چندروزقبل جاری ہونے والی اقوم متحدہ کے انسانی حقوق
کمیشن نے ریاست جموں کشمیربارے اپنی رپورٹ میں مقبوضہ ریاست میں بھارتی
فورسزکے انسانیت سوزمظالم کو بے نقاب کردیاہے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری
جنرل نے اس رپورٹ کی توثیق و تائید بھی کردی ہے۔اقوام متحدہ نے مقبوضہ
کشمیرمیں اپنا مبصرمشن بھیجنے کا بھی عندیہ دیاہے جو ایک خوش آئند عمل ہے۔
بھارت گزشتہ کئی دہائیوں سے مقبوضہ ریاست میں نہتے کشمیری عوام پر اپنا
جابرانہ تسلط برقراررکھنے کیلئے آئے روزمظالم کی نئی بھیانک اور دلدوز
داستانیں رقم کرتاچلاآرہاہے۔ پیلٹ گنوں کے استعمال سے ریاست میں ہزاروں
افرادنوجان،بچے اور خواتین اپنی آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں اور
بدترین تشددکی کارروائیوں میں ایک بڑی تعدادمعزورواپاہج ہوچکی ہے لیکن پوری
دنیامیں بھارت کے خلاف کوئی موثرآواز بلند نہیں ہو رہی ہے شائد اس کا نتیجہ
ہے کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی اس رپورت کو بھی مسترد کردیاہے،اگرچہ اقوام
متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ان بھارتی اعتراضات کو مستردکیاہے تاہم بدقسمتی
سے پاکستان جو کہ کشمیری عوام کا وکیل اور مسئلہ کشمیر کا اہم فریق ہے کی
جانب یس تاحال اس رپورٹ پر ٹھوس ردعمل سامنے نہیں آسکا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں
کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور مسئلہ کشمیر
کو اپنی ترجیح اول پر لاتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر موثراندازسے
اجاگر کرنا چاہئے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے جو تحریک شروع کررکھی ہے وہ ان
کی اپنی اور مقامی تحریک ہے یہ تحریک چندسالون سے نہیں لگ بھگ ڈیڑھ سوسال
سے جاری ہے ۔ کشمیر ی عوام نے آزادی و حق خود اختیاری کی جو تحریک شرع کی
تھی اس کے مقاصد بہت واضح ہیں۔کشمیریوں نے کبھی بھی ازخود جبروتشددکی راہ
اختیار نہیں کی لیکن جب انہیں مجبورکیا گیا توانہوں نے ہتھیاراٹھائے۔
کشمیر کا پہلا مسلمان بادشاہ رنچن شاہ تھا جس نے اپنی بیوی بچوں تک کو حلقہ
بگوش اسلام ہونے کیلئے مجبور نہیں کیا۔ سلطان زین العابدین بڈشاہ نے ان
تمام غیرمسلموں کو برصغیر ہند کے گوشے گوشے سے واپس بلایا، جو قحط اور اپنے
ہم مذہبی راجاؤں کے ظلم و تشدد سے گھبرا کر ترک وطن کر گئے تھے، ان کو بڑے
بڑے مناصب پر فائز کیا، جاگیریں دیں، روزمرہ ضروریات زندگی مہیا کیں۔
معاشرے کو منظم کیا۔ مندر ،دھرم شالے اور مذہبی مقامات تعمیر کرکے دئیے،
تاکہ وہ عزت و اطمینان کی زندگی گزاریں اور عقل و خرد کی رہنمائی میں اس
صداقت کو تسلیم کریں، جو مالک دوجہاں نے اسلام کی شکل میں دنیا کو عطا کی
ہے۔
آزادی اور انسانیت کی بقاء کے محافظوں کی ہمت و جرات اور عزم و استقلال کو
اجاگر کرنے کیلئے ایسے واقعات کا ظہور ناگزیر ہوتا ہے جب کذب والحاد کی
گھٹائیں، حق و صداقت کے نور کو ڈھانپ لیتی ہیں۔ چنانچہ ہمارے وطن ریاست
