بعض اوقات ایسے ایسے سوالات سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ جن
کے جوابات تلاش کرناجوئے شیرلانے کے مترادف ہوتاہے۔کیاکبھی کسی نے سوچاہے
کہ ہمیں اپنی پسندکی سیاسی پارٹی میں اچھائیاں ہی اچھائیاں اورمخالفین کی
سیاسی پارٹی میں برائیاں ہی برائیاں کیوں نظرآتی ہیں؟ کہیں ایساتونہیں کہ
ہمیں سب کوایک آنکھ سے دیکھنے کی تاکیدکی گئی ہے اورہم اس مقولہ میں ترمیم
کرکے اس پرعمل تونہیں کررہے ہیں؟ کہ ہمیں توسب کوایک آنکھ سے دیکھنے
کاکہاگیا ہے اورہم دیکھتے توسب کوایک آنکھ سے ہی ہیں مگرایک ہی آنکھ سے
نہیں دیکھتے۔ کسی کوایک آنکھ سے توکسی کودوسری آنکھ سے دیکھتے ہیں کیاواقعی
ایسا ہی ہے ؟ہم نے ایک دوست سے کہا کہ فلاں سیاست دان کے بارے میں فلاں
خاتون نے ایسے ایسے الفاظ کہے ہیں تواس نے کہا کہ یہ جھوٹ ہے۔ہم نے ایک
اورخاتون کے بارے میں کہا کہ اس نے بھی ایسے ایسے کہا ہے تواس نے کہا کہ کس
کے بارے میں توہم نے کہا کہ فلاں سیاستدان کے بارے میں توہمارے دوست نے اسی
وقت کہا کہ اس نے سچ کہا ہے۔ہم نے کہا کہ یہ کیابات ہوئی۔ ایک کے بارے میں
آپ نے تردیداورایک کے بارے میں تصدیق کردی۔ حالانکہ الزامات تو دونوں
خواتین نے دونوں سیاستدانوں پرلگائے ہیں۔ہمارے دوست نے جس سیاستدان
پرالزامات کی تردیدکی وہ اس کی پسندیدہ پارٹی سے ہے اورجس پر الزامات کی
تصدیق کردی وہ اس کاتعلق اس کی مخالف سیاسی پارٹی سے ہے۔اب سوال یہ ہے کہ
ہم جوصرف سنی سنائی باتوں پرکسی کی حمایت یامخالفت کرنے لگ جاتے ہیں ،حقائق
جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے کیاہمارایہ طرزعمل درست ہے؟اب ہمیں اس سوال
کاجواب تلاش کرناہے کہ عوام میں پھیلاہوایہ بیانیہ خالص ہے یاسیاسی؟وہ
بیانیہ یہ ہے کہ کئی لوگوں کویہ کہتے ہوئے سناگیا ہے کہ وہ فلاں سیاسی
پارٹی کوووٹ نہیں دیں گے۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ اس سیاسی پارٹی نے
ختم نبوت حلف نامہ میں ترمیم کی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ عوام میں پھیلاہوایہ
بیانیہ واقعی ختم نبوت کے عقیدہ کی پختگی ہے یاسیاسی ایشو؟شایدکسی
کویادہوکہ گزشتہ عام انتخابات کے چندماہ بعدہی ایک سیاسی پارٹی نے دھاندلی
دھاندلی کاشورمچادیاتھا۔اس نے اپنے سیاسی کزن کے ساتھ دھرنے بھی دیے تھے۔جب
دھاندلی کی تحقیقات ہوئیں توپتہ چلا کہ دھاندلی تونہیں ہوئی تاہم انتظامی
بے ضابطگیاں ضرورہوئی ہیں۔ ایسی انتظامی بے ضابطگیاں اورخامیاں دورکرنے کے
لیے انتخابی اصلاحاتی کمیٹی بنائی گئی۔جس میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی
نمائندگی تھی۔ اس کمیٹی نے جواصلاحات تیارکیں ان میں ختم نبوت حلف نامہ میں
ترمیم بھی شامل تھی۔یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ جب بھی کوئی فیصلہ ،ترمیم
یاایجنڈاکسی اجلاس ،میٹنگ یاکمیٹی میں منظورکیاجاتا ہے تواس کی ذمہ داری
