ماسی شیداں معاشرے کا وہ حقیقی کردار ہے جس سے کسی صورت
بھی انکار ممکن نہیں ،اس کی عمر تخلیق کائنات جتنی ہے اپنے رہن سہن اور
لباس سے جتنی سادہ ہے حقیقت میں بالکل اس کے برعکس ہے معاملہ فہم،موقع
پرست،عیارومکار،زمانہ شناس سمیت کئی صفات کی مالک ہے ۔
سب جانتے ہیں مگر اس کے باوجود ماسی شیداں سے قطع تعلق نہیں ہوسکتے کیونکہ
اس کی نظر چاچی بشیراں کے گھر بننے والے پکوڑوں سے لیکر صدر پاکستان تک
ہوتی ہے اس لیے ماسی شیداں کی ہر خبر معتبر ہوتی ہے۔ماسی شیداں جو کہ مسلم
لیگ(ن)کی پکی ووٹر ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سپورٹرتبدیلی کی خواہشمند
ہے اس لیے تحریک انصاف کے لیے بہت نرم گوشہ رکھتی ہے ،بریانی کی شوقین ہونے
کی وجہ سے آج تک کسی سیاسی دعوت سے انکار نہیں کر پائی اس کا کہنا ہے
’’پہلے پیٹ پوجا فیر کام دوجا ‘‘ ماسی شیداں کے مطابق نواز شریف کی لندن ہی
میں ڈیل ہوچکی ہے اور دوسری بات کہ نوازشریف کی واپسی تو لازم تھی اپیل جو
دائر کرنی تھی اب رہی بات کہ چھوٹے میاں ایئر پورٹ کیوں نہیں پہنچ پائے تو
سچ تو یہ ہے کہ چھوٹے میاں نے ایئر پورٹ تو جانا ہی نہیں تھا بلکہ دودن
پہلے ہونے والی خصوصی مینٹنگ میں یہ بات طے ہوگئی تھی کہ صرف شور مچایا
جائے گا اور چور بھاگ جائے گا اور اس طرح یہ ظاہر کیا جائے گا کہ ہمیں آگے
جانے نہیں دیا گیا اصل میں چھوٹے میاں اور انکے صاحبزادے اب یہ فیصلہ کرچکے
ہیں کہ اب بڑے میاں کوسیاست سے نکال دیا جائے ’’گھر کا بھیدی لنکا ڈائے‘‘یہ
عوام کو پاگل بنایا جارہا ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن)کو اب اپنی پوزیشن صاف نظر
آرہی ہے کہ اب ’’نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں‘‘
اندر کی بات ہے بہت جلد نوازشریف اپنی بیٹی اور داماد سمیت بری ہو جائیں گے
کیونکہ یہ اس ملک کا قانون ہے کہ روٹی کے چور کو پھانسی چڑھادو اور ملک چور
کو ہیروبنادو۔ماسی شیداں کے مطابق NA-125جوکہ بڑے میاں کا ذاتی حلقہ ہے
یہاں سے جو مسلم لیگ کے امیدوار وحید عالم خان اور میاں مرغوب ہیں وہ ابھی
تک اپنے حلقے کے دورے پر نہیں آئے اور نہ ہی ڈور ٹوڈورآکر اپنی عوام سے آکر
ملے ہیں ۔اس سلسلہ میں جب کسی کارکن نے حمزہ شہباز سے بات کی تو جواب ملا
یہ ٹکٹ بڑے میاں اور بی بی مریم نے اپنی مرضی سے دئیے ہیں اس لیے یہ جیتیں
یا ہاریں ہمیں کوئی غرض یا پرواہ نہیں ۔سابقہ ایم پی اے ماجد ظہور حمزہ
شہباز کا خاص الخاص آدمی تھا اس نے حمزہ شہباز کی خوب خدمت کی اور اجر ء
میں اسے بڑا کچھ ملا ہے عنقریب ماجد ظہور اپنی فیملی سمیت امریکہ شفٹ ہورہا
ہے۔سوچنے والی بات ہے کہ ایک مزدور کے بیٹے کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی
پھر سوچتی ہوں اگر حسن،حسین نواز بچپن میں مزدوری کرکے کروڑوں کے مالک
ہوسکتے ہیں تو انکا ووکر بھی طلسماتی کرشمے رکھتا ہوگا۔پنجاب میں پاکستان
پیپلز پارٹی کی پوزیشن نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے پی پی پی کے امیدوار
اتنی تگ ودو بھی نہیں کر رہے کیونکہ انکو علم ہے کہ ہارنے پر کون سازرداری
نے پیسے واپس کردینے ہیں بلاول خوب جیالوں کا لہو گرما رہے ہیں وہی گھسے
پٹے لارے ،دعویٰ روٹی کپڑا اور مکان بھٹو زندہ ہے ۔بھٹو مرا کب تھا ؟مری تو
عوام ہے۔جن کے پاس پینے کا صاف پانی نہیں ،ایک وقت کی کھانے کو روٹی نہیں ،سر
پر چھت نہیں تھرپاکر اور چولستان کے اندر افلاس کا ننگا ناچ ہو رہا ہے اور
ادھر بھٹو کل بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے ۔یہ سرمایہ
