شعور کی بیداری یا صبر کا لبریز ہوتا پیمانہ۔

ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں چند دن رہ گئے ہیں ان دنوں جہاں انتخابات کی گہماگہمی عروج پر پہنچ گئی ہے وہیں امیدواروں کو اپنے حلقہ انتخاب میں جانے پر شدید مذاحمت کا سامنا بھی ہے جو کسی مخالف امیدوار کی جانب سے نہیں بلکہ خود حلقہ کی عوام کی جانب سے ہے ایسے امیدوار جو گذشتہ پانچ سالوں سے اپنے حلقوں سے غائب رہے اب ان کا اپنے حلقوں میں آنا محال ہوگیا ہے ۔ عوام کی جانب سے ان سے جواب طلب کیا جارہا ہے ۔ گذشتہ چند دنوں میں ملک بھر میں ایسے واقعات میں شدت آگئی جہاں امیدواروں کو حلقوں میں اس قدر شدید عوامی رد عمل کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ بنا تقریر کیئے واپس لوٹ گئے ۔

ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں چند دن رہ گئے ہیں ان دنوں جہاں انتخابات کی گہماگہمی عروج پر پہنچ گئی ہے وہیں امیدواروں کو اپنے حلقہ انتخاب میں جانے پر شدید مذاحمت کا سامنا بھی ہے جو کسی مخالف امیدوار کی جانب سے نہیں بلکہ خود حلقہ کی عوام کی جانب سے ہے ایسے امیدوار جو گذشتہ پانچ سالوں سے اپنے حلقوں سے غائب رہے اب ان کا اپنے حلقوں میں آنا محال ہوگیا ہے ۔ عوام کی جانب سے ان سے جواب طلب کیا جارہا ہے ۔ گذشتہ چند دنوں میں ملک بھر میں ایسے واقعات میں شدت آگئی جہاں امیدواروں کو حلقوں میں اس قدر شدید عوامی رد عمل کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ بنا تقریر کیئے واپس لوٹ گئے ، ان میں ڈاکٹر فاروق ستار، بلاول بھٹو زرداری، عامر لیاقت حسین، ڈاکٹر عارف علوی، مولا بخش چانڈیو، آغا سراج درانی، عامر لیاقت حسین ہیں جب کہ ایسے واقعات ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی تواتر سے دیکھنے میں آرہے ہیں ۔ اب انہیں عوامی سطح پر شعور کی بیداری کہہ لیں یا پھر عوام ک صبر کا پیمانہ لبریز ہونا کہہ لیں دونوں کیفیات میں میں نتیجہ عوام کو امیدواروں پر پھٹ پڑنا ہے ، اس عوامی شعور کی بیداری کے بعد ایک تبدیلی یہ بھی نظر آئی کہ اگر ماضی میں ہونے والے انتخابات میں دیکھا جائے تو کسی امیدوار کے خلاف اول تو کسی کو سوال کرنے کی ہمت نہ ہوتی تھی اور اگر کسی سے یہ غلطی سرزد ہوجاتی تھی تو اسے جلسہ گاہ سے نکال باہر کردیا جاتا تھا مگر اب صورت حال بدل چکی اب ووٹر کو نہیں امیدوار کو بھاگنا پڑرہا ہے ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ عوامی شعور کس حد تک بیدار ہوا ہے جس کا اندازہ 25 جولائی کو انتخابات کے نتائج آنے پر ہی لگایا جاسکتا ہے کہ عوام سیاستدانوں کو انتخابی حلقوں میں ہی گھیرا کرتے رہے تھے یا پھر اپنے ووٹ کی طاقت کے ذریعے اپنے باشعور ہونے کا ثبوت دیا۔ سندھ میں بشمول کراچی کی سیاست نئے رخ پر نظر آرہی ہے سندھ کے کئی دیہی علاقوں میں پاکستان پیپلزپارٹی اور شہری علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ کی اب وہ مضبوط گرفت نظر نہیں آرہی جہاں ماضی میں کہا جاتا تھا کہ ان علاقوں میں انتخابی مہم کی ضرورت نہیں یا وہاں سے ان جماعتوں کے امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوجاتے تھے اب امیدواروں کو سخت مقابلے کا سامنا ہے ۔عوام میں شعور کی بیداری کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ عام انتخابات میں لوگ میڈیا کی رپورٹنگ کی دوران حتمی فیصلہ سناتے ہوئے قبل از وقت ہی بتادیتے تھے کہ وہ ووٹ کس پارٹی کو دینگے لیکن اس بار ایسے لوگوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے جن کا ماننا ہے کہ بس اب بہت ہوگیا اب ہم آزمائے ہوؤں کو مزید آزمانے کے متحمل نہیں ہوسکتے اس لیئے اب سوچا ہے کہ ان دو پارٹیوں کے علاوہ کسی کو ووٹ دیں گے جو برسوں سے باری باری اقتدار میں آتے ہیں ۔

 Arshad Qureshi
About the Author: Arshad Qureshi Read More Articles by Arshad Qureshi: 142 Articles with 167627 views My name is Muhammad Arshad Qureshi (Arshi) belong to Karachi Pakistan I am
Freelance Journalist, Columnist, Blogger and Poet, CEO/ Editor Hum Samaj
.. View More