پاکستان میں الیکشن ڈیوٹی

 پاکستان میں عام انتخابات ۲۵جولائی۲۰۱۸؁ء کی آمد آمد ہے۔ اس موقع کی مناسبت سے پاکستان میں الیکشن ڈیوٹی کے متعلق کچھ باتیں قارئین سے شیئر کرنا دل کا غبار ہلکا کرنے کے مترادف ہو گا۔ میں نے انیس سو نوے کی دھائی سے لے کر اب تک ہر قومی الیکشن میں ڈیوٹی دی ہے جن میں سے پہلے الیکشن کے علاوہ باقی سب میں پریزائیڈنگ آفیسر کے طور پر ڈیوٹی کی ، اس لئے میرے جذبات و احساسات و تجربات زیادہ تر پریزائیڈنگ آفیسر کے حوالے سے ہوں گے اگرچہ باقی عملے کی باتیں بھی چلتی رہیں گی۔ریٹرننگ آفیسر یا اس کے عملے کا مجھے براہِ راست تجربہ نہیں ہے لیکن خیال پھر بھی یہی ہے کہ ان کے لئے بھی الیکشن کی ڈیوٹی سر درد سے کم نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ مضمون ایک مرد انہ عملے اور ان کے پریزائیڈنگ آفیسر کے لحاظ سے لکھا گیا ہے، خواتین عملے اور ان کی خاتون پریزائیڈنگ کے جذبات کی اس میں عکاسی تقریباً نہیں کی گئی لیکن ان کی پریشانیوں کو بیان کردہ پریشانیوں سے دس گنا زیادہ کر کے محسوس ضرور کیا جا سکتا ہے۔

ٹیچنگ سروس میں اور غالباً ہر سروس کے لحاظ سے سب سے ’ٹف‘ ڈیوٹی الیکشن کی ڈیوٹی سمجھی اور کہی جاتی ہے۔ زیادہ تر یہ ڈیوٹی ٹیچروں سے لی جاتی ہے اس لئے ان سے سنی گئی باتیں اور جذبات زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ میں نے آج تک کسی ملازم کو اس ڈیوٹی پر خوشی کا اظہار کرتے نہ سنا ہے اور نہ دیکھا ہے۔ تقریباً تمام عملہ اس ڈیوٹی کو ایک آزمائش سمجھ کے ادا کرتا ہے۔ اگر چہ اس ڈیوٹی کو عذاب تو نہیں کہا جا سکتا لیکن اس کی ٹینشن، پریشانی اور صعوبت عذاب نما ضرور کہی جا سکتی ہے۔ میں نے بڑے بڑے دلیر پروفیسروں کو اس ڈیوٹی سے پناہ مانگتے دیکھا ہے، لیکن یہ ڈیوٹی ایسی ہے کہ جتنی مرضی پناہ مانگ لی جائے یہ آ کے رہتی ہے اور خوب ستاتی ہے اور پہلے سے محسوس ہو نے والی پریشانی پر مہر تصدیق ثبت کر دیتی ہے۔ انسان ایک بار پھر اپنے کردہ اور نہ کردہ گناہوں کی معافی مانگتا ہے اور اس ڈیوٹی کے بخیرو عافیت پورا ہو جانے کی دعائیں ہر نماز کی ادائیگی کے ساتھ خود بخود اس کے دل سے نکلتی ہیں۔ اکثر لوگوں کا دل رقت میں آ جاتا ہے اور پہلے سے موجود سختی اور سفاکی بغیر کسی وجہ کے رفو چکر ہو جاتی ہے۔ میرا ایمان جیسا خیال ہے کہ اس ڈیوٹی کی ادائیگی کے صلے میں آخرت میں گناہوں کی معافی میں آسانی ضرور ہو گی۔

