہ پاکستان میں 25؍ جولائی کو عام انتخابات ہونے
والے ہیں اس سے قبل جس طرح عدلیہ کے فیصلے سنائے گئے ہیں اس سے کئی سیاسی
قائدین اور جماعتوں کو شدید جھٹکہ لگ چکا ہے۔ ایک طرف مسلم لیگ ن کے قائدین
کے خلاف احتساب عدالت کے فیصلے نے مسلم لیگ ن کی کامیابی کیلئے مشکلات کھڑی
کردی ہے تو دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین و
سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کا نام بھی ای سی ایل میں شامل کردیا گیا
ہے ، سپریم کورٹ کے حکم پر منی لانڈرنگ اسکینڈل میں آصف علی زرداری کی
ہمشیرہ سابق رکن قومی اسمبلی و صدر شعبہ خواتین فریال تالپورسمیت 35 افراد
کے نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیئے گئے ہیں اس طرح ان تمام افرادپر ملک سے
باہر جانے پر پابندی عائد کردی گئی۔ عدالت عظمی میں ان افراد کے خلاف 25؍
جولائی سے قبل کیا فیصلہ ہوتا ہے اس سلسلہ میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔
پاکستان کے سابقہ صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے خلاف بھی بدعنوانی اور
اربوں روپیے کے اثاثہ کیس میں انہیں اور انکی اہلیہ کی احتساب عدالت میں
طلبی ہوئی ہے لیکن وہ 10؍ جولائی کو نیب آفس راولپنڈی میں حاضر نہیں ہوئے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق اتنا ضرور ہے کہ سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف ،
مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف فیصلے اس بات کی طرف
اشارہ کررہے ہیں کہ پاکستان میں عدلیہ کرپشن سے پاک قائدین کو انتخابات میں
کامیابی کی راہیں فراہم کرنا چاہتی ہے ۔ پی پی پی کے بعض رہنماؤں اور
انتخابات میں حصہ لینے والے بعض امیدواروں کے خلاف قومی احتساب بیورو اور
ایف آئی اے کی کارروائیوں کا جائزہ لینے اور پارٹی کی آئندہ حکمت عملی طے
کرنے کیلئے لاہور میں ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ہے اب دیکھنا ہے کہ پی پی
پی کے قائدین کی آواز پر پاکستان میں عوام کا کیا ردّعمل ہوتا ہے جبکہ مسلم
لیگ ن کی جانب سے بھی اپنے قائد کی آمد پر تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔نواز
شریف کی آمد سے قبل ایک طرف مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی صدارت میں
ماڈل ٹاؤن میں اجلاس منعقد ہوا جس میں نواز شریف کی وطن واپسی پر استقبال
کرنے کیلئے حکمت عملی اپنانے پر غور کیا گیا تھا۔پاکستان کی تین بڑی سیاسی
جماعتیں یعنی مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں سے
اقتدار کس کے نصیب میں آئے گا یہ تو آنے والے چند دنوں میں معلوم ہوجائے گا
لیکن 25؍ جولائی سے زیادہ اہم ترین دن مسلم لیگ ن نے 13؍ جولائی کو بتایا
تھا کیونکہ اس روز شام نواز شریف اور مریم نواز وطن واپس ہوئے۔ مسلم لیگ ن
کے رہنما حمزہ شہباز شریف جو موجودہ صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف کے فرزند
ہیں نے کہا تھا کہ 13؍ جولائی کا معرکہ 25؍ جولائی سے زیادہ اہم ہے۔انکا
کہنا تھا کہ نواز شریف اپنی بیمار اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی وجہ سے برطانیہ
میں ہیں ، جو گذشتہ تقریباً چار ہفتے سے اس امید پر برطانیہ کے ہاسپٹل میں
