پچیس جولائی کو ہونے والے الیکشن پر پی ایم ایل ن اور پی
پی پی کی جانب سے الیکشن کمیشن ،نگران حکومت ،خلائی مخلوق کی بے جامداخلت ،طرفداری
،جانبداری کے الزامات کیا تھوڑے تھے کہ پشاور ،بنون اور مستونگ میں ہونے
والے خودکش حملوں ،دھماکوں جن میں سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں اور ان
سے دگنا لوگ ہمیشہ کے لئے معذور ہوگئے نے الیکشن کا رنگ پھیکا کردیا ۔گرمی
،لوڈشیڈنگ نے ویسے ہی لوگوں کا حال بے حال کررکھا تھا اب خودکش حملوں نے
عوم کو جلسے ،جلوسوں ،ریلیوں میں جانے سے روک دیاہے ۔کئی سیاسی جماعتوں نے
کے پی کے بلوچستان میں ہونے والے اپنے پروگرامز ملتوی کردیئے ہیں ۔سیاسی
جماعتیں ایک دوسرے پر حملوں کی مذمت کررہی ہیں اور اپنے کارکنوں کو پرعزم
رہنے اور ڈٹ جانے کا کہہ رہے ہیں یعنی عوام کو قربانی کا بکرا بننے کے لئے
اصرار کیا جارہا ہے ۔عوام بیچاری کہا ں جائے ۔ویسے بھی الیکشن میں فتح کے
بعد ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا وہ اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیو
ں کریں ۔اپنے بچوں کو یتیم اور بیویوں کو بیوا کرکے انہیں کیا ملے
گا۔الیکشن کا ہر پانچ سال کے بعد ہونا ایک اچھا اقدام ہے لیکن دوران حکومت
اور الیکشن کے دوران نادیدہ قوتوں کی مداخلت نے اس ملک کی ترقی کی راہ پر
گامزن نہیں ہونے دیا ۔ڈکٹیٹر جنرل مشرف (ر)جس نے ملک کا آئین توڑا ،امریکی
صدر کی ایک کال پر تمام تر ملکی وسائل ،ہوائی اڈے ،لاجسٹک سپورٹ بغیر کسی
مشاورتی عمل کے امریکہ ،سی آئی اے کے حوالے کردیں جس کے باعث آج ہمارا ملک
جسے 1999 پہلے کسی خودکش حملوں کا سامنا نہ تھا جس کی مغربی سرحدات محفوظ
تھیں ۔کوئی فوج وہاں تعینات نہ تھی آج غیر محفوظ ملک بن گیا ۔ساٹھ ہزار
افراد دہشت گردی کا نشانہ بن گئے ۔کھیلوں کے میدان ویران ہوگئے ۔سرمایہ کار
اربوں روپے لے کر بنگہ دیش ،دبئی ،ابوظہبی ،ملائشیا دیگر ممالک چلے گئے ۔ہزاروں
کی تعداد میں پاور لومز چھوٹے صنعتی ادارے بند ہوگئے ۔ڈالر کے نرخ آسمان کو
چھونے لگے جس کے باعث ہمارے بیرونی قرضوں میں اربوں کا اضافہ ہوگیا ۔لیکن
اس مشرف کے پاکستان آنے پر پاپندی نہیں ہے اسے گرفتار نہ کرنے کا عدالتی
حکم ہے ۔آج دنیا بھر میں وہ لیکچر دیکر لاکھوں ڈالر کما رہا ہے ۔وہ خود تو
ملک سے باعزت طریقے سے فرارہے لیکن پاکستان کو ایک ایسی دلدل میں پھنسا گیا
جس سے نکلنا اب ناممکن ہوگیا ہے ۔کسی کی جان مال محفوظ نہیں ہے ۔مہنگائی ،بدامنی
،بے روزگاری کا نہ رکنے والا سیلاب ہے ۔نوجوان نسل اپنے مستقبل سے مایوس ہے
۔ڈگریاں ہاتھوں میں لے کر گھوم رہے ہیں لیکن انہیں روزگار میسر نہیں ہے
ہمارے حکمران ،سیکورٹی ادارے ہر ہونے والے خود کش حملے ،دھماکے کے بعد مذید
ٹھوس اقدامات ،پابندیوں ،دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کا اعلان کرتے ہیں
لیکن یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا ہے ۔قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں ۔ملک میں