جموں وکشمیر پر بھی یہ دور آئے ہیں۔ انیسویں صدی کے نصف اوّل میں یہ تاریکی
ایسی بھیانک شکل میں پھیل گئی کہ انسانیت سرپیٹ کر رہ گئی۔ چالیس لاکھ
انسانوں کو متاع ِتجارت قرار دے کر ان کے وطن سمیت چند ٹکوں کے عوض فروخت
کیا گیا۔ یہ انسانیت پر اتنا بھاری ظلم تھا جس کی مثال از منہ مظلمہ کی
تاریخ میں بھی مشکل سے مل سکتی ہے اور ایک اتنا بڑا امتحان جس میں پورا
اترنا بڑے دل گردے کا کام تھا۔ کشمیری عوام نہتے تھے اور انکے مدمقابل ہر
قسم کے سامان سے آراستہ، لیکن ریاستی حریت پسندوں کے پائیہ استقلال میں
لغزش نہیں آئی۔ وہ ظلم و استبداد کا مقابلہ کرنے کے لئے مردانہ وار میدان
میں آئے۔ راجگان بھمبر، کوٹلی، پونچھ،اوڑی اور شیخ امام الدین گورنر کشمیر
نے وطن کی عزت اور آزادی کو بچانے کے لئے ظالم قوتوں کا مردانہ وار مقابلہ
کیا۔ اس سلسلہ میں جو جراتمندانہ کارنامے انجام دئیے گئے وہ آب زر سے لکھنے
کے قابل تھے۔ لیکن مخالف قوتوں نے اس کارہائے نمایاں کے نقوش و آثار تک
مٹانے کی کوشش کی تاکہ جنگ آزادی کی یہ ابتدائی مورچے آنیوالی نسلوں کیلئے
سنگ میل کا کام نہ دے سکیں۔
الغرض 1846ء سے1931ء تک آزادی اور غلامی کی قوتوں میں کئی معرکے ہوئے، کئی
رن پڑے۔ جن میں آزادی کے متوالوں نے مخیر العقول ہمت و عزیمت کا مظاہرہ
کیا۔ ہر مورچہ فی نفسہٖ ایک منفرد عظمت کا حامل تھا، لیکن اسکے باوجود
شروفساد کی تاریکی بڑھتی گئی اور اس پر اچانک اُسوقت حملہ ہو اجب ڈوگرہ راج
عروج پر تھا اور وہ یہ سوچ ہی نہ سکتا تھا کہ کشمیر کے پسے ہوئے اور نہتے
عوام ہمارے اقتدار کو چیلنج کریں گے۔ اس لحاظ سے 13جولائی1931ء کا خونی
معرکہ ہماری جنگ آزادی کا پہلا مورچہ ہے۔ جب ڈوگرہ سامراجیوں نے ریاست پر
اپنے غاصبانہ اقتدار کو مستقل شکل دینے کے لئے یہاں کی مسلم اکثریت کو ہر
لحاظ سے فنا کے گھاٹ اُتارنے کی کوشش کی۔ مسلمانوں سے ہتھیار چھین لیے گئے۔
ان کو نظام حکومت سے علیحدہ کیا گیا۔ فوج سے نکال دیا گیا تعلیم سے محروم
رکھا گیا۔ تجارت میں پیچھے دھکیل دیا گیا۔ ان کو بطور مزارع اس زمین کی
آبادکاری پر قانع بنانے کی کوشش کی گئی، جس کو ڈوگروں نے اپنی ملکیت قرار
دیا تھا اور ساتھ ساتھ ان کے ان جذبہ آزادی کو ختم کرنیکی سعی لاحاصل کی
گئی۔
ڈوگرہ حکمران چاہتے تھے کہ ریاست سے اسلام کا نام و نشان ہی مٹا دیا جائے۔
وہ مسلمانوں کے ساتھ انتہائی وحشیانہ اور غلامانہ سلوک کرنے، ان کے مذہبی
رسوم میں مداخلت کرنے اور مقدس مقامات کو سرکاری تحویل میں لینے کے باوجودو
اس مکروہ ارادے میں کامیاب نہ ہو سکے۔پر تاب سنگھ ڈوگرہ نے ریاست میں شدھی
کا چکر چلانے اور مسلمانوں کو جبراً ہندو بنانے کی سکیمیں بنوائیں۔ یہاں اس
بات کا ذکرضروری ہے کہ پرتاب سنگھ صبح دس بجے تک مسلمان کی شکل نہ دیکھتا
تھا اور اگر اتفاقاً صبح کسی مسلمان سے دوچار ہو جاتا تو اس ’’گناہ‘‘ کیلئے
باقاعدہ ’’پشچاتاپ‘‘ کیا جاتا تھا۔ اس صورتحال سے بخوبی اندازہ لگایا جا