بہت ہی کم جو دیکھنے میں آئے شوقیہ فنکار جن کو الیکشن ڈیوٹی پسند تھی، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ڈیوٹی کو ڈیوٹی کی طرح پرفارم نہیں کرنا ہوتا، اکثر نے اپنے حصے کا کام بھی دوسرے عملے سے کروانا ہوتا ہے۔ مثلاً الیکشن سے ایک دن پہلے سامان لینااور الیکشن سے پہلی رات الیکشن سٹیشن پر گزارنا ،( جو کہ عملے کے لئے سب سے مشکل کام ہے اور جس سے ہر کسی کی جان جاتی ہے) وغیرہ۔ ہر شخص الیکشن سے پہلی رات اپنے گھر پر گزرانے کو ترجیح دیتا ہے۔ اور اگر ایسا کر نا ممکن ہو تو وہ ضرور ایسا کر بھی لیتا ہے۔ لیکن گھر سے دور جانے کی صورت میں اس کے لئے گھر سے باہر رات گزارنی فرض ہو جاتی ہے اور یہ چیز بہت ناگوار گزرتی ہے، اس سے زیادہ مشکل ایک شریف انسان کے لئے شاید قبر کی رات ہی ہو، ورنہ کوئی رات اس رات سے زیادہ مشکل اور پریشان کن نہیں ہوتی۔ دور دراز کے گاؤں یا بستی وغیرہ میں ڈیوٹی آ جانے کی صورت میں یہ رات زیادہ تر عملے اور پریزائیڈنگ کا ’ رتجگہ‘ ہی بن جاتی ہے۔ بار بار آنکھ کھلتی ہے، موبائل یا گھڑی پر نظر پڑتی ہے کہ کیا بجا ہے۔ صبح کی لیٹ کا احساس ، آنکھوں کو اُلو کی آنکھوں کی طرح بند ہی نہیں ہونے دیتا۔ اور پھر پولنگ اسٹیشن کے آس پاس سے رات کو گاڑیاں اتنی تیز رفتاری سے گشت کرتی ہیں جیسے ان کی کوئی ریس لگی ہوئی ہے۔ گاڑیوں کا یہ شور بھی شعوری اور لا شعوری طورانڈر پریشر ہوتا ہے اور اسے یوں لگتا ہے جیسے وہ کوئی مفرور مجرم ہے اور یہ تیز رفتار گاڑیاں اس کا تعاقب کر رہی ہیں ۔