بے یقینی کی سی صورتحال ہے ۔متاثرہ علاقوں میں کاروبار زندگی متاثر ہے ۔لہذا
ہمیں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ان حالات میں الیکشن کو غیر
متنازعہ ،صاف وشفاف بنانے کے اقدامات سمیت ضروری ہیں۔ پہلے توصرف پی ایم
ایل ن کی جانب سے الیکشن میں مداخلت کا واویلا کیا جارہا تھا لیکن اب پی پی
پی کے بلاول بھٹوزرداری نے بھی گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس میں اس کا
اعادہ کیا ۔انہوں نے الزام لگایا کہ الیکشن مہم کے لئے تمام جماعتوں بشمول
پی پی پی کو یکساں مواقع ملنے چاہیں لیکن ایسا نہیں ہورہا ۔انہوں نے کہا کہ
میں جب سے کراچی سے نکلا ہوں ہمیں مشکلات کا سامنا ہے مابعد دہشت گردی کے
واقعات پر انہوں نے کہا کہ ہم سے دہشت گردی کا مسئلہ حل نہ ہوا ۔ہم نے
نیشنل ایکشن پلان تو بنا لیا لیکن اس پر عمل درآمد نہ کیا ہمیں ایک پیج پر
آنا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ ان سب خرابیوں کے باوجود ہم الیکشن کا بائیکاٹ
نہیں کریں گے ۔ان کی جماعت پی پی پی اور پی ٹی آئی نے بلوچستان ،کے پی کے
میں اپنے انتخابی جلسوں کو منسوخ کردیا تاکہ مذید انسانی ضیاع سے بچا جائے
جبکہ یورپی یونین ،سعودی عرف ودیگر کئی ملکوں نے پشاور ،بنوں اور خاص کر
مستونگ میں خودکش حملے کی پرزور الفاظ میں مذمت کے علاوہ دھماکوں کی مکمل
تفتیش کا مطالبہ کیا ہے ۔انہوں نے الیکشن سرگرمیوں میں سیکورٹی انتظامات کو
بہتر بنانے پرزور دیا ۔امریکہ نے بھی دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ
حملے عوام کو جمہوری حقوق سے محروم کرنے کی کوشش ہے ۔ایسے حالات میں جب
سینکڑوں قیمتی جانیں الیکشن مہم کی بھینٹ چڑھ جائیں ،اتنے ہی زخمی ہوجائیں
پھر پھی الیکشن کی جانب داری پر سوالیہ نشان ہو قابل افسوس ہے ۔الیکشن مہم
میں جو بھی مداخلت کررہا ہے اس سلسلے کو فوری بند کرنا چاہئے ۔دہشت گردی کے
واقعات کی روک تھام کے لئے موثر ٹھوس حکمت عملی ہو ۔ضلع ،تحصیل ،گاؤں کی
سطح پر واضح کرنا اور ان پر عمل درآمد کروانا یقینی بنایا جائے ۔ہمارا ملک
جو کہ کھربوں کا مقروض ہے جس کے ساٹھ ہزار لوگ دہشت گردی کی نام نہاد اپنے
سر تھونپی جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے ہوں ۔کو اگر الیکشن پر اربوں روپے خرچ کرکے
اور سینکڑون قیمتی جانیں ضائع کرکے غیر جانبداری کے الزامات کا سامنا ہو تو
مر مٹنے کا مقام ہے ۔اس سلسلے میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پی ایم ایل ن اور
پی پی پی کے قائدین کے خدشات کو دور کرنا الیکشن کمیشن،نگران حکومت کی ذمہ
داری ہے کیونکہ میں جو منظر الیکشن کے بعد دیکھ رہا ہوں اس میں مرکز میں
مخلوط حکومت بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور مخلوط حکومت زیادہ عرصہ
جلتی نہیں ہے ۔ایسے حالات میں بار بار الیکشن کروانا اور اخراجات اٹھاکر
لولی لنگڑی معیشت کو مذید تباہ کرنے کے ہم متحمل نہیں ہیں ۔ |