خواب برابری کا اور سیٹیں؟

ووٹر۔۔ وہ چیونٹی جس کے انتخابات کے موسم میں پَر نکل آتے ہیں اور پھر یہ چیونٹی کسی ہاتھی کی موت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔عوام کو بے وقوف سمجھنے والے کب تک اپنی طاقت کے زعم میں رہیں گے۔الیکشن کی گہماگہمی عروج پر ہے۔۔۔ لیکن ٹھہریے،گہماگہمی صرف ان کے لیے جنھیں کسی حملے کا خطرہ نہیں۔ باقی تو وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو پچھلے پانچ سال میں حکومت کا حصہ رہی ہیں یا یوں کہیے کہ حکومت گھسیٹتی رہی ہیں، اب ان کے پاس بڑے بڑے ڈیکس کے ذریعے پارٹی کے نغمات ’’دور دور تک پہنچانے‘‘، رنگ برنگی لائٹیں جگمگانے اور جگہ جگہ اپنے پرچم لہرانے کے سوا الیکشن کی کوئی گہماگہمی نہیں۔

جلسے جلوسوں پر حملوں کا خطرہ ہے، سیکیورٹی خدشات کے باعث جان پر بنی ہوئی ہے، چنانچہ بلند ترین آہنگ میں انتخابی نغمات کی ریکارڈنگ کے ذریعے انتخابی کیمپوں کے قریب آباد لوگوں کی جان پر بنا دی جاتی ہے۔ چاہے اس شور اور دھمک سے کسی دل کے مریض کے دل کا جانا ٹھہرجائے، مگر دل بہلاتی اس گہماگہمی کا نظر آنا ضروری ہے۔

اخباروں کے صفحات پلٹیے، ٹی وی کے چینل بدلیے یا سوشل میڈیا میں جھانک آئیں، ہر سو انتخابات کا شور ہے، وعدوں کا زور ہے۔ سیاسی جماعتوں کے وعدوں سے بھرے منشور ملک کی نصف آبادی یعنی عورتوں کو بھی اچھے دنوں اور صنفی مساوات کے سپنے دکھا رہے ہیں، مگر ان کی تعبیر ان جماعتوں کے نامزد امیدواروں میں خواتین کی تعداد دیکھ کر سامنے آجاتی ہے۔الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق سیاسی جماعتیں مجموعی انتخابی نشستوں میں سے 5 فیصد نشستوں پر خواتین امیدواروں کو ٹکٹ دینے کی پابند ہیں.اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے خواتین امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے البتہ 58 سیاسی جماعتیں اب بھی ایسی ہیں جنہوں نے کسی خاتون کو ٹکٹ نہیں دیا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایوانوں میں اگر خواتین کی نشستیں بڑھ بھی جائیں گی، تو اس کاکوئی فائدہ عام عورت کو بھی ہو گا؟ کچھ نہیں! اس کے حقوق پہلے بھی پامال کیے جاتے رہے اور اب بھی پامال کیے جا رہے ہیں۔سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین جب گھر میں آرام کر کے تھک جاتی ہیں تو ان کا سیاست میں کودنے کا جی چاہتا ہے اور اس کے لیے تو بہرحال اسمبلیوں میں عورتوں کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہونا ضروری ہے۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی ارکان کی فہرست پر ایک نظر ڈالیے، آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ چند ایک مثالوں کو چھوڑکر تمام نشستوں پر سیاسی گھرانوں کی بیبیاں براجمان ہیں۔اب بھی خواتین نشستوں پر بھی گنے چنے سیاسی خاندانوں کے گھر کی خواتین مسلط ہوں گی اور ایک عام عورت کو ایوان میں آنے کا راستہ نہیں دیا جائے گا۔ ایسی صورت میں وہ اپنے مسائل کیسے حل کرے گی، جو اس جیسی اور عام عورتوں کو درپیش ہیں۔

یوں تو پاکستان کی ساری ہی سیاسی جماعتیں خواتین کے حقوق کی چیمپیئن بنتی ہیں، لیکن انتخابات میں عام نشستوں پر خواتین کو لڑانے کا مرحلہ آتا ہے تو ان کے دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2002 کے الیکشن کے بعد عام نشستوں کے لیے بطور پارٹی امیدوار مقابلہ کرنے والی خواتین کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ میں ٹی وی چینلز بدلتی گئی اور سیاست دانوں کے بھانت بھانت کے دعوے کانوں میں پڑتے گئے۔انتخابی فہرست کے مطابق 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ 59 لاکھ 55 ہزار 409 ہے جن میں 44 فیصد خواتین ہیں۔