دارانہ،جاگیردارانہ نظام کا پہلااصول ہے کہ پہلے عوام کو بھوک دو شدید بھوک
اور پھر روٹی کا ایک ٹکڑا پھینک کر ان کے مسیحا،خدا بن جاؤں مجھے تو لوگوں
کی جہالت پر افسوس ہوتا ہے جس طرح سگریٹ کی ڈبی پر لکھا ہوتا ہے یہ کینسر
کا سبب بنتی ہے مگر پینے والا اسے فراموش کر دیتا ہے بالکل اسی طر ح ہماری
اندھی عوام کو علم ہونے کے باوجود ان مٹھی بھر لوگوں سے خود کو آزاد نہیں
کرواتے اگر تیونس،فرانس اور ایران کی باہمت نہتی عوام ہمارے جیسی ہوتی تو
وہاں کبھی بھی انقلاب نہ آتا ۔ماسی شیداں کہتی ہے کہ تحریک انصاف کی تو بات
ہی نہ کرو پتہ نہیں ان کے لیڈر کو عین الیکشن کے وقت کیوں عشق یاد آجاتا ہے
۔نیاپاکستان بناتے بناتے نیاشوہر بن جاتا ہے ہمیں اس کی شادی کرنے پر
اعتراض نہیں مگر بحالت جنگ میں تلواریں چھوڑ کر مُصلّے خرید لینا دانشمندی
نہیں ہوتی ۔عمران خان شادی کرتے ہی سولہ سال لڑکے بن کر اپنی ساریاں
کمزوریاں اپنی زوجات پر ظاہر کردیتے ہیں جس کے بعدازاں مضر اثرات پوری
تحریک پر پڑتے ہیں ۔ریحام خان نے جو کتاب لکھی ہے سب کو علم ہے کہ اس نے
نہیں لکھی بلکہ ایک ضمیر فروش صحافی نے دس کروڑ میں اس بے حیائی کو فروغ
دیا ہے اور زعیم قادری کے بقول یہ پیسے چھوٹے میاں نے اپنا فرض سمجھ کر ادا
کیے ہیں ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ ریحام خان کو اس کتاب کو لکھنے کی آخر ضرورت
کیوں پیش آئی ؟ماسی شیداں کی نظر بہت دور تک جاتی یعنی ماسی نے ابھی ابھی
نئے امریکن لینز ڈالوائے ہیں ۔ماسی نے کھیر کی دوسری پلیٹ صاف کرتے ہوئے
بتایا کہ پاکستان کے اندر ایک ایسی سیاسی جماعت نے دبنگ انٹری ماری ہے کہ
ساری موروثی سیاسی جماعتوں کی ہوا نکل گئی ہے اور اس جماعت کی تشہیر انڈین
میڈیا کر رہا ہے ۔مجھے علم تھا مگر اس سے قبل میں کچھ پوچھتی ماسی شیداں
خود ہی بولنے لگی کہ اس جماعت کا نام ملی مسلم لیگ ہے اور یہ حافظ سعید
صاحب کی سیاسی جماعت ہے جس کو الیکشن کمیشن نے بلا کسی قانونی عذر کے
رجسٹرڈ نہیں کیا اور سرگوشی میں کہا کہ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ امریکا کا
حکم ہوگا کیونکہ حافظ محمد سعید وہ واحد انسان ہیں جن سے اس وقت پورا عالم
کفر خوف زدہ ہے اور بھارت اور امریکہ کی تو رات کی نیندیں تک اڑی ہوئی ہیں
۔ملی مسلم لیگ کی حمایت یافتہ جماعت تحریک اﷲ اکبر ہے جس نے پورے ملک میں
170کے قریب قومی وصوبائی امیدوار( خواتین سمیت )کھڑے کیے ہیں ۔اور پاکستان
کی سیاست کے اندر ہلچل پیدا کردی ہے ۔اس جماعت نے ہندوؤں کی زبانوں پر اﷲ
اکبر اﷲ اکبر کے نعرے تک لگوادئیے ہیں ۔پاکستان میں حافظ محمد سعید اور
انکی جماعت پر ہر طرح کی پابندیاں عائد ہیں یہاں تک کہ یہ لوگ دعوت کا کام
جوکہ ان کامشن ہے نہیں کرسکتے حتیٰ کے فلاح انسانیت کا کام بھی نہیں کرسکتے
۔انکی ایمبولینسز تک بند کردی گئیں ہیں انکے اثاثے تک منجمد کر دیئے گئے
ہیں مگر یہ ناعاقبت اندیشن حکمران یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ اس طرح اﷲ کے دین
کا کام رک جائے گا تو یہ غلط سوچ ہے، اﷲ تعالیٰ جب اپنے دین کا کام لیتا ہے
تو وہ ابابیلوں سے ہاتھیوں کو مروادیتاہے۔ماسی شیداں ملکی ،قومی ،معاشی ،معاشرتی
،سیاسی اور مذہبی امور پرگھنٹوں باتیں کرنے پرخاصاًعبور رکھتی ہے۔حلوہ ،کھیر،سویاں
اور ہر قسم کا گوشت انکی مرغوب غذاؤں میں شامل ہوتے ہیں ککھ کم وی نہیں مگر
یہ فارغ بھی نہیں ۔
مصروفیات کے باوجود ماسی شیداں صبح نو بجے گھر سے نکلتی ہیں اور آخری کھانا
رات دس بجے کے بعد گھر واپس لوٹتی ہیں ۔ماسی شیداں کی اگلی مخبریوں کے ساتھ
پھر حاضر ہوتے ہیں تب تک اﷲ حافظ۔۔۔۔ |