خون کا نذرانہ

میرے دیس میں چھوٹی چھوٹی ایسی مارکیٹیں یا بازار ہیں جہاں خون بکتا ہے اور نہایت سستابکتا ہے مگر میرے دیس میں رقبے کے لحاظ سے بڑے صوبے میں بڑی بڑی منڈیاں ہیں جہاں تھوک کے حساب سے خون کی خرید و فروخت ہوتی ہے ،وہاں اس کی قیمت انتہائی کم ہے،اتنی قلیل کہ گویا مفت میں بٹ رہا ہو۔

منڈی میں ایسے ظالم بیوپاری آتے ہیں کہ ان کی آمد کے ساتھ ہی خون کی ندیاں بہا دی جاتی ہیں ،اور وہ خون کی سرخی دیکھ کر شاد ہوتے ہیں مگر ان پہ قیامت گزر جاتی ہے جن کا خون بہا جاتا ہے،ان کی چیخ و پکار سے زمین دہل جاتی ہے اور آسمان تک سرخی کی لہر ایسے پھیل جاتی ہے جیسے سرخ چادر نے نیلگوں آسمان کو ڈھک کر لال کر دیا ہو۔

یہاں خون اتنا ارزاں ہیں کہ انسان حیران و پریشان کہ اسی کے بارے فرمایا گیا کہ کعبہ سے اس کی حرمت اور تقدس زیادہ ہے ،اور کسی انسان پر ظلم و ستم کعبہ ڈھا دینے سے بھی بڑا گناہ ہے،مگر ہمیں گناہوں کی کیا پرواہ،ہم تو ظلم سہہ کر آہ بھی نہیں کرتے اور ظالم کے حق میں نعرہ ء مستانہ بلند کرتے ہیں کہ جو چاہے ظلم کرو ،بغاوت نہیں کریں گے۔

پڑھا تھا اور سنا تھا کہ خون سفید ہو گئے ،اس کا مطلب یہ لیا تھا کہ کسی کو کسی کی پرواہ نہیں ،یہ سمجھا گیا کہ احساس سے عاری بے جان چلتے پھرتے لاشوں کو دیکھ کر کہا جاتا کہ ان کا خون سفید ہو گیا ہے جو کسی کا درد محسوس نہیں کر پاتے بلکہ کسی پر ظلم کرتے ہوئے بھی ہچکچایا نہیں کرتے،شاعر بھی کمال لکھتے ہیں ؂
تم ہمارے خون کی قیمت نہ پوچھو
اس میں اپنے ظرف کا عرصہ رکھا ہے

کبھی دیکھا ہے؟؟؟ کہ جب خون بہہ رہا ہوتا ہے،کافی مقدار میں بہہ رہا ہوتا ہے،فضا میں عجیب سی بو پھیلی ہوتی ہے،ہوائیں بھی سوگوار سی محسوس ہوتی ہیں،انسان کا کلیجہ منہ کو آ رہا ہوتا ہے ،طبیعت میں عجب سی بے چینی ہوتی ہے،دل مکدر اور دماغ کی چولیں ہل رہی ہوتی ہیں ؟؟

نہیں دیکھا کیا؟؟ تو آئیے ساتھ چلیے ،آپ کو اس نگر لیے چلتے ہیں جہاں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے ،دھرتی کے بیٹے خون میں نہائے ہوئے ہیں ،جی ہاں یہ صوبہ ان غیرت مند بلوچ باسیوں کا ہے جنہوں نے دشمن کو للکارتے ہوئے زوردار انداز میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا ہے۔

خون کی قیمت کا آپ کو کیا معلوم بھلا،آپ تو بیوپاری ہو اس کے، ایسے بیوپاری ہو جو اس کو مفتاجان کر بہائے جا رہاہو ،کوئی غم نہ پشیمانی ،آپ کا تو یہ کھیل ہے کہ جب چاہتے ہو بہا دیتے ہو اور یہ کہہ کر ہولی کا جشن خون کے ساتھ مناتے ہو کہ سرخ رنگ کا بہتا سیال مادہ آپ کو بھلا لگتا ہے ۔

تڑپتے لاشے ،ان میں سے بھل بھل بہتا خون،زخمیوں کی کراہیں ،فضا سوگوار،اور بہتا خون دھرتی ماں کی زمین میں جذب ہو رہا تھا دھرتی کو اس طرح سراب کر رہا تھا ،جیسے پھلوں اور پودوں کو پھلنے پھولنے کے لیے پانی دیا جاتا ہے ،ان شہید لاشوں کا خون دھرتی ماں کی زمینی جڑوں میں جذب ہو کر اس کی بنیادوں کو مضبوط اور پھلنے پھولنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور ان شہداء کے وارثین بیانگ دہل دشمن کو للکارتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ یہ دھرتی ہماری ماں ہے اور اس کے لیے ہم کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے بلکہ خون کے آخری قطرے تک اس کی حفاظت کریں گے ۔

ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ خون کی بڑی منڈیاں یہاں کیوں ہیں؟؟؟پھر سوچ کی لہر یہ بتاتے ہوئے گذر جاتی ہے جہاں زرخیزی ہوتی ہے ،وہاں پھل اچھا ہوتا ہے ،وہاں کی قیمت زیادہ ہوتی ہے مگر پھر ذہن کے کسی گوشے سے آواز آئی کہ اگر قیمت زیادہ ہوتی ہے تو اس منڈی میں خون اتنا زیادہ ارزاں کیوں؟؟؟

پھر سوچ کی لہریں پریشان ہو جاتی ہیں کہ واقعی ایسا کیوں؟؟حیرت کدے میں ڈوب کر جواب تلاش کرتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ جہاں کی قیمت زیادہ ہو اور دنیا کے ظالم بیوپاریوں کو معلوم ہو جائے کہ وہاں قیمت زیادہ ہے تو ظالم وہاں خون کی ہولی کھیلنے پہنچ جایا کرتے ہیں ،پھر خون بہتا ہے ،کافی مقدار میں بہتا ہے ،اتنا زیادہ بہتا ہے کہ دھرتی ماں کی جڑیں مضبوطی پکڑ لیتی ہیں اور ہر خون کے قطرے اور دھرتی کے ذرے ذرے سے آواز آتی ہے کہ آپ ظلم کرتے رہو،ہم جان دیتے رہیں گے ،خون کا نذرانہ پیش کرتے رہیں گے اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے رہیں گے۔

AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 201493 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.