بندہ پریشان اور خوف زدہ ہو تو حالات کی اجنبیت اس کے خوف میں اضافہ کرتی ہے لیکن اگر وہ خوش وخرم اور بلا خوف ہو تو ماحول کی اجنبیت اس کے لطف میں اضافہ کرتی ہے جیسے کہ کسی وزٹ پر جانا۔ اس رات عملے میں سے سب سے زیادہ جس کی جان کو یا جان پے بنی ہوتی ہے وہ نام نہاد مجسٹریٹ درجہ اول پریزائیڈنگ آفسر حاحب ہو تے ہیں جس کی ساری طاقت کا دارو مدار ایک ڈنڈے ،موٹی توند اور بھاری آواز والا سپاہی ہوتا ہے، جسے خود سب سے زیادہ تھکن ہوئی ہوتی ہے اور وہ پریزائیڈنگ سے پہلے ہی سب سے اچھی چارپائی اور سب سے زیادہ مناسب پوزیشن پر قابض ہو چکا ہوتا ہے اور جس کی باتوں اور عمل سے پریزائیڈنگ کے لئے نہ کوئی عزت اور نہ کوئی اپنائیت ہوتی ہے۔ وہ سب سے پہلے اپنی مجبوریوں اور مشکلات کی کتھا سنانا شروع کر دیتا ہے کہ وہ کہاں سے تشریف لایا ہے اور کتنے دنوں سے اس نے بالکل آرام نہیں کیا اور جس کو سارے عملے سے زیادہ بھوک بھی لگی ہوئی ہے اور سالن سے اچھی اچھی بوٹیاں بھی اسی نے نکال لینی ہوتی ہیں کیوں کہ وہ سب سے پہلے کھانا شروع کر دیتا ہے اور کھانا لانے والے مہمان نواز دیہاتیوں کو خود ہی کہہ دیتاہے کہ’ کھانا پہلے اس کی طرف لائیں‘۔ اگر کبھی یہ سپاہی دو جانے ہوں تو تب بھی ان کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپس میں سب سے زیادہ باتیں کرنا ، غیر مرئی چوروں ، جو کسی طرح سے سامان چوری کر سکتے ہوں، کو گالیاں نکالنا اور کھانے پینے پے ہاتھ صاف کرنا اس کا معمول ہوتا ہے۔ یہ ایک ڈنڈے والا سپاہی اگلے دن اس سے بھی زیادہ پریشان کن ثابت ہوتا ہے۔ یہ سپاہی اگلے دن ہر اہم موقع پر اصل جگہ سے کہیں دور ہی پایا جاتا ہے، مثلاً اگر کہیں کوئی لڑائی جھگڑا ہو تو بجائے لوگوں کو منتشر کرنے کے وہ خود منتشر ہو کر کسی سایہ دار جگہ پے جا کر کھڑا ہو جاتا ہے اور اگر بے بس پریزائیڈنگ اس کے پاس جا کر اسے اس لڑائی جھگڑے کو ختم کرنے کا کہے بھی تو وہ آگے سے جواب دیتا ہے ’ سر جی انہاں نوں لڑ لین دیو، ایہہ اک واری لڑ کے اپے ای ٹھنڈے ہو جاون گئے۔ ساڈے آکھیاں انہاں نئیں ہٹنا‘۔ پریزائیڈنگ بچارہ جھگڑنے والوں کی منتیں اور’ ترلے‘ کرتا ہے کہ خدا کے لئے مسئلے کو جانے دیں۔لیکن لوگوں کا تو جیسے مشغلہ ہی لڑائی جھگڑا ہوتا ہے: نہ ان کو تھکاوٹ ہوتی ہے اور نہ کوئی پریشانی۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی بہت اچھا پولیس مین ڈیوٹی پے آتا ہے اور اپنی پوری کوشش کرتا ہے کہ اپنا فرض ادا کرے ، لیکن ایسا کم کم ہی ہوتا ہے۔

اخلاقیات کی تمام بڑی بڑی باتیں الیکشن کے دن بالکل فضول، بے کار اور صرف اور صرف کتابی محسوس ہوتی ہیں جن کا عملی زندگی کے ساتھ دور دور تک کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ لڑائی جھگڑے کو بڑھتا دیکھ کر اگر پریزائیڈنگ کسی اعلیٰ افسر کو فون کر دے اور وہاں سے کوئی کمک آ جائے جیسے کہ پولیس کی کوئی گشتی ٹیم وغیرہ تو یہ سب لڑائی جھگڑا کرنے والے ’سورمے‘ بھاگ کھڑے ہوتے ہیں اور جو کچھ حوصلہ دکھاتے ہیں ان کو بھی یہ ٹیم سنبھال لیتی ہے اور ماحول میں ایک بار سکون آ جاتا ہے جیسے جولائی ، اگست کے حبس میں تیز ٹھنڈی ہوا چلنے سے طبیعت سکون پا جاتی ہے۔لیکن افسوس یہ پر سکون ماحول چند منٹ سے زیادہ نہیں ہوتا کیوں کہ پولیس آفیسر کو کال پے کال آ رہی ہوتی ہے کہ فلاں پولنگ اسٹیشن پر مسئلہ خراب ہو گیا یا مسئلہ بن گیا ، جلدی پہنچیں۔ الیکش کے دن مسئلہ خراب ہونا یا مسئلہ بننا ایک ہی معنی میں لیا جاتا ہے۔ اور وہ جلد ہی یہ تسلی دے کر کہ اگر ان لوگوں نے دوبارہ تنگ کیا تو آپ اسی نمبر پر فون کر دیجیئے گا پریزائیڈنگ سے اجازت مانگتا ہے جب کہ مصیبت زدہ پریزائیڈنگ یہ چاہتا ہوتا ہے کہ یہ ٹیم پولنگ کے اختتام تک اسی کے اسٹیشن پر رکے لیکن ان کے پاس وقت نہیں ہوتا ان کی ذمہ واری پورے علاقے کی ہوتی ہے ، اس لئے وہ چلے جاتے ہیں اور بے چارہ پریزائیڈنگ ایک بار پھر سے بے چارگی کی تصویر بن جاتا ہے۔

