میرا پیارا ملک معرض وجود میں آنے کےبعد سے ایک صدی کے
کاؤنٹ ڈاؤن کی طرف گامزن ہے لیکن آج تک ایک اچھے لیڈر کا شدت سے فقدان
رہا۔اگر فوجی قیادت آئی تو بڑے کرپٹ لوگوں کو کھانے کا موقع نہیں ملا تو
فوج کے خلاف لوگوں کو اکسانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ اس دور میں 75 فیصد
عام آدمی امن، تحفظ، لاء اینڈ آرڈر اور روزگار جمہوری حکومت سے زیادہ بہتر
محسوس کرتا ہے۔
یہی ہمارے سیاسی جمہوری لوگ مثالیں دیتے وقت گریز نہیں کرتے اور لوگوں کو
بآسانی بیوقوف بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ قوم بآسانی بیوقوف بن جاتی
ہے۔ سول جمہوری قیادت میں کوئی مثال نہیں ملتی جسے ہم بطور مثال پیش کر
سکیں۔ لیکن ہمارے حکمران سیاسی لیڈرز دوسرے ممالک کی مثالیں بڑے شوق سے
دیتے ہیں، کبھی نیلسن منڈیلا، کبھی حسینہ واجد، شیخ مجیب الرحمن وغیرہ
وغیرہ۔ میری رائے ہے کہ اپنے اندر بھی وہ خصوصیات پیدا کرو کہ دوسرے ممالک
بھی آپ کو بطور نمونہ پیش کریں۔ ہمارے حکمرانوں کے نام تو دوسرے ملکوں کی
اخبارات میں چور، ڈاکو اور کرپ مافیہ کے نام سے شائع ہوتے ہیں۔
حا ل میں فٹ بال میچ سیریز کے حوالے سے ایک نام منظر عام پر آیا جس نے اپنے
عہدے کا بھی مان رکھا اور اپنے ملک و قوم کو بھی آگے بڑھ کر سینے سے لگایا۔
فائنل میچ ہارنے والی ٹیم کی یہ شخصیت نے جو کردار ادا کیا وہ بذاتِ خود
ایک مثال بن گیا۔ سوچنا ہو گا کہ ہمارے لیڈر یا حکمران کب اس طرح کا رول
ادا کریں گے۔
یوگو سلاویہ کا ایک میں رہنے والا قصائی اپنی زندگی گزارنے کے لیے کسی ہوٹل
یا ریسٹوران کو گوشت پہنچاتا تھا یہی اس کا کاروبار تھا، اس روز گار میں
رہتے ہوئے اپنی اولاد کے خواب آنکھوں میں سجائے قدم بڑھا رہا تھا۔
1979 کے سخت ترین جاڑے کی ایک اتنی ہی سرد اور اداس شام تھی۔ یوگوسلاویہ کے
دورافتادہ اور پسماندہ گاوں میں ایک قصاب بخار میں پھنک رہا تھا۔ پریشانی
اس کے چہرے پہ عیاں تھی۔ کسی نہ کسی طرح ہمت جمع کرکے اس نے گوشت تو بنا
لیا- مگر اسے ریستوران تک پہنچانا اسے عذاب لگ رہا تھا۔ اتنے میں اسکی 11
سالہ بیٹی سکول سے لوٹی۔ باپ کو پریشان دیکھ کر ماجرہ سمجھ گئی۔ برفباری
میں گوشت سے لدی بھاری بھرکم ریڑھی کھینچ کر ریستوران تک چھوڑ آئی۔وہ مڈل
سکول میں گاوں کے سکول میں اول آئی۔ تب امریکہ میں ہائی سکول میں وظیفے کا
امتحان منعقد ہوا۔ وہ اس میں منتخب ہونے والے چند طلبہ میں سے ایک تھی۔ اسے
پڑھنے اور محنت کرنے کا جنون تھا۔ جو بالآخر اسے جارج ٹاؤن سے ہوتا ہوا
ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی سکول میں لے گیا۔ چند برس کی محنت شاقہ کے
نتیجے میں وہ امور خارجہ میں ماہر سمجھی جانے لگی۔ امریکہ میں اپنے ملک کی
پہلی خاتون سفیر مقرر ہوئی۔ وزارت خارجہ کا مشکل فریضہ انتہائی خوبصورتی سے
نبھایا۔ اسی خاتون کو چند روز قبل ساری دنیا نے ستائش بھری نظروں سے FIFA
ورلڈ کپ کے فائنل میں اپنی ٹیم کا دیوانہ وار جذبہ بڑھاتے دیکھا۔ وہ عام
سٹینڈ میں اپنے ہم وطنوں کے درمیان ڈبوں والی سرخ T-shirt زیب تن کئے نعرے
بلند کرتی نظر آئی۔ یہ کولنڈا گریبر. Kolinda Grabar Kitarovic ہے۔ کروشیا
کی منتخب صدر۔ جسے دو ارب سے زائد ٹی وی سے چپکے ناظرین ستائش بھری نظروں
سے دیکھ رہے تھے۔ وہ اکانومی کلاس میں خود ٹکٹ خرید کر پہنچی۔ VIP سہولیات
شکریہ سے واپس کردیں۔ اس دورانیہ میں اپنی تنخواہ واپس کردی۔ آپکو یہ سن کر
