جیسے جیسے انسان ترقی کی منازل طے کر رہا ہے وہ نئے نئے
اور جدید سے جدید طریقے اپناتا چلا جا رہا ہے جدت کے ساتھ ساتھ نئی نئی
ایجادات ہو رہی ہیں سوشل میڈیا بھی ایک ایسی ہی ایجاد ہے جس نے پوری دنیا
کو ایک پیج پر اکھٹا کر دیا ہے اسی لئے اسے گلوبل ویلج کا نام دیا گیا ہے
آج کل پاکستان میں الیکشن کا موسم ہے اور ہر کوئی الیکشن ہی کی بات کر رہا
ہے سوشل میڈیا پر بھی طرح طرح کی پوسٹ دیکھنے کو مل رہی ہیں اگر دیکھا جائے
تو تمام جماعتیں سوشل میڈیا پر محترک نظر آتی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ سوشل
میڈیا کے انتخابات پر کتنا اثر پڑے گا نوجوان طبقہ اپنی اپنی جماعت کی بھر
پور کمپین چلا رہے ہیں لیکن کہیں کہیں ذاتیات اور اخلاقیات سے گری پوسٹیں
بھی دیکھنے کو ملتی ہیں ہمیں سوشل میڈیا کا استعمال ضرور کرنا چاہیئے لیکن
اخلاقیات کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ ہر طبقہ اور ہر عمر کے افراد
سوشل میڈیا سے جڑے ہوئے ہیں ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ہمیں ان کا
خیال بھی رکھنا ہے ہمیں ایسی پوسٹ لگانے کی ضرورت ہے جس میں پارٹی کے منشور
کے مطابق کام کیا گیا ہو ابھی حال ہی میں ایک گدھے کی پوسٹ وائرل ہوئی جس
پر ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کا نام لکھ کر اس پر تشدد کیا گیا یہ انتہائی
افسوس ناک اورجہالت کی بات ہے ایک باشعور معاشرے میں ایسا سوچا بھی نہیں جا
سکتا کہ آپ کسی جانور کو مارپیٹ کر کے لہولہان کر دیں خدارا ایسی حرکات سے
باز رہیں،احتجاج کرنے کے اور کئی طریقے ہیں جنہیں آپ اپنا کر احتجاج کر
سکتے ہیں کسی کو بھی براہ راست نشانہ نہ بنائیں مثبت سوچ کے ساتھ مثبت پوسٹ
لگائیں اسی طرح ایسی پوسٹوں کو بھی نہ لگائیں جو نوجوانوں کو مشتعل کرتی
ہوں اس میں کچھ غیر ملکی افراد بھی شامل ہو سکتے ہیں اس لئے سیکورٹی اداروں
کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر بھی کڑی نظر رکھیں تا کہ شر پسند
افراد پر نظر رکھی جائے اگر کوئی اس میں ملوث ہو تو اسے قرار واقعی سزا دی
جا سکے۔
ہر پارٹی سربراہ کا ٹویٹ اکاؤنٹ موجود ہے وہ اس کے ذریعے اپنے منشور کی
وضاحت کر سکتے ہیں کوشش کریں کہ ایک دوسرے پر کیچڑ نہ اچھالا جائے بلکہ
مثبت ٹویٹ کیا جائے تا کہ نوجوانوں میں کھلبھلی نہ مچے اور انتخابات پر
سکون ہوں ہم سب کو اپنے اداروں کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے تا کہ کوئی
بھی دشمن اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکے ترقی یافتہ ممالک امریکہ
اور برطانیہ میں بھی سوشل میڈیا کا بھر پور استعمال کیا جاتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ
اور ہیلری کلنٹن نے بھی سوشل میڈیا پر کافی ڈالرز خرچ کئے تھے آج کے دور
میں سوشل میڈیا ہرایک کی پہنچ میں ہے سوشل میڈیا کی مقبولیت کا آپ اندازہ
یوں بھی لگا سکتے ہیں کہ اب جو خبر ٹی وی پر آتی ہے وہ سوشل میڈیا پر پہلے
وائرل ہو جاتی ہے اب لوگوں کا رحجان انٹر نیٹ پر ہی ای پیپرز ،کالمزاور
بلاگز پڑھنے میں صرف ہوتا ہے یعنی اب ہر قسم کا مشورہ ،ہر کاروبار کی
تفصیلات اور کئی سائنسی معلومات کے علاوہ نصابی کتب و رسائل بھی سوشل میڈیا
پر بآسانی دستیاب ہیں ۔
انتخابات کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کئی جعلی ویڈیوز ،تصاویر اور رپورٹس
جھوٹ کا پلندہ بھی ہوتی ہیں آپ فوراً ان پر یقین نہ کریں بلکہ اس کی یقین
دھانی ضرور کر لیں ایسے افراد کو شرم آنی چاہیئے جو دھوکے پر مبنی ایسی
پوسٹوں کا استعمال کرتے ہیں ان میں ایسی پوسٹیں بھی لگائی جاتی ہیں جو
انتشار کا باعث بنتی ہیں ہم سب کو ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ہمارے
سیکورٹی ادارے بھی ان پر نظر رکھے ہوئے ہیں تا کہ کوئی شرپسند اپنے مقصد
میں کامیاب نہ ہو سکے اسی طرح انتخابات کے حوالے سے سوشل میڈیا پر نازیبا
الفاظ اور گالی گلوچ سے پرہیز کریں کیونکہ یہ بھی اخلاقیات سے گری حرکات
میں شامل ہے مجھے امید ہے کہ تمام نوجوان سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کریں
گے اور ملک و قوم کے استحکام ،یکجہتی اور مظبوط جمہوریت کے فروغ کے لئے
اپنا مثبت کردار ادا کریں گے ہمیں اپنے نوجوانوں سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں
اور ہمیں اپنے نوجوانوں پر فخر ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے نوجوانوں سے کم
نہیں ہیں ہر شعبے میں وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں ۔ |