سکتا ہے کہ ڈوگرہ غاصب ریاست کی مسلم اکثریت سے کس نظریے سے دیکھتے تھے اور
ان کو ختم کرنے کیلئے کیا حربے استعمال کرتے تھے؟
پچاسی (85) سال کے مسلسل ظلم اور دباؤ کے باوجود ڈوگرہ مظالم اسلامیان
کشمیر کے جذبہ آزادی کو مٹا نہ سکے۔ یہ چنگاری اندر ہی اندر سلگتی رہی
اور1928ء ہی سے کہیں کہیں اس کی ہلکی تپش نمودار ہونے لگی۔1931ء میں جموں
میں قرآنِ پاک کی بے حرمتی کا سانحہ پیش آیا۔ جموں میں خطبہء عید پر پابندی
لگائی گئی۔ یہ رکیک حملہ اسلامیان ریاست کی جرات و عزیمت کا آخری امتحان
تھا۔ بے بضاعتی کے باوجود اسلامیان ریاست بپھرے ہوئے شیروں کی طرح اُٹھے۔
ریاست میں نور اسلام پھیلنے کے مرکز خانقاہ معلی میں باقاعدہ تحریک کا آغاز
ہوا اور اسی تحریک کے سلسلہ میں ایک سرحدی مسلمان عبدالقدیر خان کو بغاوت
کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ مسلمانوں کے جوش و خروش کودیکھ کر ڈوگرہ
حکومت کو مجاہد عبدالقدیر کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی جرات نہ
ہوئی اور فیصلہ کیا گیا کہ مجاہد عبدالقدیر کے مقدمہ کی سماعت سنٹرل جیل
سرینگر میں کی جائے۔
مسلمان آزادی یا شہادت کا اعلان کر چکے تھے وہ13جولائی کے دن صبح سے ہی جوق
در جوق سنٹرل جیل سرینگر کی طرف چل پڑے۔ مقدمہ کی کارروائی شروع ہونے تک
ہزاروں افرادکا جمع غفیر جیل کے سامنے جمع ہو گیاتھا۔ اُنہوں نے مطالبہ کیا
کہ مجاہد عبدالقدیرخان پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے تاکہ لوگ مقدمہ
کی کارروائی سن سکیں اور اپنے بھائی کو دیکھ سکیں۔ ڈوگرہ حکمرانوں کو اپنی
قوت پر ناز تھا، اُنہوں نے اس تحریک کو ایک ہفتے کے اندر اندر ختم کرنیکا
فیصلہ کیا۔ ایسے میں بھلا نہتے عوام کی آواز ان پر کیا اثر کرسکتی تھی؟
مقدمہ کے بند کمرہ میں سماعت کے عدالتی احکامات کے باعث ایسا ممکن نہ تھا۔
لہٰذا عبدالقدیر کے وکلاء لوگوں کو سمجھا بجھا کر سنٹرل جیل سے دور رکھنے
کی کوشش کر رہے تھے کہ اسی اثناء میں گورنر ’’رائے زادہ لوک چند‘‘ چند
سپاہیوں کی ایک جماعت کے ساتھ ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے پہنچ گیا۔ اس وقت
نماز کا وقت ہو چکا تھا اور ہجوم نماز کی تیاریاں کر رہا تھا۔ گورنر نے
موقع شناسی اور مصلحت سے کام لینے کے بجائے آتے ہی ہجوم کو منتشر کرنے کے
احکامات جاری کر دئیے۔ سپاہیوں نے ہجوم پر حملہ کر دیا تو ہجوم بھی سپاہیوں
سے گتھم گتھا ہو گیا۔ گورنر نے جو یہ صورتحال دیکھی تو اس نے سپاہیوں کو
گولی چلانے کا اختیار دے دیا۔ ایک شحص جو دیوار پر چڑھ کر اذان دے رہا تھا،
ڈوگرہ سپاہیوں نے اس پر گولی چلا دی اور وہ گر کر شہید ہو گیا۔ چونکہ اذان
ابھی باقی تھی، لہٰذا فوراً دوسرا مسلمان دیوار پر چڑھ کر باقی اذان ادا
کرنے لگا تو ڈوگروں نے اس پر بھی گولی چلا دی اور یہ بھی شہید ہو گیا۔ اس
طرح تقریباً 22 افراد کو شہید کر دیا گیا(بعض حولہ جات کے مطابق ان میں ایک
خاتون بھی شامل تھی)۔ ہجوم جو کہ پہلے ہی مشتعل تھا، جو یہ صورتحال دیکھی
