آج کل وطن عزیز میں الیکشن کا مو سم ِ بہار اپنے جوبن پر
ہے ‘ انتخابات میں جیت کے لیے تمام سیاسی پارٹیاں اور اُن کے لیڈرسر توڑ
کوششیں کر رہے ہیں انتخابات میں جیت کے لئے یہ تمام اخلاقی مذہبی روایات کو
پس پشت ڈال کر جنون میں مبتلا ہیں کہ ہر حال میں مسند اقتدار پر قابض ہو نا
ہے ۔ اقتدار کی راہداریوں کے جھولے جھولنے کے لیے لیڈران عامل نجومیوں
درباروں تک ما تھا رگڑنے سے باز نہیں آرہے ہیں جبکہ یہ بھی ایک اٹل اورتلخ
حقیقت ہے کہ ابھی ایسا کو ئی جام جہاں نما ایجاد نہیں ہوا جس میں جھانک کر
یہ دیکھا جا سکے کہ انتخابی نتا ئج کا رزلٹ کیا ہوگا ‘ عوامی سروے ‘اندازے
‘تجزیے زائچے ‘ قیاس آرائیاں کسی حد تک مستقبل کی تصویر کے خدو خال کا
اندازہ تو کر سکتے ہیں لیکن عوامی رحجانات کی پیہم تبدیلی ‘برادری ازم میں
منقسم سوسائٹی مخصوص جماعتوں کی عوام میں نسل در نسل گہری جڑیں سروے
رپورٹوں کو تبدیل کر سکتی ہیں ۔ کو ئی مانے نہ مانے انتخابی سیاست کا مطلب
صرف اور صرف مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہو نا ہے ‘ مسند کے ہما لیہ پر
چڑھنے کے لیے اسمبلی میں اپنی عددی برتری ثابت کر ناہو تی ہے اِس عددی
برتری کو حاصل کر نے کے لیے تمام سیاسی پارٹیاں اور لیڈر ہر حربہ استعمال
کر تے ہیں اِس برتری کے لیے دھن ‘دولت ‘برادری ‘وڈیرہ شاہی ‘دولت کا اندھا
استعمال ‘زمیندارانہ اثر رسوخ ‘سجا دہ نشینی کا اثر رسوخ ‘حلقہ ارادت کو بے
پنا ہ اہمیت حاصل ہے اور یہیں سے منا فقت کے پر فریب سنہری جال بُنے جاتے
ہیں جن میں آج کی سیاسی پارٹیوں کے لیڈر حضرات خواب دیکھاتے اورغریب عوام
کو پھنساتے ہیں مُجھ فقیر سے اکثر لوگ سوال کر تے ہیں جناب موجودہ لیڈروں
میں کونسا لیڈر ہے جو خلافت راشدہ کی پاسداری کر سکے جو وطن عزیز کے دامان
تار تار کی بخیہ گری کر سکے جو کرپشن کے ناسور کو حقیقی معنوں میں ٹھیک کر
سکے ‘ ہمارا معا شرہ مختلف جما عتوں اور لیڈروں کے سحر میں بٹ چکا ہے ‘
اپنے لیڈر کی محبت میں ہم اِس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ اگر کسی کا فیورٹ
لیڈر نبوت یا خدا ہونے کا دعویٰ کر دے تو بھی ہم اپنے لیڈر کی مدح سرائی کر
یں گے اور اُس کے حق میں دلائل با زی شروع کر دیں گے ‘ جب بھی میں اِن
لیڈروں کے بارے میں غور کرتا ہوں تو حیرت کدہ کھلتا چلا جاتا ہے آپ اِن
لیڈروں کے بیانات دیکھیں تو سارے کے سارے اسٹیٹس کو کے خلاف آگ اگلتے نظر
آتے ہیں ‘تینوں بڑی جماعتوں کو دیکھیں زرداری نواز شریف اور عمران خان صاحب
برسہا برس سے مسندِ اقتدار سے جو نک کی طرح لپٹے ہو ئے ہیں اِن تینوں جما
عتوں کا وجود اِن کے لیڈروں کے سر سے ہے اگر اِن کو نکال دیا جا ئے توجما
عت ختم ‘زرداری صاحب نے جس طرح پیپلز پارٹی پر قبضہ کیا اِس سے ہم سب واقف
ہیں ‘ نون لیگ سے اگر نواز شریف کو نکال دیا جائے شہباز شریف ہمیں اکیلے
نظر آتے ہیں ‘ عمران خان صاحب جو سب سے زیا دہ تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں وہ
بھی 1996سے چیئر مین کی سیٹ سے لپٹے نظر آتے ہیں ‘یہ ساری جماعتیں انتخابات
کا ڈرامہ رچا کر درباری سیاستدانوں کی موجودگی میں خود کو منتخب کروا لیتے
ہیں یہ ساری جما عتیں اپنے لیڈروں کے نام سے قائم دائم ہیں اِن میں سے
کونسی جماعت ہے جو الیکٹ ایبلز کو آنکھ کا تارا نہیں بناتی ‘ دوسری جماعتوں
کو جدی پشتی سیاست کا طعنہ دینے والے اگر دیکھیں تو انہوں نے بھی ایسے ہی
لوٹوں کو سینے سے لگا یا ہوا ہے ۔ روایتی سیاستدانوں کی نئی نسل کو تمام