تقریباً ہر پولنگ اسٹیشن پر دن میں دو زسے زیادہ مرتبہ ’ پھڑ لو! پھڑ لو ‘ یعنی لڑائی جھگڑے کی کیفیت ضرور ہو جاتی ہے لوگ ایک دورے کے گلے پڑتے ہیں اور بڑی مشکل سے ان کو ایک دوسرے سے دور کیا جاتا ہے۔ ان کو پرانی دشمنیاں اور لاگت بازیاں بھی اس دن پہلے سے زیادہ یاد آ جاتی ہیں اور وہ ایک دوسرے کا ماضی بھی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ دیہاتی لوگ الیکشن کے دن شہری لوگوں سے زیادہ جذباتی ہوتے ہیں اگرچہ شہروں میں بھی لڑائیوں کے واقعات ہو جاتے ہیں۔

اگر کسی پڑھے لکھے شخص کو بد دعا دینی ہو تو اسے کسی گاؤں میں کمبائنڈ یعنی مخلوط پولنگ اسٹیشن کا پریزائیڈنگ لگنے کی دعا دی جا سکتی ہے۔مخلوط پولنگ اسٹیشن جہنم کے عذابوں میں سے ہے اگر یقین نہ آئے تو ایک دو بار اس اسٹیشن کے پریزائیڈنگ کی ڈیوٹی کر کے دیکھیں آپ کی رائے شاید میری رائے سے بھی زیادہ شدید ہو جائے اور آپ اسے ’ہاویہ‘ اور ’حامیہ‘ جیسے نام بھی دینے کے لئے تیار ہو جائیں۔ (اﷲ معاف کرے یہ صرف باتوں کی حد تک ہے۔) یہ پولنگ اسٹیشن پریزائیڈنگ کو جتنا کھپاتا ، تھکاتا اور بھگاتا ہے اتنا اس کی بیوی نے بھی ساری عمر نہیں کھپایا، تھکایا اور بھگایا ہو تا۔ عورتوں اور خاص طور پر دیہاتی عورتوں سے نمٹنا مشکل ہی نہیں نا ممکن اور محال ہے وہ کسی پڑھے لکھے بابو کو کسی خاطر میں نہیں لاتیں۔ان کو جتنا مرضی سمجھاؤ وہ اپنی مرضی کر کے ہی رہتی ہیں ایک تو وہ ہوتی بیچاری اان پڑھ ہیں، دوسرا ان کو وٹ کاسٹ کرنے کا طریقہ نہیں آتا وہ اپنی کسی قریبی تعلق دارسے کچھ مدد لینا چاہتی ہیں تا کہ ووٹ خراب نہ ہو جائے۔ بس اسی بات سے شور شرابابرپا ہو جاتا ہے اور مخالف پارٹی کو قانون کی دھجیاں بکھرتی نظر آنے لگتیں ہیں۔ ووٹ اور الیکشن کی حرمت پامال ہو جاتی ہے اور ایک کہرام بپا ہو جاتا ہے، جس میں پریزائیڈنگ کی کوئی بات کسی طرح کی اہمیت نہیں رکھتی کیوں کہ اس کی کوئی سنتا ہی نہیں۔ لوگ ایک دوسرے پر سیدھی سیدھی چڑھائی کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات کوئی نابینا، اپاہج یا ضعیف شخص لایا جاتا ہے اور اس کی ہلپ کے لئے کسی کو اس کے ساتھ بیلٹ پیپر پر مہر لگانے کے لئے اس کے ساتھ بھیج دیا جائے تو پھر سے ماحول میں خود کش دھماکہ ہو جاتا ہے۔بعض اوقات کسی خاتون کا ووٹ کاسٹ ہونے میں رکاوٹ آ جاتی ہے کہ اس کا ووٹ کوئی اور پہلے ڈال چکا ہوتا ہے اس پر فریقین میں شدید غم وغصہ آ جاتا ہے اور پریزائیڈنگ کے لئے مسئلہ بن جاتا ہے۔

