نواز شریف کی ضمانت نہیں ہونے دی جائے گی

سابق وزیر اعظم نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نوازاور ان کے داماد کیپٹن صفدر کی ضمانت ہوگی یا نہیں یہ سوال آج کا ہاٹ ٹاپک بناہوا ہے۔انہوں نے اس سترسالہ کرپٹ اور مسلط سسٹم کو للکاررکھاہے۔جس کو ناں سننے کی عادت نہیں۔یہ ہمیشہ اپنی منواتاآیاہے۔اور اس کی ہمیشہ مانی جاتی رہی ہے۔نوازشریف کی ضمانت کے چانسز اسی وجہ سے کم ہیں۔وہ حقیقی انقلابی او رباغی ثابت ہوئے ہیں۔بیسیو ں لیڈران اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کررہے ہیں۔انقلاب کی سعی میں مصروف ہیں۔جمہوریت کی جنگ لڑرہے ہیں۔مگر اس طرح کے لیڈران کے قول وفعل میں زبردست تضاد کے باعث ان کی بات پر یقین کرنا مشکل ہوجاتاہے۔ان کے دائیں بائیں بیٹھے لوگوں کو دیکھ کر ان کے دعووں کی تردید ہوتی ہے۔ان کی زبا ن اور انداز وہی پائی گئی ہے۔جو سسٹم کے تابع دارا ن کی رہی۔اس سبب ان لیڈران کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ تسلیم کرنا مشکل ہوجاتاہے۔نوازشریف کے معاملے میں ایسی با ت نہیں۔ان پر الزام تو ہمیشہ پرواسٹیبلشمنٹ سیاست کالگاہے۔مگراپنے ہردورمیں آمریت یا اس کے گماشتوں سے جنگ لڑتے نظرآئے۔کیاصدر غلا م اسحاق خاں کے اسٹیبلمنشٹ کے نمائندے ہونے پرکسی کو شک ہوسکتاہے۔کیا صدر فاروق لغاری۔یا چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی اکڑ فو ں کے پیچھے خفیہ ہاتھ نہ تھے۔کیا جہانگیر کرامت اور پرویز مشرف کی رخصتی کو نوازشریف کی پرو اسٹیبلشمنت سیاست قراردیا جاسکتاہے۔

نوازشریف کا مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلوانا اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے ابھی تک اپنی سیاسی سمت نہیں بدلی۔آج وہ اسی سیاسی سمت کے سبب جیل میں ہیں ان کی ضمانت کے ہونے یانہ ہونے پربحث ہورہی ہے۔ایسے تمام قانونی ماہرین جو نوازشریف مخالف کیمپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کا دعوی ہے کہ چونکہ بڑا جرم اور بڑی سزا ہے۔اس لیے انہیں ریلیف نہیں ملے گا۔غیرجانبداراہل قانون ضمانت ملنے کے حق میں دلائل دیتے نظر آتے ہیں۔ان کا موقف ہے کہ سابق وزیر اعظم پر اثاثے چھپانے کا الزام ہے۔نہ ان پر قتل کا کوئی الزام ہے۔نہ دہشت گردی کی کوئی دفعہ لگائی گئی ہے۔ان پر کوئی ایسا جرم ثابت نہیں ہوا جس کے بعد ان کی اپیل کا فیصلہ آنے تک ان کی ضمانت لیے جانے میں کوئی مشکل ہو۔زیادہ سے زیادہ ان پر چوری کا جر م ثابت ہونے کا کہا جاسکتاہے۔چور ی کے الزام اور جرم پر دوران سماعت ضمانت عمومی بات ہے۔

درحقیقت نوازشریف کی ضمانت ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ قانونی نہیں بلکہ نظریہ ضرورت کے تحت نبٹانے کی کوشش ہوہی ہے۔اس سلسلے میں یہ نہیں دیکھا جارہا کہ قانون کیا کہتاہے۔بلکہ موجودہ حالات کو مدنظر رکھا جارہاہے۔اس کسوٹی پر تو نوازشریف کی ضمانت کسی صورت ممکن نہیں۔ ایسے حالات میں جب رائے عامہ کا جھکاؤ پہلے ہی نوازشریف کی جماعت کی طرف ہے۔ان کی واپسی کے بعد اب مخالفین کے سارے وار اوچھے جارہے ہیں۔ نوازشریف سے بدگمان کرنے کے بیسیوں طرح کی رنگ بازی کی جارہی تھی۔سب ٹھس ہوگئی۔نوازشریف کی اپنی بیٹی سمیت واپسی اورجیل چلے جانے کے بعد اب قوم انہیں نہ بزدل سمجھتی ہے۔نہ بے ایمان بلکہ وہ قول کے سچے اور مخلص لیڈر مان لیے گئے ہیں۔ایسے حالات میں نوازشریف کی ضمانت ہوجانا اور ان کا پاکستان میں جلسے جلوس کرنا مخالفین کی موت سے کم نہیں۔وہ بھلا کیوں کر ضمانت کی بھول کرے گی۔میاں صاحب کی ضمانت بعید ازقیاس ہے۔یہ دورحاضر کے ناممکنا ت میں سے ایک ہے۔یہ ضمانت عمران خان اور ان کے ساتھ دن میں خواب دیکھنے والے ٹولے کی سیاسی موت ہوگی۔نوازشریف کو سزا دلوانے والے انہیں کمزور اور بے بس قراردیے جانے کا مشن لیے ہوئے ہیں۔وہ انہیں ضمانت کی آسانیاں نہیں دیں گے۔ان کے ہرکارے تو میڈیا پر یہ شورمچارہے ہیں کہ نوازشریف کا باب ختم ہوچکا۔وہ اب نہیں بچے گی۔ان پر کوئی آس نہ رکھی جائے۔انہیں چھوڑ کر کوئی دوسرا آسرا ڈھونڈلیا جائے۔میاں صاحب کی ضمانت کا نہ ہونا طے ہیں۔اور اس ضمانت کے نہ ہونے کے پیچھے بھی جو دلیل سامنے آئے گی۔وہ بھی قانونی نہیں نظریہ ضرورت والی ہوگی۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 124195 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.