ہیں کہ شاید آج بیگم کلثوم نواز کو ہوش آجائے گا اور وہ ان سے بات کرینگے۔
حمزہ شہباز شریف نے عوام سے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ سب مل کر اپنے
محبوب قائد میاں نواز شریف کا تاریخی استقبال کرتے ہوئے ان کے ساتھ اظہار
یکجہتی کرینگے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق نواز شریف اور مریم نواز کی آمد سے
قبل مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو حراست میں لئے جانے کی خبریں بھی آرہی تھیں
اور اس پرمسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے ناگواری کا اظہار بھی کیا تھا۔
واپسی سے قبل تجزیہ نگاروں کا کہنا تھاکہ نواز شریف اور مریم نواز کی
پاکستان واپسی کے بعد اگر انکے چاہنے والے انکے لئے نہ نکلے تو اس سے مسلم
لیگ ن کا امیج مزید متاثر ہوگا ، شہباز شریف کی قیادت میں لاہور ایئرپورٹ
جانے کے لئے ریلی تو نکلی لیکن سیکیورٹی حکام اسے وہاں تک پہنچنے نہیں دیئے۔
نواز شریف اور مریم نواز کا لندن سے پاکستان واپسی کے فیصلہ پر کئی تجزیہ
نگاروں نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق جیو نیوز
کے پروگرام ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں سینئر تجزیہ نگاروں نے ان خیالات کا اظہار
کیا تھا ۔جیونیوز کی میزبان عائشہ بخش نے میزبان تجزیہ نگاروں ریما عمر،
مظہر عباس، حسن نثار ، ارشاد بھٹی ، حفیظ اﷲ نیازی اور شہزاد چودھری سے
ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے بعد نواز شریف اور مریم نواز کا وطن واپسی کا
فیصلہ ، پارٹی قائد کی واپسی سے مسلم لیگ ن کے انتخابی نتائج پر کیا اثرات
مرتب ہونگے کا جواب دیتے ہوئے ریما عمر نے کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز
کو سزا کے خلاف اپیل ضرور کرنی چاہیے ، انکا کہنا تھا کہ ایون فیلڈ ریفرنس
فیصلے میں کچھ کمزوریاں ہیں جنہیں اپیل میں اٹھایا جاسکتا ہے، نواز شریف
اور مریم نواز کو اپیل دائر کرنے کیلئے پاکستان ضرور آنا پڑے گا ، اگر وہ
پاکستان نہیں آتے تو ضمانت اور اپیل کیلئے درخواست نہیں کرسکتے۔حفیظ اﷲ
نیازی کہا کہنا تھا کہ یہاں کرپشن ایشو نہیں ہے ہمارے ہاں جس طرح کرپشن
کرائی جاتی ہے وہ علیحدہ کہانی ہے انکا کہنا تھا کہ دونوں پارٹیوں کے
قائدین بعض اوقات ایکدوسے کا ساتھ نہیں دیئے جس کی وجہ سے آج ان پر مصیبتیں
ٹوٹ پڑی ہے۔ شہزاد چودھری کا کہنا ہیکہ جرم اور سیاست کا آپس میں کوئی ملاپ
نہیں ہوسکتا، جمعہ کو دو ملزم پاکستان کی زمین پر اتریں گے ان سے قانون کے
مطابق سلوک کیاجائے گا، نواز شریف اور مریم نواز کو9A/5کے تحت سزا ہوئی ہے
جو کرپسن کی ہی ایک قسم ہے، یہ بات درست نہیں کہ انہیں کرپشن پر سزانہیں
ہوئی ہے ان کہنا تھا کہ دونوں باپ بیٹی مسلم لیگ ن کو انتخابات میں کامیابی
دلانے کیلئے نہیں بلکہ مریم نواز کا سیاسی مستقبل قائم رکھنے کیلئے آرہے
ہیں۔ ادھر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہیکہ نواز
شریف کس منہ سے لاہور آرہے ہیں انکا کہنا تھا کہ دونوں باپ بیٹی ایسے آرہے
ہیں جیسے ورلڈ کپ جیتا ہو، دونوں کا شرم سے سر جھکنا چاہے۔ عمران خان نے
ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران کہاکہ پنجاب میں نواز شریف اور سندھ میں آصف