حیرت ہوگی کہ کروشیا کی آبادی محض چالیس لاکھ ہے۔ اسکا ورلڈ کپ کے فائنل
میں پہنچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں۔ 50 سالہ کولنڈا اپنے ملک کے تمام
میچوں میں موجود رہی۔ اس دوران اسنے NATO کے سربراہ اجلاس میں بھی شرکت کی۔
مگر راتوں رات واپس ماسکو پہنچ گئی۔ میچ کے وقفہ میں وہ اپنے مدمقابل
فرانسیسی ٹیم کے کمرے میں اچانک جاوارد ہوئی۔ اس نے ان کا بھی حوصلہ
بڑھایا۔ کروشیا بہتر ٹیم ہونے کے باوجود تجربہ کار فرانس کی ٹیم سے شکست
کھا گئی۔ کولنڈا سب کھلاڑیوں سے بغل گیر ہوئی۔ مگر جب کپتان موڈرچ سے ملی
تو دونوں پھوٹ پھوٹ کر رودیئے۔ چشم فلک بھی اس منظر کی تاب نہ لاسکا۔ آنسو
ساون بن کر بے تحاشہ برسے۔ جوان سال موڈرچ جسے Golden ball award یعنی دنیا
کے بہترین کھلاڑی کے اعزاز سے نوازا گیا بولا۔”ماں“۔ میں نے آج تجھے ساری
دنیا کے سامنے شرمسار کردیا۔ کولنڈا نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولی۔
”میرے بچے! تم مٹھی بھر جوانوں نے دنیا کے دل جیت لئے ہیں۔ آج تم ہار کر
بھی فتح یاب ہو۔ میرے ملک کے لئے عزت کا یہ مقام ایک دھات سے بنے کپ کو
تھامنے سے بدرجہا بہتر ہے“۔
اس نے تیز بارش میں چھتری واپس کردی اور بولی میرے بچے بارش میں نہا رہے
ہیں۔ میں بھی ان کے ساتھ مسرور ہوں۔ کولنڈا نے کروشیا کو ترقی یافتہ ممالک
میں شامل کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ اس نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے اسے
یورپین یونین کا رکن بنوایا۔ جس سے روزگار اور تجارت کے بے پناہ مواقع میسر
آئے۔ NATOکی پہلی مرتبہ خاتون اسسٹنٹ سیکریٹری منتخب ہوئی۔ آج وہ پوٹن اور
میکرون کے بیچ کھڑی بلند وبالا نظر آئی۔ اللہ نے اسے حسن صورت و سیرت کا
امتزاج بنایا۔ وہ دو جوان بچوں کی پیار کرنے والی ماں۔ وفاشعار بیوی اور
والدین کی خدمت گزار بیٹی ہے۔
آئیے اپنے گرد نگاہ دوڑائیں تو ہم غلاموں کی مانند ارب پتی خانوادوں اور
انکے بعد انکی اولاد کی چوکھٹ کو چومتے نظر آتے ہیں۔ ہماری بصارت اور بصیرت
سے محروم آنکھ گلے میں پڑے طوق اور پاوں میں بندھی زنجیروں کو محسوس ہی
نہیں کر پاتی۔ کیا ہم بھی کسی عام آدمی کو غیر معمولی ذہانت۔اخلاص اور بلند
اخلاق کی بنیاد پر اپنا رہبر چنیں گے۔ یقین مانیں۔۔۔ہمیں بھی چند ایسی قصاب
کی بیٹیوں کی ضرورت ہے۔۔۔ جو ہماری بھی قسمت کو بدل دیں۔ انشائاللہ وہ
سویرا جلد طلوع ہو گا۔
منحوس سماجی ڈھانچوں میں جب ظلم نہ پالے جائیں گے۔ جب ہاتھ نہ باندھے جائیں
گے جب سر نہ اچھالے جائیں گے۔
یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہو گا جب ہم سب مخلص ہو کر کوئی جہاندیدہ، پڑھا،
لکھا، دور اندیشن، دشمن کی آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر جواب دینے والا،
برابری کی سطح پر بات کرنے والا، بغیر پرچی کے اپنے مسائل ڈسکس کرنے والا،
اپنی ذات سے ہٹ کر ملک وقوم کا سوچنے والا، ایک عام گلی کے بچے کے مستقبل
کے بارے میں سوچ رکھنے والے رہنما کا انتخاب کریں۔ ذرا سوچیں اور اپنا اپنا
مثبت رول ادا کریں، بلاذات پات، بلا تفریق قوم کے ہر بچے کو موقع دیں اوراس
کا مستقبل بھی آپ کا مستقبل ہے۔ انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب میرے دیس کے
لوگ بھی اپنی مثال اپنی آپ بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سوچنے اور
پرکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ ثم آمین۔
|