تو بس کیا تھا اُنہوں نے جیل پر حملہ کر دیا اور جیل کو آگ لگا دی اور
ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی۔ اس واقع نے جہاں مسلمانوں کی آنکھیں کھول دیں،
وہیں ان شہداء نے اپنے لہو کے قطروں سے تحریک آزادی کی بنیاد بھی رکھ دی
اور ثابت کر دیا کہ انقلاب کا آغاز شہیدوں کے خون سے ہی ہوتا ہے۔ یہاں یہ
بات انتہائی قابل ستائش ہے کہ اس معرکہ میں جتنے بھی مسلمان مجاہد شہید
ہوئے کسی ایک کی بھی پیٹھ پر گولی نہیں لگی تھی، سب کو سینے میں گولی لگی
تھی۔
ڈوگرہ بربریت کے انتہائی تشدد کے باوجود لوگوں نے شہداء کی لاشوں کو اپنے
قبضہ میں لیا اور جلوس کی صورت میں جامع مسجد سرینگر لے گئے۔ اس دوران ایک
طرف شہر کو ڈوگرہ فوج کے حوالے کیا گیا تھا تو دوسری طرف غیرمسلم اقلیتوں
کو شہہ دے کر مذہبی فسادات شروع کرا دئیے گئے تھے، تاکہ اس آئینی جنگ کو
فرقہ وارانہ فسادات کی شکل دے کر حریت پسندوں کو دبایا جائے۔ تحریک کے
زعماء نے یہ صورتحال دیکھتے ہی شہر میں اعلان کرا دیا کہ ہماری تحریک غاصب
حکمرانوں کے خلاف ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ ہمارا کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ وہ ہمارے
بھائی ہیں، اسی طرح آزادی کا حق رکھتے ہیں، جس طرح مسلمان۔ اس اعلان سے
ڈوگرہ سامراجیوں کی سکیموں پر اوس پڑ گئی اور لوگ فوج کے پیچھے پڑ گئے۔
شہر میں انقلاب برپا تھا، قائدین تحریک حریت کی گرفتاری کی تیاریاں ہو رہی
تھیں۔ مسلم جانبازشہداء کی لاشیں اور زخمی جامع مسجد سرینگر میں جمع
تھے۔مسجد کے چاروں طرف لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتاہوا سمندر تھا۔ اس غیرمتوقع
انقلاب کے باوجود عوام کے چہروں پرجرات و عزیمت اورعز م و استقامت کے آثار
نمایاں تھے۔ ایک زخمی غلام نبی کلوالؒ، جو چند گھنٹوں بعد شہید ہوئے،
میرواعظ کشمیر مولوی محمدیوسفؒ سے بار بار پوچھتا تھا کہ مجھے بتائیے کہ
میں شہید مروں گا؟ ایک اور زخمی شیخ محمد عبداﷲ کو پیغام دے رہا تھا کہ ہم
نے اپنا فرض ادا کیا۔ ہم نے اپنے خون سے آزادی کا پودا لگایا، اب آپ لوگوں
کا فرض ہے کہ اس پودے کو خوں سے سینچ کر تناور درخت بنا دیں۔ اس سے بخوبی
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ13 جولائی1931ء کے دن جن لوگوں نے اپنے خون کی
قربانی دی، ان کے مقاصد کتنے نیک اور عزائم کتنے بلند تھے۔لوگوں کے اس عزم
و ہمت کو دیکھ کر غاصب حکمرانگھبرا گئے۔ اُنہوں نے رات گئے تک شہداء کو
دفن کرنیکی اجازت نہ دی۔ شہداء کی نعشیں مسجد میں تھیں، پچاس کے قریب
جانباز ان کی حفاظت پر متعین تھے کہ رات کی تاریکی میں ڈوگرہ ملٹری نے
شہداء کی لاشیں چرانے کیلئے مسجد پر ہلہ بول دیا۔ لیکن جانباز محافظوں کی
موجودگی میں ان کو شہداء کی نعشیں چرانے کی جرات نہ ہوئی، البتہ راتوں رات
مسجد کو گھیرے میں لیا گیا اور چاروں طرف مشین گنیں نصب کر دی گئیں، جن کا