زرداری کرپشن کے سرغنہ ہیں ، یہ دونوں مشکل میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں
، نواز شریف دھاندلی میں پھنسے تو زرداری نے اس کی مدد کی ، دونوں نے مل کر
باریاں لیں اور فرینڈلی اپوزیشن کی ہیں ایک گیند سے نواز اور زرداری کی وکٹ
لینے کا انتظار کررہا ہوں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حالات ان دنون عمران خان
کے حق میں ہیں ۔ سوال پیدا ہوتا ہیکہ کیا عمران خان وزارتِ عظمی کی کرسی پر
براجمان ہوجائیں گے۔ ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں نواز شریف ، مریم نواز اور
کیپٹن صفدر (ر) کو سنائی گئی سزا کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کرنے کے
لئے دس روز کا وقت دیا گیا تھا اس طرح 16؍ جولائی کو اس کیس کے خلاف
ہائیکورٹ میں پیر یعنی 16؍ جولائی کو اپیل دائر کرنے کے امکانات ہے۔ اب
دیکھنا ہے کہ اس کے بعد ہائیکورٹ میں کیا فیصلہ ہوتا ہے۔
دہشت گردو ں کامستونگ اور پشاور میں حملہ
انتخابات کا عمل قریب آتا جارہا ہے ، اہم سیاسی جماعتوں کے قائدین کے خلاف
عدلیہ کے فیصلے ان جماعتوں کواقتدارسے محروم کرسکتے ہیں ،اسی اثنا10؍
جولائی کی شام پشاور کے نواحی علاقے یکہ توت میں ایک کارنر میٹنگ کے دوران
عوامی نیشنل پارٹی کی میٹنگ پر تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے فدائی حملہ
کیا گیا جس میں عوامی نیشنل پارٹی(اے این پی) کے امیدوار بیرسٹر ہارون بلور
سمیت 20افراد ہلاک اور 75سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔اس کے بعد 13؍ جولائی کو
بلوچستان کے علاقے مستونگ میں انتخابی جلسے کے دوران خودکش حملہ کیا گیا جس
میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما نواب زادہ سراج رئیسائی سمیت کم از کم
128افراد ہلاک اور 120سے زائد زخمی ہونے کی خبریں ہیں۔ہلاک ہونے والوں کی
تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ نوابزادہ سراج رئیسائی کے خاندان کو
بلوچستان کے قبائلی اور سیاسی حلقوں میں اہم مقام حاصل تھا۔ اس سے قبل بھی
انہیں2011میں 14؍ اگسٹ کی مناسبت سے ایک تقریب کے دوران بم حملے کا نشانہ
بنایا گیا تھا جس میں وہ خود تو بچ گئے تھے لیکن ان کے بڑے بیٹے سمیت کئی
افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستانی فوجی سربراہ جنرل قمر
جاوید باجوہ نے دونوں حملوں کے بعد انکے افراد خاندان سے اظہار افسوس کیا۔
بیرسٹر ہارون بلور کے خاندان اور اے این پی سے تعزیت کا اظہار افسوس کیا۔
اس حملوں کے بعد پاکستانی فوجی سربراہ کا کہنا تھا کہ ملک کو عدم استحکام
سے دوچار کرنے والی قوتوں سے ہم لڑرہے ہیں، ہم ان قوتوں سے لڑرہے ہیں جن کو
پرامن پاکستان برداشت نہیں، مسلح افواج خوفزدہ نہیں ہونگے اور دہشت گردی کے
خاتمے تک جنگ لڑتے رہینگے ان کا مزید کہنا تھا کہ پاک فوج پر امن اور
مستحکم پاکستان کے لئے کوشاں ہیں۔ اس طرح پاکستان میں سیاسی جماعتوں اور
انکے قائدین کوایک طرف کرپشن اور منی لانڈرنگ کی وجہ سے عدلیہ کے فیصلوں کے
بعد اقتدار کے حصول میں رکاوٹ بن رہی ہے تو دوسری جانب بعض مقامات پر
انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے اہم قائدین اور کارکنوں کودہشت گردی کا