کسی ایک پرنہیں بلکہ اس اجلاس، میٹنگ یاکمیٹی کے تمام شرکاء وممبران
پرعائدہواکرتی ہے۔اب ختم نبوت حلف نامہ میں ترمیم کی ذمہ داری اس سیاسی
پارٹی پربھی عائدہوتی ہے جس نے دھاندلی کاشورمچانے کی وجہ سے انتخابی
اصلاحاتی کمیٹی بنائی گئی۔عدالت نے اس کاذمہ دارا نتخابی اصلاحاتی کمیٹی کے
دوممبرسیاستدانوں کوہی ٹھہرایا ہے دونوں سیاستدانوں کاتعلق الگ الگ سیاسی
پارٹیوں سے ہے۔اس رویہ کوکیانام دیاجائے کہ ایک سیاسی پارٹی کوتواس لیے ووٹ
نہ دیاجائے کہ اس نے ختم نبوت حلف نامہ میں ترمیم کردی اوراس کی اس پارٹی
سے زیادہ ذمہ داردوسری سیاسی پارٹی کے نعرے لگائے جائیں اس کی تعریفیں کی
جائیں اس کوووٹ دینے کے مشورے دیے جائیں۔ اس سوال کاجواب تلاش کرنے کی کوشش
کریں کہ ختم نبوت پرعقیدت کااظہارہے یااس عقیدہ کاسیاسی استعمال؟ختم نبوت
کے حلف نامہ میں ترمیم کی وجہ سے ہی ووٹ نہیں دیناتوپھرہراس سیاسی پارٹی
اورسیاستدان کونہ دیں جواس ترمیم کاکسی بھی حوالہ سے ذمہ دارہے۔یہ بھی
یادرہے کہ سابقہ پارلیمنٹ اس غلطی کاازالہ اوردرستگی کرچکی ہے۔سکولوں
اورکالجوں کے امتحانات میں فرض کریں کہ ایک سوال کاجواب سوالفاظ پرمشتمل ہے
اوراس کے کل نمبردس ہیں۔جب چیک کرتے ہوئے نمبردینے لگتے ہیں توایک غلطی
پرایک نمبرکاٹ لیاجاتا ہے۔ سوالفاظ کے جواب میں سے آٹھ غلطیاں نکل آئیں
توآٹھ نمبرکاٹ لیے جاتے ہیں تویوں طالب علم کواس سوال کاجواب لکھنے کے دس
میں سے دونمبرملتے ہیں ۔ دس میں سے دونمبرحاصل کرنے والاطالب علم ناکام
تصورکیاجاتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ یہ کہاں کاانصاف ہے کہ طالب علم نے اس
سوال کے جواب میں سوالفاظ لکھے جن میں آٹھ الفاظ غلط جب کہ ۹۲ الفاظ اس نے
درست لکھے۔جب کہ نمبراس کوصرف دودیے جاتے ہیں۔یہ توجمہوریت کے خلاف ہے۔
کیوں کہ جمہوریت میں اکثریت کودیکھاجاتاہے اوریہاں اکثریت کو نظر انداز کیا
جاتا ہے ۔ طالب علم کے لکھے گئے ۹۲ درست الفاظ کیوں نظراندازکیے جاتے
ہیں۔کیایہ طالب علم کے ساتھ ناانصافی نہیں ہے۔اسی طرح کاسوال امتحانی نظام
کے ساتھ ساتھ انتخابی نظام میں بھی پایاجاتاہے۔فرض کریں کہ ایک انتخابی
حلقہ میں ووٹروں کی کل تعدادایک ہزارہے۔ اس حلقہ میں پانچ امیدوارانتخابات
میں حصہ لے رہے ہیں۔ اب پولنگ والے دن ایک ہزارمیں سے سات سوووٹرووٹ ڈالنے
جاتے ہیں اورتین سوووٹرووٹ ڈالنے نہیں جاتے۔اب ڈالے گئے سات سو ووٹوں میں
سے تین سوووٹ لے کرایک امیدوارجیت جاتاہے۔اب ایک ہزارووٹروں میں سے جیتنے
والے امیدوارکوتین سوووٹروں نے ووٹ دیااورسات سوووٹروں نے ووٹ نہیں دیا۔اب
سوال یہ ہے کہ اس امیدوارکوووٹروں کی اکثریت نے منتخب کیاہے
یامستردکردیاہے؟اب ایک اوراہم سوال کاجواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کئی
لوگ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ پیروں، مشائخ، علماء کوسیاست میں حصہ
نہیں لیناچاہیے۔ پیروں، مشائخ، علماء اور مولویوں کاسیاست سے کیاکام؟پیروں،
