میں کہ ٹھہرا ایک لقمہ۔ آپ کا دل چاہے تو مجھے ڈسٹ بن میں
پھینک دیں، چاہیں تو پلیٹ میں چھوڑ جائیں، دل کرے تو کچی روٹی قرار دے کر
ٹکڑوں میں پھینک دیں۔
مگر ایک لمحے کو ٹھہرے! میری کہانی سن لیجئے۔
اس کے بعد جو آپ کے دل میں آئے وہ کر گزرے۔
آپ کو پتہ ہے میری جنم کہانی کا آغاز جب ہوا تھا تب ہر سو کہر کی چادر بچھی
ہوتی تھی۔ سردی سے بندہ بشر کا باہر نکلنا محال ہوا جاتا تھا۔
صبح تڑکے جب آپ گرما گرم چائے اور خستہ خستہ پراٹھوں کے مزے اڑارہے ہوتے
تھے، تب منہ اندھیرے ایک شخص ٹریکٹر لے کر فصلوں میں اتر آیا تھا۔
اس کے من میں کتنی بار سستی نے انگڑائی لی ہوگی؟
کتنی بار سردی کسی دیو کی مانند سینہ تان کر راستہ روکے کھڑی ہوگی؟
کتنی مرتبہ گرم لحاف اور دہکتے ہیٹر کا منظر آنکھوں کے سامنے لہرا گیا
ہوگا؟
مگر اس شخص نے ساری زمین تیار کی، پھر رکے بغیر اسی دن کھیت میں بیج ڈالنے
لگ گیا تھا۔ پھر ایک شخص نے زمین کو تیار کیا اور کھالیاں بنا کر واپس لوٹ
آیا۔
ٹھیک ایک مہینہ گزرا تو دسمبر کی تاریک، ٹھنڈی، یخ بستہ اور اداس راتیں
تھیں۔
مگر رات کے دو بجے ایک شخص بیدار ہوتا ہے، کندھے پر کسی رکھتا ہے اور پانی
لگانے روانہ ہوجاتا ہے۔
پانی لگایا، دوسرے شخص نے کھاد دی، تیسرے نے اسپرے کیا۔
ایک مہینہ گزرا تو ایک بار پھر پانی اور یوریا کھاد کی ڈیوٹی دینے پہنچ
گیا۔
چار بار پانی اور کھاد دی۔
جس دن پانی لگانا ہے، اس دن آندھی، بارش اور تیز ہوا سے بچنا ہے۔
اگر آندھی کے موسم میں پانی لگا دیا تو کم از کم 20 فیصد فصل ضائع ہوجائے
گی۔
بندہ اپنی محنت کرتا ہے اور پروردگار اپنی رحمت کی چادر تلے ڈھانپے رکھتا
ہے۔
کشاں کشاں اب فصل کاٹنے کے دن آپہنچے۔
مئی کی چلچلاتی دھوپ، جسم و جاں کو جھلساتی تپش، سانس دوبھر کرتی لو۔
مگر آگ برساتے سورج تلے دس پندرہ لوگ جمع ہوں گے، فصل کاٹیں گے اور گانٹھیں
باندھ کر رکھ دیں گے۔
اگلے روز تھریشر مشین آئے گی۔
پندرہ بیس لوگ پھر سے پسینہ پانی کریں گے، تب جاکر دانہ دانہ محفوظ ہوگا۔
زمیندار اس پیداوار میں سے عشر نکال کر اللہ کے رستے میں دے گا۔
اب سرکاری ریٹ کا اعلان ہوگا اور حکومت خریدنے آپہنچے گی۔
وہ ایک دانہ تلے گا اور حکومتی گوداموں میں پہنچ جائے گا۔
اس سارے عمل میں کئی دانے بکھر جائیں گے۔
وہ دانے چڑیا، مینا کا کھاجا بن جائیں گے۔
اللہ تعالی میرے اور آپ کے منہ میں آنے والے ایک ایک دانے کو سب جگہوں سے
بچا کر حکومت کے گوداموں سے بیوپاری کے اسٹور تک پہنچادے گا۔
وہاں سے دکاندار خریدے گا۔
پسائی کے لے چکی والے کے پاس پہنچ جائے گی۔
وہ دانے پس کر میرے آپ کے گھر پہنچ جائیں گے۔
آٹا گندھے گا اور روٹی پک کر میرے آپ کے سامنے دسترخوان پر سج جائے گی۔
چھ مہینوں کے اس طویل سفر میں وہ دانہ کسی پرندے کی خوراک بن سکتا تھا، کسی
کے پاؤں تلے روندا جاسکتا تھا، مٹی میں مل کر، نسیا منسیا ہوسکتا تھا۔
180 دن کے اس طویل سفر میں اس دانے پر کوئی بھی قیامت بپا ہوسکتی تھی۔
اس دانے پر دنیا کی کوئی طاقت پہرہ نہیں دے رہی تھی، اس پر صرف اور صرف رب
کائنات کا پہرہ تھا۔
قربان جائے اس اللہ پر جس نے میرے اور آپ کا رزق بننے والے اس ایک دانے کو
سیکڑوں ہاتھوں سے بچایا، لمحہ لمحہ اس کی حفاظت کی اور پاک صاف ہمارے
دسترخوان تک پہنچایا۔
اب ایک لمحے کو رکےے اور سوچے: کیا یہ ایک لقمہ اتنا ہی بے قیمت ہے کہ اسے
ضائع کردیا جائے؟
کیا اس دانے کی چھ مہینے تک ہر ہر پل حفاظت کرنے والا اللہ میرے اور آپ سے
نہیں پوچھے گا؟
کیا اب بھی آپ اس ایک دانے کو کوڑے دان میں ڈالیں گے؟ |