عورتیں جو کہ عملے کے ساتھ ڈیوٹی پے ہوتی ہیں ان سے بھی کام میں اتنی سرعت نہیں آتی جتنی کہ آنی چاہیئے اور ان کے ’بوتھوں ‘پے رش لگ جاتا ہے اس بات کا بھی نوٹس لیا جاتا ہے اور پریزائیڈنگ کو شکایت کی جاتی ہے کہ اپنے عملے کو کام جلدی نمٹانے کا کہیں لیکن بیچارہ یا بیچاری پریزائیڈنگ کسی کی منت کئے بغیر کر بھی کیا سکتا یا سکتی ہے۔ وہ ایک، دو بار عملے کو کام میں تیزی اور احتیاط لانے کا کہہ بھی دیتا ہے لیکن رفتار ویسی کی ویسی ہی رہتی ہے کیوں کہ کام کی ادا ہی کچھ ایسی ہے کہ تیزی اس کے لئے نقصان دہ بھی ہے اور ہوتی بھی نہیں۔

پولنگ کے دن ایک دو مواقع اطمینان اور سکون کے جھونکوں کی طرح آتے ہیں ۔ میرا مطلب فریقین میں سے کسی طرف سے کھانے یا چائے وغیرہ کا آنا۔ اس دن پریزائیڈنگ پر خاص طور پے اور باقی عملے پر عام طور پے اتنا دباؤ ہوتا ہے کہ اپنے گھر کا کھانے حلق سے نیچے اتر ہی نہیں سکتا ۔ یہ تو مفت کو مال ہوتا ہے جو قاضی جیسے پارساؤں کو بھی حلال ہوتا ہے یا مالِ مفت پے دل بے رحم ہوجااتا ہے تو کچھ لقمے حلق سے نیچے اتر جاتے ہیں ورنہ حلق اتنا خشک اور ذہن اتنا پریشان ہوتا ہے کہ کھانا، کھانا تو درکنار، چائے بھی نوش کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اور سارا دھیان ووٹروں اور کام کی طرف ہوتا ہے۔ صبح کا نشتہ، درمیان کی چائے اور پھر دوپہر کا لنچ اور اس کے بعد کی چائے بس یہ کھانے اور پینے زیادہ میسر آتے ہیں اگر کسی عملے نے گاؤں میں رات گزارنی ہو( یعنی الیکشن کے دن سے پہلی رات) تو اسے رات کا کھانا اور اس کے بعد کی چائے بھی میسر آتی ہے۔ ووٹینگ کے مکمل ہو جانے کے ساتھ ہی مہمان نوازی بھی مکمل ہو جاتی ہے اب عملہ کسی کا کچھ نہیں لگتا اور اسے کوئی نہیں پوچھتا کہ کچھ چاہیئے تو نہیں، اب وہ سراپا اپنی مدد آپ کے ضابطے کا پابند ہوتا ہے، اسے الیکشن کی گاڑی کانتظار کرنا ہے تو کرے یا اگر اپنے انتظام ہے اور خود ہی جانا ہے تو جائے اب اسے کسی کی طرف سے چائے کے کپ کی بھی توقع رکھ کے مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔

خدا نخواستہ اگر رزلٹ پے بھی مسئلہ بن جائے تو عملے کو پولیس کا انظار کسی بند کمرے میں کرنا پڑتا ہے اور اپنی جان بچانا ان کی اپنی ذمہ واری ہوتی ہے۔

رزلٹ کا تمام لبِ لباب اس بات میں ہوتا ہے کہ کس امیدوار نے کتنے ووٹ لئے ہیں باقی سب باتیں ثانوی ہو جاتی ہیں۔ امیدواروں کے ایجنٹ اور سپورٹرز ، امیدواروں کے ووٹوں کی گنتی کے اعلان کے بعد عملے اور انتخابی عمل میں دلچسپی کم کر لیتے ہیں، لیکن عملے اور خاص طور پر پریزائیڈنگ نے ابھی کافی ذمہ داریاں انجام دینی ہوتی ہیں۔ جن میں سے سب سے بڑی ذمہ داری رزلٹ ریٹرننگ آفیسر کے دفتر میں جمع کروانا ہوتی ہے۔ یہ کام اکثر پریزائیڈنگ کو تنِ تنہا ہی کرنا پڑتا ہے کیوں کہ اس کے اکثر ساتھی اپنے پیسے لے کر نو دو گیارہ ہو چکے ہوتے ہیں۔

پریزائیڈنگ کے ساتھ بعض اوقات ایک یا دو لوگ ہی رہ جاتے ہیں اور بعض اوقات وہ بھی نہیں ہوتے۔ ریٹرننگ آفیسر کے دفتر میں اکثر بھیڑ لگی ہوتی ہے۔ پریزائیڈنگ خواتین و حضرات محاذ سے لوٹ آئے ہوتے ہیں۔ ان پر سارے دن کی پریشانیوں اور تھکاوٹوں نے اپنے واضح نشان ثبت کئے ہوتے ہیں۔ اور وہ جتنی جلدی ہو سکے رزلٹ جمع کروا کے گھروں کو لوٹ جانا چاہتے ہیں ،لیکن تقریباً نوے فیصد لوگوں کی بیلنس شیٹیں دوبارہ سے درست ہوتی ہیں۔ یہاں امیدواروں کو پڑنے والے ووٹوں کی تعداد میں تو کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی لیکن ووٹوں کی تعداد کے بیلنس میں حسابی کمی بیشی رہ گئی ہوتی ہے اسے دوبارہ سے درست کروایا جاتا ہے اور بعض اوقات اکیلے بیچارے پریزائیڈنگ کو وہ بڑا تھیلا جس میں انتخاب کا سارا سامان ہوتا ہے پھر سے کھول کر اپنے ووٹوں کا بیلنس سیٹ کرنا پڑتا ہے جو کہ انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس کام میں پریزائیڈنگ کی صحیح معنوں میں ’مت ماری جاتی ہے۔‘ ۔سننے میں آیا تھا کہ پچھلے سے پچھلے انتخاب میں ایک پریزائیڈنگ کو عدالت کے اندر اسی کام کے دوران د ل کا دورہ بھی پڑ گیا تھا اور اس کی ڈیتھ ہو گئی تھی۔یہ کام پریزائیڈنگ کے ساتھ کم از کم ایک اور ساتھی عملے کی ذمہ داری ہونے چاہیئے جو کہ اس بار لگائی گئی ہے۔ یہ بات ذہن نشیں رہے کہ اس کام کا رزلٹ پے کسی طرح کا کوئی اثر نہیں ہوتا یہ صرف اور صرف بیلنس کا مسئلہ ہوتا ہے جسے حسابی طور پے درست ہونا ضروری ہوتا ہے۔

انتخابی سامان لیتے وقت اور واپس کرتے وقت بہت زیادہ پریشانی اور دھکم پیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہماری سوسائٹی میں ابھی تعلیم اور سلیقہ بالکل نہ آیا ہو۔ یہاں کسی کو کوئی سمجھ نہیں آتی کہ کوئی کام کیسے کرنا ہے۔ عدالتیں عام طور پر عملے اور پریزائیڈنگ کو صبح ۹بجے بلا لیتی ہیں اور عدالتوں سے خوف زدہ لوگ حکم کی تعمیل بھی کرتے ہیں لیکن سامان ان کو شام ہی کو ملتا ہے اور پھر وہ رات کے دس ، گیارہ بجے جا کے اپنے پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچتے ہیں اور باقی معاملات نمٹاتے ہیں۔ اس دن کی تھکاوٹ عملے اور پریزائیڈنگ کو بلا وجہ ہی دی جاتی ہے۔ سامان کی ترسیل اور واپسی کا نظام بدلنا چاہیئے، اٹھارہ ،اٹھارہ ، انیس، انیس گریڈ کے افسروں(اکثر محکمہ تعلیم کے کسی اور محکمے کے نہیں) نے ڈبے اور تھیلے اٹھائے ہوتے ہیں اور مزدورں اور قلیوں کی طرح چل رہے ہوتے ہیں۔

