دنیا کے ٹاپ دس کرپٹ لیڈرز میں نواز شریف کا نام بھی آتا
ہے۔ کنگ سلمان بن عبد العزیز، مودوی، پیوٹن کے بعد نواز شریف پیسوں کی
کمائی کے دھنی ہیں۔ نواز شریف کے اثاثے کھربوں ڈالرزہیں ۔ اگر دنیا کے
امیروں کی لسٹ مرتب کی جائے تو شاید نواز شریف ٹاپ 100میں ضرور آتے ہوں گے۔
جہانگیر خان ترین، عمران خان، جہانگیر صدیقی، آصف زرداری اور ملک ریاض
وغیرہ بھی دنیا میں دولت کے اعتبار سے اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ بہرحال
سیانے کہتے ہیں کہ جتنا اڑنا ہے اڑ لو، اک دن پنجر ے میں ضرور قید ہونا ہے
۔ اوریہ مثال آج میاں نواز شریف صاحب پر صادق آتی ہے۔ آصف زرداری بھی کال
کوٹھری کی ہوا کھا چکے ہیں اور شاید عمران خان اینڈ کمپنی بھی کبھی اس قید
بہ مشقت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ خیر اب چند دنوں میں ملک میں عام انتخابات
ہونے جارہے ہیں۔ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت ملک میں صاف شفاف اور فری
اینڈ فیئر الیکشن کرانے کے لیے بڑے دعوے کر رہے ہیں۔ بیلٹ باکس کی تیار ی
کا عمل جاری ہے ۔ انتخابی سامان کی منتقلی ہورہی ہے اور انتخابی مہم عروج
پر ہے۔اس لیے انتخاب کے التوا کا کوئی امکان نظرنہیں رہا مگر 100سے زائد
قومی اور صوبائی حلقوں میں انتخابات کا انعقاد مشکل ہو سکتا ہے ۔کیوں کہ ان
حلقوں کے امیدواروں کے کاغذات الیکشن ٹریبونل نے مسترد کردیے تھے اور انہوں
نے اعلی عدالتوں سے رجوع کیا ہوا ہے۔ سندھ کے 61 قومی حلقوں میں سے 35 حلقے
ایسے ہیں جس میں امیداروں کی درخواستیں عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔سندھ کے
130حلقوں میں سے 46حلقوں کے امیدواروں کی درخواستیں عدالتوں میں سماعت کے
مرحلے میں ہیں۔جبکہ پنجاب کے پانچ قومی اور سترہ صوبائی حلقوں ، بلوچستان
کے ایک قومی اور چار صوبائی حلقوں میں درخواستیں زیر سماعت ہیں جویقینا
بیلٹ پیپر کی بروقت چھپائی اور ان حلقوں میں الیکشن کے انعقاد پر سوالیہ
نشان ہے۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی رپورٹ کے مطابق چند تحفظات سامنے آئے ہیں ۔
جیسے کہ ’’ ن لیگ کے کارکنوں کی گرفتاریاں اور آزادی اظہاررائے پر قدغنیں
اور میڈیا ہاؤسز کے ڈکٹیٹ ہونے کی خبروں کا گردش کرنا، ایک مخصوص پارٹی کا
احتساب کرنااورالیکشن والے دن سیکورٹی فورسز کو غیر معمولی اختیارات دینا
انتخابات کے منصافانہ انعقاد پر گہری ضرب لگا سکتا ہے۔ کمیشن نے کہا ہے کہ
بعض جماعتوں کے امیدواروں کو ہراساں کیا جارہا ہے اور بعض حلقوں میں کالعدم
تنظیمیں نام بدل بدل کر الیکشن لڑ رہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر
جماعت کو سپورٹ بھی کر رہی ہیں ۔کمیشن کا کہنا ہے کہ مخصوص سیاستدانوں کو
انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور سیاسی وفاداریاں بدلنے پر مجبور کیا
جارہا ہے۔ملک کی دوبڑی پارٹیوں ن لیگ کو پنجاب اور پی پی پی کو سندھ میں
ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔کمیشن کا مزید کہنا ہے کہ انتخابی عمل میں
تمام جماعتوں یا امیدواروں کو یکساں مواقع فراہم نہ کرنا اور اعتزاز حسن
اور راجہ ظفر الحق جیسے لوگوں کا الیکشن کمیشن پر پری پول رگنگ کا الزام
عائد کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ جیسا کہ شہباز شریف
کہتے ہیں کہـ ’’سب کی چھٹی اور لاڈلے کی کھلی چھٹی ایسے نہیں چلے
گا‘‘۔بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ ’’سازشوں کا ثبوت دوں گا ، عمران مقبول ہیں تو
اتنی سہولیات کی ضرورت کیوں؟‘‘۔سراج الحق کے مطابق’’لگتا ہے یک طرفہ ٹریفک
چل رہی ہے‘‘۔ اے این پی ، مولانا فضل الرحمان اور دیگر سیاسی جماعتوں کے
نمائندے اور بالخصوص بین الاقوامی میڈیا بھی سازشی تھیوریوں اور تیسری
قوتوں کے بارے میں تحفظات کا اظہار کر رہاہے ۔کمیشن ( آیچ آر سی پی) نے
خبردار کیا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو بدترین اور کنٹرولڈ انتخابات ملک کے چہرے
کو صحیح تصویر پیش کرنے سے قاصر ہوں گے۔
عامی جاننا چاہتا ہے کہ نواز شریف کی آمد والے دن عمران کا طیار ہ اڑنے
دیامگر بلاول کو پرواز کی اجازت کیوں نہیں ملی؟، نواز شریف کی وطن واپسی کے
وقت عوام کو ان کے استقبال سے کیوں روکا گیا؟ اگر استقبال سے روکنا تھا تو
نگراں حکومت روکتی ، رینجرز کو جا بجا ہ کیوں تعینات کیا گیا؟ ائیر پورٹ کے
اندر ملٹری کمانڈورز کو کیوں تعینا ت کیا گیا؟ ائیر پورٹ پر ایک لیگی ووٹر
کو نواز شریف کے حق میں نعرہ لگانے کی پاداش میں کہاں لے جایا گیا؟ یہ جیپ
اور آزاد حیثیت میں اتنی بڑی تعداد میں رخ کرنے پر لوگوں کو کس نے تیار کیا؟
عمران تو کبھی عدالت یا الیکشن کمیشن پیش نہیں ہوئے، انہیں پھر بھی بخش مل
گئی جبکہ نواز شریف کا اکیلے ہی احتساب ۔۔چہ معنی دارو؟ ۔ علیم خان سمیت پی
پی پی اور دوسری جماعتوں کے لوگوں کوکیوں کچھ نہ کہا گیا؟ سراج الحق کی دی
گئی 437 لوگوں کی لسٹ پر عمل کیوں نہ کیا گیا؟ الیکشن کے عین موسم میں پکڑ
دھکڑ ، گرفتاریاں اور نااہلیاں۔۔ کڑیاں کدھر مل رہی ہیں؟
قومی و بین الاقوامی حالات حاضرہ، سیاست کے گھوڑوں کی لگامیں پرکھنے والے
کھلاڑیوں اور کل کی خبر پر نظر رکھنے والے تھینک ٹینکس کے مطابق جیپ، آزاد،
الیکشن کمیشن اور عدالتی دباؤ کے باوجو داگلی حکومت 2013سے کچھ خاص مختلف
نہ ہوگی۔ کے پی میں پی ٹی آئی کچھ ملے جلے رجحان کے ساتھ کولیشن حکومت
بنائے گی۔سندھ کچھ سیٹوں کی کمی کیساتھ اندرون سندھ ، ایم کیوایم کچھ سیٹوں
کی کمی کیساتھ کراچی اور بلوچستان میں مولانا فضل الرحمان ایک بڑ ی پارٹی
کے طور پرسامنے آئیں گے۔ جبکہ پنجاب میں ووٹوں کی کمی ضرور ہوگی اور کچھ
سیٹیں بھی پی ٹی آئی کے حصے میں آئیں گی مگر حکومت مسلم لیگ ن ہی بنائے گی
اوراگر اسلام آباد میں کوئی بڑا اپ سیٹ نہ ہواتو لگتا یہی ہے کہ مسلم لیگ
دو سیٹیں نکال لے گی اور حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔
|