مشائخ، مذہبی راہنماؤں، علماء کرام کاکا م سیاست کرنانہیں ہے۔دوسری طرف
لوگوں کویہ کہتے ہوئے بھی سناجاسکتا ہے کہ فلاں سیاست دان کرپٹ ہے، فلاں
سیاست دان چورہے، فلاں سیاست دان نے بیرون ملک بینک بیلنس بڑھایا ہے، فلاں
سیاست دان نے اقتدارمیں آکرحرام مال سے جائیدادیں بنائی ہیں۔ْ فلاں سیاست
دان میں یہ برائی ہے فلاں سیاست دان میں یہ عیب ہے؟پیروں، مشائخ، علماء
اورمولویوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کاسیاست سے کیاکام؟ ان کوسیاست
میں حصہ نہیں لیناچاہیے ۔ دوسری طرف سیاست دانوں کی برائیاں اورعیب بھی
گنوائے جاتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ اگرپیروں، مشائخ، علماء اورمولویوں کاکام
سیاست کرنانہیں ہے توروایتی سیاست دانوں کی برائیاں اورعیب کیوں گنوائے
جاتے ہیں جب نیک ، پرہیزگار لوگ سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے ان کاسیاست سے
کوئی واسطہ نہیں ہوناچاہیے توروایتی سیاست دانوں کی برائیاں اورعیب کیوں
گنوائے جاتے ہیں اوران روایتی سیاست دانوں میں ایمانداری، پاکبازی
اورپرہیزگاری کیوں تلاش کی جاتی ہے۔؟ اوراگرسیاست دانوں کی برائیاں اورعیب
اس لیے گنوائے جاتے ہیں کہ ان سیاست دانوں میں یہ برائیاں اورعیب نہیں ہونے
چاہیے کہ وہ کرپٹ نہ ہوں، چورنہ ہوں، قوم کی امانت سے خیانت کرنے والے نہ
ہوں، اخلاقی ،مالی اورسماجی جرائم میں ملوث نہ ہوں، ایمانداری، پاکبازی
اورپرہیزگاری سے ملک کوقوم کی خدمت کریں توپیروں، مشائخ،علماء اورمولویوں
کے سیاست میں حصہ لینے پراعتراض کیوں؟ نہ توپیر، مشائخ، علماء اورمولویوں
جیسے ایماندار، نیک اورپرہیزگارسیاست میں پسندہیں اورنہ ہی کرپٹ
اورچورسیاست دان پسندہیں؟ یہ اعتراض کرنے والے لوگ کیسے سیاست دان چاہتے
ہیں اس سوال کاجواب تلاش کرنے کی ضرورکرشش کریں۔
یہ تووہ سوالات تھے جوتمام عام انتخابات میں پائے جاتے ہیں نہ تواس طرف کسی
نے توجہ دی ہے اورنہ ہی کسی نے ان سوالوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ہوسکتاہے
کہ بہت سوں کے لیے ان سوالوں کے جواب تلاش کرناضروری ہی نہ ہو۔انتخابات سال
دوہزاراٹھارہ میں کچھ خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں۔یوں توان خصوصیات میں سے
اکثرخصوصیات ہمارے قارئین اخبارات میں پہلے ہی پڑھ چکے ہیں تاہم اکثرقارئین
یہ بات نہیں جانتے ہوں گے کہ یہ انتخابات سال دو ہزار اٹھارہ کی خصوصیات
ہیں۔ یادرکھیں قارئین نے اکثریہ دیکھااورسنابھی ہوگا کہ کبھی کبھی
مقصد(اقتدار) کوحاصل کرنے کے لیے اپنے اصول، ضابطوں، وعدوں سے انحراف
کرناپڑتاہے ، انہیں بائی پاس کرناپڑتاہے، انہیں پس پشت ڈالناپڑتاہے اورکبھی
کبھی توپاؤں کے نیچے روندنابھی پڑتاہے۔ کبھی کبھی ایک مخالف سیاسی پارٹی
کوشکست دینے کے لیے ایک اورمخالف سیاسی پارٹی سے اتحادبھی کرناپڑتاہے اوراس
کے امیدوارکواپنی سیاسی ساکھ کی پرواکیے بغیرووٹ بھی دینا پڑتا ہے۔ اس سے