ہمیں اپنے عملے کو عزت دینی چایئے، ان کے کھانے کا انتظام الیکشن کمیشن خود کرے، عملے کو پانی کے گھنونٹ کے لئے بھی مقامی لوگوں کا احسان مند ہونا پڑتا ہے۔ کھانا بھینجے والے سفارشیں بھی بھیج دیتے ہیں ، ان کی بات نہ ماننا اور پھر انہیں کو کسی مجبوری کی صورت میں گزارش کرنا متضاد رویئے ہیں جن کا ایک شریف آدمی یعنی پریزائیڈنگ کے لئے اپنانا مشکل ہو تا ہے۔ فوجی جوانوں کا کھانا ان کے محکمے کی طرف سے آ سکتا ہے تو انتخابی عملے کو کیوں لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے کھانے کے پیسے ان کو دیئے جاتے ہیں ، لیکن بات یہ ہے کہ پیسے کھائے نہیں جا سکتے اور انتخابی عمل کے دوران کھانا ارینج بھی نہیں کیا جا سکتا یہ ذمہ داری بھی الیکشن کمیشن کو اپنے سر لینی چاہیئے۔ سامان کی ترسیل بھی پولنگ اسٹیشن پر الیکشن کمیشن ہی کرے اور ، استادوں اور استانیوں کو سامان نہ اٹھوائے ، وہ قوم کے معمار ہیں اور ان کا مقام فوج کے مقام سے بھی زیادہ ہے بلکہ ہر محکمے کے لوگوں سے زیادہ ہے کیوں کہ ہر اٖفسر کسی نہ کسی استاد کا شاگرد ہوتا ہے یا مجموعی طور پر تمام معاشرہ اور ملک استاد کا شاگرد ہے اور الیکشن میں وہی استاد معاشرے اور ملک کا ’گدھا‘ بنا ہوتا ہے استاد چوں کہ شریف طبقہ ہیں اس لئے وہ یہ انسلٹ بھی برداشت کر لیتے ہیں ۔

الیکشن کے عمل میں فوج کی شمولیت اور معاونت اس عمل کے پر امن ہونے کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ جس الیکشن میں فوج نہ لی جائے اس میں لڑائی اور جھگڑوں سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ اور جس الیکشن میں فوج لی جائے اس کا امن برقرار رہتا ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ ہر الیکشن میں فوج شامل کی جائے ہر پولنگ اسٹیشن حساس ہوتا ہے یا ہو جاتا ہے۔