نشانہ بنایا جارہا ہے ۔
شام کی تعمیر نو۰۰۰ بشارالاسد کی اہم ترجیح
ہزاروں بے قصور شامی عوام کو فوج کے ہاتھوں ہلاک کرنے والے شامی صدر بشار
الاسد نے شام کی تعمیر نو کو سب سے پہلے ترجیح دینے کا ارادہ کیا ہے ذرائع
ابلاغ کے مطابق شامی صدر بشارالاسد نے کہا ہے کہ جنگ زدہ ملک کی تعمیرِ نو
ان کی اولین ترجیح ہے تاہم دہشت گردی کیخلاف جنگ بھی جاری رکھی جائیگی۔10؍
جولائی کو دارالحکومت دمشق میں شامی سفارت کاروں کے ایک اجتماع سے خطاب
کرتے ہوئے صدر بشارالاسد کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت ترمیمی قانون
سازی،دہشتگردی کے نتیجے میں بے گھر ہونیوالے مہاجرین کی واپسی اور معطل
سیاسی عمل کو دوبارہ بحال کرنے کیلئے اقدامات کریں گی، سعودی عرب و مغربی
ممالک کے اعلیٰ عہدیداروں کا اس بات پر اصرار رہاہے کہ وہ بشار الاسد کی
اقتدار سے رخصتی اور قابلِ اعتبار اقتدار کی منتقلی کے بغیر شام کی تعمیر
نو میں کوئی مدد نہیں کریں گے۔
حوثی باغیوں کوعسکری تربیت
یمن کے حالات کا مزید کشیدہ ہوتے محسوس ہورہے ہیں عرب اتحاد کی جانب سے صدر
عبدربہ منصور ہادی کی قیادت کو استحکام پہنچانا اور حوثی باغیوں کے خلاف
سخت ترین کارروائی کرنا شامل ہے۔ حوثی باغیوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے سلسلہ
میں عرب اتحاد کے ترجمان کرنل ترکی المالکی نے کہا ہے کہ انھیں یمن میں غیر
ملکی عسکری ماہرین کی موجودگی کے ٹھوس ثبوت مل گئے ہیں اور وہ وہاں ایران
کے حمایت یافتہ حوثی شیعہ باغیوں کو عسکری تربیت دے رہے ہیں۔10؍ جولائی کو
عرب اتحاد ترجمان کرنل المالکی نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ایک
پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان عسکری ماہرین نے حوثیوں کو ایک
مربوط فوجی مواصلاتی نظام بھی مہیا کیا ہے،لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اﷲ
حوثیوں کی فوجی معاونت کی سرگرمیوں میں ملوّث ہے۔انھوں نے یمن کے شمالی
صوبے صعدہ کے مختلف علاقوں میں حزب اﷲ کے ماہرین کے حوثی ملیشیا کی
کارروائیوں میں کردار کا حوالہ بھی دیا ہے۔ترجمان نے کہا کہ حالیہ دنوں میں
عرب اتحادی فوج نے صوبہ صعدہ میں واقع جبل مشطب،مران،رازح،المفتاح اور
النوعہ کے پہاڑی علاقوں میں حوثی ملیشیا کے ایسے پانچ فوجی مواصلاتی نظام
اپنے فضائی حملوں میں تباہ کیے ہیں۔ان کے علاوہ صوبہ حجہ میں واقع جبل
الوشحہ میں حوثیوں کے فوجی مواصلاتی نظام کو تباہ کیا گیا ہے۔انھوں نے یمن
کی قانونی حکومت کی عمل داری کی بحالی کیلئے ایران کے حمایت یافتہ حوثی
شیعہ باغیوں کیخلاف جاری جنگ میں ہونیوالی پیش رفت کے بارے میں تفصیلی
بریفنگ دی اور جنگ زدہ ملک کے تما م شہروں اور گورنریوں میں بگڑتی ہوئی
انسانی صورتحال کی بہتری کے لیے عرب اتحاد کی امدادی سرگرمیوں کے بارے میں
صحافیوں کو آگاہ کیا۔تجزیہ کاروں کا ماننا ہیکہ یمن کے حالات بہتر ہونے کے
لئے عرب اتحاد ، یمن حکمراں اور حوثی باغیوں کے درمیان بات چیت ضروری ہے
اور اسی کے ذریعہ یمن کے حالات درست ہوسکتے ہیں اس کے علاوہ ایران اور
لبنان کی حزب اﷲ بھی یمن میں حالات کی بحالی کیلئے اہم کردار ادا کرسکتے
ہیں کیونکہ ان کے تعاون سے ہی حوثی باغی سراٹھارہے ہیں۔ |