پہلے ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں شامل ہونے والوں کوابن الوقت، چڑھتے
سورج کے پجاری، موقع پرست، موقع شناس، مفادپرست، لوٹے ۔ہواکے رخ پرچلنے
والے کہاجاتاتھا۔ انتخابات سال دوہزاراٹھارہ میں ایسے سیاست دانوں کوکیانام
دیا گیا ہے وہ ہے الیکٹ ایبلز۔کسی گزشتہ انتخابات میں ایک سیاسی پارٹی
بہشتی دروازہ کادرجہ رکھتی تھی جوبھی اس میں شامل ہوتا اس کی تمام برائیاں
اورگناہ معاف ہوجایاکرتے تھے۔ اب یہی درجہ ایک اورسیاسی پارٹی کو حاصل
ہے۔روٹی ، کپڑا اورمکان جوگزشتہ انتخابات میں عوام کادل لبھانے آجایاکرتے
تھے انتخابات سال دوہزاراٹھارہ میں غائب ہوچکے ہیں۔اب ان کی جگہ بھوک
مٹاؤپروگرام نے لے لی ہے۔موجودہ انتخابات کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ سیاسی
پارٹیوں کوٹکٹ تقسیم کرتے وقت شدیدمشکلات، مزاحمت اوراحتجاج
کاسامناکرناپڑا۔ سیاسی امیدواروں اورکارکنوں نے اپنی ہی سیاسی پارٹی کے
خلاف احتجاج کیا۔سیاسی پارٹیوں کوکئی ٹکٹ ہولڈرزتبدیل کرنے پڑے۔سیاست دانوں
نے مستقبل کی پریشانیوں سے بچنے کے لیے انتخابی فارم میں تبدیلی کی تھی کہ
انہیں کئی معلومات دیناہی نہ پڑیں۔ سیاست دانوں کوانتخابی فارم میں یہ
تبدیلی راس نہ آسکی۔ جومعلومات وہ انتخابی فارم سے چھپاناچاہتے تھے وہ
انہیں حلف نامہ میں دیناپڑیں۔ملک کی انتخابی تاریخ میں پہلی بارایک سیاسی
پارٹی کی فرمائش پرپولنگ کاوقت ایک گھنٹہ بڑھادیا گیا۔یہ بھی یادرہے کہ یہی
مطالبہ فرمائش کرنے والی پارٹی کی مخالف سیاسی پارٹی کی طرف سے کیاجاتا
توایک گھنٹہ توکیاایک منٹ بھی پولنگ کے وقت میں اضافہ نہ کیاجاتا۔انتخابات
سال دوہزاراٹھارہ کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ وفاقی اورصوبائی نگران
حکومتوں کے قیام کے لیے بھی قوم کوشدیدپریشانی کاسامنارہا۔پنجاب میں ایک
سیاسی پارٹی وزیراعلیٰ کے لیے دیے گئے اپنے ہی نام سے اس لیے منحرف ہوگئی
کہ فریق مخالف نے اس نام پراعتراض کیوں نہیں کیااتنی جلدی اوراتنی آسانی سے
اس پرآمادگی کیوں ظاہرکردی۔کئی صوبوں میں تونگران سیٹ اپ کافیصلہ الیکشن
کمیشن کوکرناپڑا۔دوسیاسی لیڈر انتخابی ماحول یکساں نہ ہونے، ایک سیاسی
پارٹی کوفری ہینڈ دینے اوردوسری دونوں پارٹیوں کی انتخابی مہم میں رکاوٹیں
ڈالنے کی شکایتیں کررہے ہیں اس طرف نہ توالیکشن کمیشن توجہ دے رہا ہے اورنہ
ہی نگران حکومتیں۔انتخابات سال دوہزاراٹھارہ میں پہلی بارانگریزی حروف تہجی
کوبطورانتخابی نشان شامل کیاگیا ہے ۔ کبھی ایک ایسی مذہبی سیاسی پارٹی نے
انتخابات کابائیکاٹ کیاتھا جودھرنوں کے حوالے سے مشہورتھی اوراس نے بھی
کبھی دھرنے دیے تھے۔ دھرنے دینے والی دو سیاسی پارٹیوں میں سے ایک سیاسی
پارٹی جس کے لیڈرکی مذہبی جماعت بھی ہے نے انتخابات سال دوہزاراٹھارہ
کابائیکاٹ کررکھا ہے۔تحریک لبیک پاکستان اورتحریک لبیک اسلام پہلی
بارانتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ |