میرے وطن تجھے عظیم تر میں بنا کے چھوڑوں

کئی دن ہی نہیں کئی ہفتے گزر گئے مجھے کوئی کالم لکھے ہوئے۔ آج یونہی غیر متوقع طور پر یوں وارد ذہن ہو ا کہ انگلیاں خود بخود ’ کی بورڈ ‘ پر چلنے لگیں۔شاید سالہا سال پہلے کی ،پرانی بات ہے کہ جب اسلامی قسم کی ڈھولکی کی آواز کے ساتھ نوجوانوں کا ایک گروپ پورے جوش و جذبے اور اسلامی عزم کے اظہار کے ساتھ یہ ترانا گاتا کہ ’’ اتحاد ہمارا جیتے کا اتحاد ہمارا جیتے گا ، ماؤں کی دعا سے آئے گا اور دور خزاں کا بیتے گا ،اتحاد ہمارا جیتے گا اتحاد ہمارا جیتے گا ‘‘ ، تو یہ ترانا سن کر نوعمر لڑکوں،نوجوانوں کے دلوں کے حساس تار بھی ہل جاتے تھے اور ترانے کا جذبہ اور عزم ان کے بدنوں سے چھلکنے لگتا تھا۔

ایک بار پھر پاکستان میں الیکشن آن ٹکرا ہے، اب معلوم نہیں کہ الیکشن عوام کو ٹکرا ہے، ملک کو ٹکرا ہے یا عوام اور ملک الیکشن کو ٹکر گئے ہیں، بہر حال جو بھی ہو ، ملک ،عوام اور الیکشن تینوں ’’ میڈ ان پاکستان ‘‘ ہیں ،یعنی نہ تو دنیا بھر میں کوئی دوسرا پاکستان جیسا ملک ہے،نہ اس جیسے عوام اور نہ ہی پاکستان کی طرح کے الیکشن۔جدیدیت نے تو اب الیکشن کو بھی ایک سائینس بنا دیا ہے ایسے ایسے خاکے ،ڈھانچے اور کل پرز وں کو بروئے کار لاتے ہوئے ریاضی کے ایسے فارمولوں کی مدد سے انجینئرنگ کی جاتی ہے کہ ہمارا الیکشن دنیا بھر میں ایک شاہکار کے طور پر نمودار ہوتا ہے۔ جس طرح شادی شادی ہوتی ہے اور کھانا کھانا ہوتا ہے اسی طرح الیکشن الیکشن ہوتا ہے،چاہے وہ جنرل ایوب کے الیکشن ہوں، 1971کے الیکشن ہوں، مجلس شوری کے الیکشن ہوں،اسلام کی حمایت میں رائے شماری ہو، جمہوریت سے وفاداری کی یقین دہانی کے ساتھ ہونے والے الیکشن ہوں ،اقتدار کی میوزیکل چیئر کے طور پر حکومتوں کی غیر متوقع تبدیلیوں کے نتیجے کے الیکشن ہوں یا با مشرف الیکشن ، الیکشن تو الیکشن ہوتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اب جدید سہولیات حاصل ہونے سے کرپشن اور ملک دشمنی میں اضافہ ہو گیا ہے،یہ وہی کرپشن ہے جس کے لئے جنرل ایوب کو کرپشن ،کرپٹ لوگوں اور ملکی غداروں کے خاتمے کے لئے محاذ کھولنا پڑا تھا،اور اب بھی ’’ یار سجنوں ‘‘ کے یہ آوازے ملک کے سب سے بڑے مسئلے کے طور پر اکثر سنائی دیتے ہیں ’’ کرپٹ ای اوئے‘‘ اور ’’ کرپشن کر گیا،ملک کھا گیا‘‘ کے طعنے مارتے رہتے ہیں یعنی یہ ملکی بیماری ختم نہیں ہوئی بلکہ ’’ مرض بڑہتا گیا جوں جوں دوا کی ‘‘ کی عملی صورت بن چکا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کی طرح کرپشن کے خلاف جنگ بھی ایک طویل عمل ہے تاہم ہمیں اطمینان ہے کہ ملک کے کمزور ہونے کی بات کرنے والے جھوٹ بولتے ہیں،ملک تو مضبوط سے مضبوط تر،ناقابل چیلنج ہو چکا ہے،یقین نہ آئے تو کسی سیاستدان سے پوچھ لو۔

ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ الیکشن تو الیکشن ہوتے ہیں،اس میں ووٹروں کی توجہ ہی نہیں بلکہ ووٹ بھی حاصل کرنے کے لئے ووٹروں کو ان کی عمروں کے حساب سے ڈیل کرتے ہوئے انتخابی بساط یوں سجائی جاتی ہے کہ جو صرف اور صرف جیتنے کے لئے ہی ہوتی ہے۔ہاں الیکشن کا یہ فرق ضرور ہے کہ سالہا سال پہلے ’’ اتحاد ہمارا جیتے گا‘‘ کے ترانے پر نوجوان مست ہو جاتے تھے اور آج2018میں جب نوجوان، ایک معصوم سے بچے کی زبردست آواز میں یہ ترانا سنتے ہیں کہ ’’ میرے وطن یہ عقیدتیں اور پیار تجھ پہ نثار کر دوں ، محبتوں کے یہ سلسلے بے شمار تجھ پہ نثار کر دوں ، میرے وطن میرے وطن ، میرے وطن میرے بس میں ہو تو تیری حفاظت کروں میں ایسے ، خزاں سے تجھ کو بچا کے رکھوں بہار تجھ پہ نثار کر دوں ، تیری محبت میں موت آئے تو اس سے بڑھ کر نہیں ہے خواہش ، یہ ایک جاں کیا ہزار ہوں تو ہزار تجھ پہ نثار کر دوں ‘‘ تو دل ایسے پسیج جاتا ہے کہ یہ ترانا سنا کر جائز ،ناجائز جو مرضی کر لو، کوئی اعتراض نہ ہو گا۔یہ ترانا سن کر سیاسی و غیر سیاسی لوگوں کے سیاسی و غیر سیاسی اقدامات پر کسی کو بھی معترض ہونے کی جرات نہیں ہو سکتی۔ اور جو کوئی ایسی جسارت کرے اسے ملک دشمن سوچ کا حامل،آلہ کار(5thجینریشن وار)قرار دینے پر بھی کوئی اعتراض نہیں کر سکتا ،کیونکہ مذہب، ملک، اس کا نظام،ادارے اور با اختیار، طاقتور کی ذات،سب مقدس ہیں۔ کرپٹ لوگ اور ان کے حامی لوگ ہی ایسے ظالموں میں شامل ہیں جو معصوم آواز کے اس پرعزم ترانے کو سن کر بھی اسی کے خلاف بات کرتے ہیں جنہوں نے ملک کو تھاما ہوا ہے،بچایا ہوا ہے۔ الیکشن تو الیکشن ہوتے ہیں، الیکشن کو ملک پر حاوی تو نہیں کیا جاسکتا ،اس لئے الیکشن کو متعین رخ پر سیدھا رکھنے میں کیا کیا جدوجہد کرنا پڑتی ہے، اس کا اندازہ کرنا کرپٹ لوگوں اور ان کے ’’لور کریکٹر‘‘ حامیوں کے بس کی بات نہیں ہے۔انہی ونوں ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کے الیکشن میں جب ایک گروپ کے کیمپ میں بچے کی معصوم آواز والا ترانا بجنے لگا تو مجھے یقین ہو گیا کہ قدرت کی نصرت اسی گروپ کے ساتھ ہے اور چند گھنٹوں بعد ہی یہ ثابت ہو گیا کہ اسی گروپ کی کامیابی میں ملک و عوام کا مفاد پوشیدہ ہے۔

نوجوان ووٹروں کے بعد آتے ہیں جوان ووٹر۔ جوان ووٹر وں پر اثر انداز ہوتے ہوئے اس کے رجحانات کو مخصوص رخ دینے کے اقدامات کی فہرست اتنی طویل ہے کہ شاید انسائیکلو پیڈیا کی طرح کتابوں کی کئی جلدیں تیار ہو جائیں۔جوانی کے مرحلے کے آخری حصے اور اس کے بعد کی ادھیڑ عمری اور بڑہاپے والے ووٹروں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے دنیا میں کافی کچھ دیکھ ،سن اور پڑھ لیا ہوتا ہے ،لہذا وہ سوال کرتے ہیں ،ایسے سوال بھی کرتے ہیں جن سوالات کی کسی کو بھی اجازت دینا ملک اور اس کی سلامتی کے خلاف عمل قرار پا سکتا ہے اور تادیبی کاروائی کا موجب بھی بن سکتا ہے۔

الیکشن کے حوالے سے ہی یاد آ گیا کہ وہی بات ایک نئے انداز میں عوام سے دریافت کیا جانا نظر آ رہا ہے کہ کیا آپ اسلام چاہتے ہیں؟اگر کسی عالم سے پوچھیں تو یہی بتائے گا کہ غیر صادق اور غیر امین قرار کردہ شخص صرف نا اہل ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے تمام احکامات اور افعال بھی منسوخ ہو جاتے ہیں۔اس نے جس جس عہدے پر جس جس شخصیت کی منظوری دی ہو،وہ بھی باطل قرار پاتی ہے ، اس کے تمام عہد و پیمان اور منظوریاں حرام ہو جاتی ہیں اور تو اور اگر وہ کسی شادی میں گواہ ہو تو اس شادی شدہ جوڑے کا نکاح بھی اسی تاریخ سے از خود منسوخ ہو جائے گا جس تاریخ کو اس شخص کا غیرصادق(جھوٹا) اور خیانت دار ہونا مجاز عدالت سے قرا ر دیا گیا ہو یا دلوایا گیا ہو۔یاد رہے کہ اصلاح معاشرہ کے مقصد سے خدائی فوجداری کے طور پر ملک میں مجرموں کو سزایاب کرنا اور ایسا چھپ کر کرنا پسندیدہ افعال میں بلند مقام رکھتا ہے، یہ نیکی بھی ایسے کی جاتی ہے کہ دوسرے ہاتھ کو تو خبر کیا ہو گی ، خود بھی ایسا کئے جانے کے اقرار سے مسلسل انکار کی انکساری اپنائی جاتی ہے۔سرکاری تنخواہ پانے والوں کی محب وطنی کی طویل جدوجہد اورقربانیاں دیکھ کر دل وطن کی محبت سے سرشار ہو جاتا ہے اور حکام ہی نہیں عوام بھی یہ ترانا گنگنانے لگتے ہیں کہ
’’ میرے وطن تو عظیم تو ہے پر تجھے عظیم تر میں بنا کے چھوڑوں ‘‘-

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 768 Articles with 609090 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More