پولنگ کا عملہ غیر سرکاری عوام سے بھی بھرتی کیا جانا چاہیئے۔ ایسے بے شمار بے روز گار نوجوان موجود ہیں جو یہ کام بڑی خوبی سے سر انجام دے سکتے ہیں ان پر اعتماد کیا جائے اور کام کی نگرانی کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ بے روزگار نوجوان الیکشن کے عملے کے طور پر کام نہ کریں۔ الیکشن کی ڈیوٹی کسی بھی شخص چاہے وہ آدمی ہو چاہے عورت اس کی رضامندی کے بغیر نہ لگائی جائے ۔ اکثر لوگ یہ ڈیوٹی مجبوری سے کرتے ہیں کیوں کہ اس کو اتنا مشکل اور پریشان کن بنا دیا جاتا ہے کہ ہر شخص یہ ڈیوٹی کرتے ہوئے گھبراتا ہے۔ اگر اس میں امن و امان کو یقینی بنایا جائے جو کہ فوج کی شمولیت کے بغیر ناممکن ہے، اس کا معاوضہ بڑھایا جائے تا کہ لوگوں کو ترغیب ملے اور کام کی نوعیت میں آسانی پیدا کی جائے تو ہر شخص یہ ڈیوٹی خوشی سے کرنے کو تیار ہو جائے گا ۔
ہم اس سلسلے میں چند ایک مذید تجاویز بھی دینا چاہیں گے۔
۱۔ الیکشن کے امیدواروں کی تعلیم ایم اے سے کم نہ ہو ۔
۲۔ ووٹ ڈالنے والے کی تعلیم میٹرک سے کم نہ ہو۔
۳۔ ووٹ ڈالنے کا حق صرف بیس سے ساٹھ سال کی عمر کے لوگوں کو ہو ۔
۴۔ ووٹنگ کا دورانیہ ایک دن ہو لیکن نمازیں پڑھنے اور کھانا کھانے کا وقفہ ہو ۔
۵۔ کسی بھی پولنگ اسٹیشن پرکل ووٹوں کی تعداد پانچ سو سے زیادہ نہ ہو۔
۶۔ کمبائنڈ یا مخلوط پولنگ اسٹیشن نہ بنائے جائیں۔
۷۔ پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی پولنگ اسٹیشن کے اندر سے ختم کر دی جائے۔
۸۔ تمام عمل سی سی ٹی وی کیمروں میں ریکارڈ کیا جائے ۔
۹۔ ووٹ لوگوں کو گھروں میں فراہم کئے جائیں اور وہ مہریں گھروں سے لگاکر لائیں اور اپنا نام فہرست سے کٹوا کر ووٹ ڈبے میں ڈال جائیں۔
۱۰۔ جس طرح آ ج کل انٹر نیٹ اور موبائل کی سہولت موجود کا اس کا استعمال الیکشن میں بھی کر لیا جائے اور اس عمل کو آسان بنایا جائے۔
۱۱۔ الیکشن سارے ملک میں ایک ہی دن کروانے کی بجائے چھوٹے سے بڑے صوبے کی طرف الیکشن مختلف دنوں میں کروائے جائیں اور آ خری دن تک رزلٹ مخفی رکھے جائیں۔
۱۲۔ کسی ریٹرننگ آفیسر کے پاس تیس سے زیادہ پولنگ اسٹیشن نہ ہوں تا کہ ہر کام خوش اسلوبی اور وقار سے کیا جا سکے نہ کہ منڈی کے مناظر عدالتوں میں نظر آئیں۔
۱۳۔ ہر فہرست حروفِ تہجی کی ترتیب سے ترتیب دی جائے تا کہ کسی کو کسی نام کی تلاش میں مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
۱۴۔ رزلٹ جمع کروانے کے لئے پریزائیڈنگ آفیسر ، ریٹرننگ آفیسر کے پاس نہ جائے بلکہ ریٹرننگ آفیسر کا نمائندہ پریزائیڈنگ آفیسر کے اسٹیشن آ کر رزلٹ وصول کر کے لے جائے۔
۱۵۔ انتخابی سامان وصول کرنے کے لئے الیکشن کمیشن کا ٹرک جو سامان لایا ہو وہی سامان لے جائے۔

اس طرح کی کئی ایک اصلاحات قابلِ عمل بھی ہیں اور آرام دہ بھی۔ اگرچہ اعلیٰ افسران کو اس سے اتفاق نہیں ہو گا کیوں کہ انہوں نے کبھی عملے اور پریزائیڈنگ کے طور پے کام ہی نہیں کیا ہو گا۔ اس لئے ان کو ان پریشانیوں کا ادراک نہیں ہو گا۔ جو شخص بھی الیکشن کمیشن کا چیئر مین بنے اس کے لئے زندگی میں کم از کم تین الیکشنوں میں پریزائیڈنگ آ فیسر کے طور پے ڈیوٹی کرنے کا تجربہ ہو نا چاہیئے تا کہ گراوٗنڈ لیول کی مشکلات اور پریشانیوں کا صحیح ادراک ہو سکے۔ ان تجاویز میں بظاہر تضاد کا پہلو نکل سکتا ہے لیکن ان تجاویز کا مقصد یہ ہے کہ ان کو اگرچہ مجموعی طور پر اختیار کرنا ناممکن ہے لیکن جو بھی ماحول ہو اور جو بھی تجویز قابلِ عمل ہو سکتی ہو اس پر عمل کر کے بہتری اور آسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 284409 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More