خدمت کو ووٹ دیں

تحریر:اسامہ فاروق ، جہانیاں
بہت کم لوگ ہوتے ہیں وہ جن کو اﷲ نے بیک وقت بہت سی خصوصیات اور صلاحیتوں سے سے نوازا ہوتا ہے اور وہ اپنی ان خداداد صلاحیتوں کا بروقت اور موقع کے مطابق استعمال کرکے فائدہ اٹھاتے ہیں اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ ساری دنیا ان کی صلاحیتوں اور حکمت عملی کو داد دینے پہ مجبورہوتی ہے۔ پاکستان میں بھی ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں۔ جماعۃ الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے۔ پہلے ایک استاد ، پھر عالم دین پھر مجاہد اور اب ایک سیاستدان ہیں۔ وہ تمام خوبیاں جو ایک لیڈر میں ہونی چاہئیں وہ ان میں موجود ہیں اور یہ خوبیاں ان میں باہر سے نہیں آئیں نہ ہی وہ کسی بیکن ہاوس یا بلوم فیلڈ سے پڑھ کر نکلے تھے اور نہ ہی وہ کسی شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں کہ ان کو گھر پہ کسی شہزادے کی طرح پالا گیا ہو اور ان کے لئے کوئی استاد یا مربی گھر پہ ان کو تعلیم دینے پہ مامور کیا گیا ہو۔وہ بھی ہماری طرح عام سے اسکول سے پڑھے تھے۔ عام بچوں کی طرح تھے۔

بھارت سے ان کو نفرت کیوں ہے، اس کی ایک خاص وجہ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایک تو وہ لوگ مہاجر ہیں دوسرا جب وہ غالبا آٹھویں یا نویں کلاس میں تھے تب پاک بھارت 1965کی جنگ لگی تھی اور حافظ محمد سعید اپنے امتحانات دے کر اسکول سے فارغ تھے سو انہوں نے اپنے گاؤں کے لڑکوں اور دوستوں کے ساتھ مل کر ایک ڈنڈا بردار فورس بنائی تھی اور پورے علاقے کی خبر رکھتے تھے کہ اگر کہیں بھی ہماری پاک فضائیہ کے شاہین انڈین ائیرفورس کے جنگی طیارے گرائے تو ہم وہاں پہنچ کر اس تباہ شدہ جہاز پہ ڈنڈے برسا کے اپنا غصہ ٹھنڈا کرسکیں۔اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد سعودی عرب چلے گئے اور وہاں انکی ملاقات شیخ ابن باز رحمتہ اﷲ سے ہوئی ان کے کام سے بہت متاثر ہوئے اور واپس آکر مرکز الدعوہ والارشاد کے نام سے ایک تنظیم بنائی جو کہ خالص دین اسلام کی دعوت کا کام کرتی تھی۔

اس طرح یہ قافلہ چلتا رہا اسی دوران ان پر بہت سے مشکل مراحل بھی آئے۔ان کی جماعت کو پابندیوں کے دور سے بھی گزرنا پڑا،یہ خود بہت مرتبہ نظر بند رہے۔مگر نہ کبھی حکومت کے خلاف کوئی بیان آیا نہ ہی اداروں کے خلاف اور نہ ہی کبھی اک لفظ زبان سے نکالا بلکہ اپنے کارکنان کو ہمیشہ صبر کی تلقین کرتے رہے اور یہ بات میں بغیر کسی لالچ کے بلکل غیرجانبدار یو کہ کر کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں گزشتہ پچاس دہائیوں سے ایسا کوئی لیڈر نہیں گزرا ہوگا جس کی جماعت اور وہ خود نظر بندیوں اور پابندیوں کے دور سے گزرا ہو اور اس نے اپنے کارکنان کو مکمل پرامن رہنے کی تاکید کی ہو بلکہ جس بھی سیاسی رہنما پہ مشکل وقت آیا اس کے کارکنان نے ہمیشہ باہر نکل کر ملکی امن کو خراب کیا ہے ،اپنے ہی ہم وطنوں کا جلاو گھیراو کیا ہے۔مگر سلام ہے ایسیرہنما پہ جس نے اگر بیرونی جگہ گیری اور بیرونی دباو کے خلاف بھی لانگ مارچ کیا ہے تو اس نے ہمیشہ اپنے کارکنان کو کہا کہ دیکھنا کہیں ہمارے مارچ کے دوران اس ملک کے کسی بھی درخت سے ایک پتہ بھی نہ ٹوٹے۔۔۔ہے کوئی ایسا حکمران؟ہے کوئی ایسا سیاستدان ؟جو ایسی حب الوطنی کی مثال پیش کرسکے۔۔۔۔

آگے آئیے جب یہ خود گھر پہ نظر بند تھے اور ان کے اداروں پہ حکومت وقت قبضے کررہی تھی اس وقت بھی انہوں نے اپنے کارکنان کو پرامن رہنے کو کہا اور اور یہ عظیم الفاظ کہے کہ ہمارے لئے ہماری جماعت اہم نہیں بلکہ ہمارے لیے ہمارا پاکستان اہم ہے ہم نے پرامن رہنا ہے اور صرف اپنے وطن کے لئے کام کرنا ہے۔اپنی نظر بندیوں کے خاتمے لئے بھی انہوں نے لاکھوں لوگوں کا جلوس نکالنے کی بجائے قانونی جنگ لڑنے کو ترجیح دی اور ملکی عدالتوں نے ان کو ہر قسم کی دہشتگردی اور انتہا پسندی سے بری الذمہ قراردیا۔یہ تھا تیس سالہ سفر جس کے میں نے بہت ہی مختصر سے واقعات بتائے ہیں۔

اب انہوں نے سیاست میں قدم رکھا تو بہت ہی سوچ سمجھ کے ساتھ اور ان کا منشور کیا ہے کہ ’’ہماری سیاست خدمت انسانیت‘‘اور عالمی میڈیا اس بات کا گواہ ہے کہ باقی جماعتیں سیاست میں آنے کے بعد خدمت کا دعوی کرتی ہیں جبکہ حافظ محمد سعید اور ان کی جماعت نے سیاست میں آنے سے قبل ہی لوگوں کی بہت خدمت کی ہے۔کوئی قدرت آفت ہو،کوئی آگ لگ جائے،سیلاب ہو زلزلہ ہو،کوئی بھی مسئلہ ہو ان کیرضاکار وہاں پہنچے ہوتے ہیں اور بلا امتیاز لوگوں کی خدمت کررہے ہوتے ہیں۔

سیاست میں آکر بھی انہوں نے اپنے کارکنان کو یہی سمجھایا کہ ہمارے لئے ہماری سیاست یا اقتدار ہم نہیں ہے بلکہ ہم سیاست میں آئے ہی اسی لئے ہیں کہ ہر انسان تک اسلام کی تبلیغ اور نظریہ پاکستان کی دعوت پہنچ سکے۔اب جس لیڈر میں سب سے بڑی خوبی یہ ہوکہ پاکستان،نظریہ پاکستان اور دعوت اسلام جس کے نزدیک سب سے اہم ہو میں اس کو ووٹ کیوں نہ دوں۔۔۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1024204 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.