پارٹیاں ہی گود میں لے لیتی ہیں ۔ سارے لیڈرجو دوسرو ں کو طعنہ دیتے ہیں خو
د بھی ٹکٹ دیتے وقت سیاسی خانوادوں ‘ برادریوں اور دھڑے بندیوں کو نظر میں
رکھتے ہیں ‘ آپ لیڈروں کے اردگرد نور تنوں کا اگر جائزہ لیں تو ہر لیڈرکے
گرد ایسے لوگ موجود ہیں جو بڑی تجوریوں کے مالک ہیں‘ جو جب گھروں سے نکلتے
ہیں تو ذاتی جہازوں ‘ بلٹ پروف گاڑیوں کے لشکر میں غریب عوام کے دل جلاتے
ہیں ‘لوٹا کریسی کے خلاف سارے لیڈر باتیں کر تے ہیں لیکن دوسری پارٹیوں سے
آنے والوں کو پھولوں کے ہار پہنا کر سینئر نائب صدر یا بھاری بھر کم عہدوں
سے نہیں نوازا جاتا ہے‘ یہ سار ے لیڈر نظریہ ضرورت کے تحت اصولوں اور
نظریوں کی پوٹلی کوسائیڈ پر رکھ کر مصلحت کشی کی بکل نہیں ما رتے ‘ کیا یہ
ایسے تما شے تما م جما عتوں میں نہیں لگتے ‘ نظریہ ضرورت کے تحت یہ قاتل
لیگ کو بھی گلے سے لگا لیتے ہیں ۔ ایک لیڈر کے خلاف یہ ایک وقت پر نفرت کے
انگارے بر سا رہے ہو تے ہیں دوسرے وقت اُسی کو گلے لگا کر بو سے لے رہے ہو
تے ہیں ۔ دوسری جما عتیں اگر جلسوں پر پیسے لگا ئیں تو الزام تراشی بلیک
منی کے طعنے اور اگر خو د یہ کام کریں تو مقابلے کے لیے پیسہ لگا نا ضروری
ہے ۔ دوسرے لوگ اکٹھا کر نے کے لیے مختلف ڈرامے بازیاں کریں تو غلط جبکہ خو
داگر بسوں ویگنوں کو بھر کر جلسے گاہ بھریں تو ٹھیک ‘ دوسری جما عتوں کے
کارکن کھانوں پر ٹوٹ پڑیں تو جاہل اور اگر اپنی جما عت کے کارکن کھا نے کی
دیگیں اٹھا کر لے جائیں تو جائز بلکہ کر سیاں تک اٹھا کر لے جاتے ہیں ‘
دوسری جما عتوں کو قبضہ گروپ لینڈ مافیا اور کرپشن کے طعنے لیکن اگر اپنی
جما عت کی اگلی قطار یا نور تنوں پر نظر دوڑائیں تو ان سے بھی قد آور کر پٹ
لوگ یہاں منہ پر کالک مل کر بیٹھے نظر آتے ہیں اگر دوسروں کے امیدوار کر پٹ
ہیں تو کیا آپ کے امیدواروں کے کپڑوں سے فرشتوں کی مہک آتی ہے ‘ اگر آپ جیت
جا ئیں تو انتخاب منصفانہ اگر دوسرے جیت جا ئیں تو دھاندلی کی جگا لی شروع
کر دی جاتی ہے ‘ دوسروں کو شاہی محلات اور لمبی جاگیروں کے طعنے تو آپ کس
جھونپڑی یا پانچ مرلے کے گھر میں رہتے ہیں ‘ آپ گالی گلوچ کریں تو ٹھیک
دوسرے کہہ دیں تو انہیں تہذیب نہیں ہے ۔ وطن عزیز کے تمام لیڈروں کو کہا
جاتا ہے جناب پہلے حقیقی کردار تو شو کریں ‘ آپ جو انقلاب کی با ت کر تے
ہیں آپ بلکل جھو ٹے ہیں ۔ انقلاب کے لیے ذرا تو جہ فرمائیں ‘ موجودہ دور
میں دو اسلامی انقلاب بر پا ہو ئے ایک ایران میں دوسرا ترکی میں ایران کے
انقلاب نے در س گاہوں کی کو کھ سے جنم لیا تھا ‘ امام خمینی نے جب شہنشاہ
کے خلا ف آواز اٹھا ئی تو ایما نی خو شبو کی طرح ہر گھر تک پہنچ گئی ‘
بادشاہ نے امام خمینی کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا لیکن پھر وہ دن بھی
آیا جب ایران کی سڑکوں پر انسانوں کا سیلا ب آیا ہوا تھا جس نے ہزاروں
سالوں پر محیط شہنشاہیت کو بہا دیا ۔ تر کی کا انقلاب آئین کے اندر رہ کر
آیا طیب اردگان کی پا رٹی نے 2001میں جنم لیا طیب اردگان نے استنبول کے
مئیر کی حیثیت سے کر دار کی مشعل جلا ئی کہ اقتدار کی مسند اُس کا مقدر بنی
اور پھر فوجی لشکر کشی میں عوام کی محبت عقیدت نے پو ری دنیا کو انگشت
بدنداں کر دیا ‘ آج پاکستان میں ایک بھی لیڈر قائداعظم کا جانشین نہیں ہے
پاکستانی عوام گمشدہ لیڈر کو برسوں سے ڈھونڈ رہی ہے جو اُن کے خوابوں کو
حقیقت کا لباس پہنا سکے اُن کی آنکھوں کے خواب چرا کر اُس میں دھوکے جھوٹ
کی کر چیاں نہ بھر دے پتہ نہیں قوم اپنے گمشدہ لیڈر کو پائے گی بھی یا نہیں
کب کوئی اُن کے خواب سچ کریگا ۔
|