رخ مسجد کی طرف تھا، جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ حکومت شہداء کی لاشوں پر
قبضہ کرکے ان کو کسی ذریعے سے ٹھکانے لگانے کی فکر میں ہے، لیکن آزادی کے
متوالوں کے جذبہ آزادی اورخوداعتمادی نے ڈوگرہ درندوں کی اس سازش کو بھی
ناکام بنا دیا۔ شہداء کو دوسرے دن تزک و احتشام کے ساتھ خانقاہ عالیہ
نقشبند صاحبؒ میں دفن کیا گیا، جہاں وہ آج بھی جنگ آزادی کے ہر اوّل دستے
کے سپاہیوں کے طور پر آج تک منزل آزادی کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف
اس واقع کے فوراً بعد حکومت نے گرفتاریاں شروع کر دیں اور سیاسی لیڈروں جن
میں شیخ عبداﷲ، چوہدری غلام عباس، مولوی عبدالرحیم، غلام نبی گلکار، مستری
یعقوب، سردار گوہررحمن اور دوسرے سرکردہ افراد کو گرفتار کرکے پابند سلاسل
کر دیا۔ اب ان رہنماؤں کو احساس ہوا کہ ڈوگروں کے خلاف جدوجہد کیلئے ریاست
جموں وکشمیر کے باشندوں کو متحد ہو کر جدوجہد کرنے سے ہی ڈوگرہ حکمرانوں پر
دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔سنٹرل جیل سرینگر کے اس واقعہ نے بغاوت کی آگ کو پوری
طرح بھڑکا دیا جو عوام کے دلوں کو سلگ رہی تھی۔ وادی کشمیر کے چپہ چپہ میں
اضطراب و ہیجان شروع ہوا۔ اسلام زندہ باد، آزادی کشمیر پائندہ باد کے نعروں
سے فضاء گونجنے لگی۔ جگہ جگہ جلسے ہونے لگے، جلوس نکلنے لگے۔ جن میں عہد و
پیماں کیے گئے کہ کشمیری عوام اس وقت تک خاموش نہیں بیٹھیں گے جب تک شہداء
13 جولائی کا مشن پایہ تکمیل کو نہ پہنچ جائے۔ ڈوگرہ حکمرانوں نے عوام کے
جذبات کو دبانے کیلئے انتہائی وحشت ودرندگی سے کام لیا۔ نواب بازار سرینگر،
اسلام آباد، پٹن، بارہ مولہ، سوپور، ہندواڑہ اور شوپیاں میں لوگوں کو
گولیوں کی بارش کی گئی،کئی لوگ شہید ہوئے لیکن اس کے باوجود آگ نہ دب سکی
جس نے اب ساری ریاست کو لپیٹ میں لے لیا تھا۔
یہ ہے مختصر سی داستان کشمیر کے جنگ آزادی کے اس پہلے مورچہ کی جس کی یاد
میں ہر سال13 جولائی کو ملت اسلامیان کشمیر شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرتے
ہیں اور اس موقع پر اپنے وطن عزیز کو بھارتی ظلم سے آزاد کرانے کیلئے اسی
جرات و عزیمت کا ارادہ کرتے ہیں، جس کا مظاہرہ آج سے تقریباً ایک صدی قبل
سنٹرل جیل سرینگر کے سامنے جامع مسجد سرینگر اور ریاست کے چپہ چپہ پر کیا
گیا تھا۔ جب تک ایک کشمیری بھی زندہ ہے وہ اس مشن کی تکمیل میں اپنی جان کی
بازی لگانے سے بھی گریز نہ کرے گا۔اﷲ تعالیٰ شہداء کے درجات بلند
فرمائے۔آمین
اقوم متحدہ کی جانب سے کشمیرکی صورتحال بارے محض ایک رپورٹ جاری کردیناایک
لاحاصل مشق ہو گی جب تک کہ یہ عالمی فورم اپنی اصل ذمہ داریاں ادانہیں
کرتا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ اپنی منظورشدہ قراردادوں کے مطابق
مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اپنا ذمہ دارانہ کرداراداکرے اور کشمیریوں کو ان
کا پیدائشی حق‘ حق خودارادیت دلانے کے لئے بھارت کو پنا وعدہ پوراکرنے پر
مجبورکرے۔ |