ایک صاحب، جو اردو پر مکمل عبور دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں، کچھ یوں پریس کانفرنس میں اظہار خیال کررہے تھے، ’’ہمارا انتخابی نعرہ انتخابات سب کے لیے ہے۔ پارلیمنٹ میں خواتین کی نمایندگی پچاس فیصد کی جائے گی۔‘‘ دل تو چاہا کہ چیخ کر کہوں کہ اگر ایسا ہی ہے تو آپ نے صرف 18 خواتین کو پارٹی ٹکٹ کیوں دیا؟ مگر افسوس میری آواز ان تک نہیں پہنچ سکتی تھی، ہاں تحریر ضرور پہنچ سکتی ہے۔

دوسرے چینل پر انصاف کے نعرے لگانے والوں کی آواز آئی، ’’ہمارے منشور کی بنیاد انصاف، امن اور خوش حالی ہے۔‘‘ اے انصاف کی بولی بولنے والو! تم نے 769 جنرل نشستوں پر 42 خواتین کو ٹکٹ دیا ہے۔ یہ تو انصاف کا چوتھائی حصہ بھی نہ ہوا۔

ایک اور سیاست داں صنعت و تجارت کے شعبے پر خاص توجہ دینے اور ملازمت کے تیس لاکھ سے زاید مواقعے فراہم کرنے کی بات کر رہے تھے، مگر انھوں نے خواتین کی نمایندگی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ان کی جماعت نے صرف 37 جنرل نشستوں پر خواتین کو ٹکٹ جاری کرنے کے لائق سمجھا ہے۔دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام عورتوں کو سب سے زیادہ حقوق دیتا ہے، لیکن پاکستان کے بڑے مذہنی اتحاد کے دھڑے نے33 جنرل نشستوں پر خواتین کو ٹکٹ جاری کیے۔

عام انتخابات میں خواتین پر اعتماد کا عالم یہ ہے کہ2013کے انتخابات میں 272 نشستوں والی قومی اسمبلی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں نے مجموعی طور پر36 خواتین کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ 2008 کے الیکشن میں 34 جب کہ 2002 کے انتخابات میں 38 خواتین کو ٹکٹ دیے گئے تھے۔

خواتین کی پارلیمنٹ میں نمایندگی کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں 52 ویں نمبر پر ہے۔ ترقی پذیر ملک ہونے کے باوجود یہ نمایندگی دوسرے مسلم ممالک سے زیادہ ہے۔ مگر یہ نمایندگی مخصوص نشستوں کی بنیاد پر ہے، نہ کہ براہ راست انتخاب میں خواتین کی کام یابی کے باعث۔ اور یہ مخصوص نشستیں سیاسی خانوادوں کی خواتین کے لیے مختص سمجھی جاتی ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق خاتون امیدواروں میں فردوس عاشق اعوان،ڈاکٹر یاسمین اراشد،غلام بی بی بھروانہ،سائرہ افضل تارڈ،شیزرا منصب علی خان،تہمینہ دولتانہ،ثمینہ خالد گھر کی،فریال تالپور اور عاصمہ ارباب عالمگیر اپنے اپنے حلقوں میں مضبوط امیدوار ہیں۔

پاکستان کے مخصوص معاشرے میں درپیش مشکلات کے باوجود خواتین جس طرح اپنی ذمے داریاں اور اپنا سماجی کردار احسن طریقے سے ادا کر رہی ہیں، وہ ہمارے جیسے سماج کے حامل دیگر ممالک کی عورتوں کے لیے ایک مثال ہے۔ آج کی پاکستانی عورت گھر سے لے کر تعلیم کے میدان اور سیاست کے ایوانوں تک اپنے فرائض بخوبی نبھا رہی ہے۔ اس کے باوجود اہل سیاست عملاً خواتین کی صلاحیتوں اور سماجی و سیاسی کردار کے اعتراف سے گریزاں ہیں۔

محترمہ فاطمہ جناح ہوں یا بے نظیر بھٹو، ان کی سیاسی بصیرت اور جرأت سے کسے انکار ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں تو یہ روایت رہی ہے کہ کسی جماعت پر مشکل وقت پڑتا ہے تو خواتین ہی آگے بڑھ کر جدوجہد اور قربانی کی تاریخ رقم کرتی ہیں۔ پارٹی لیڈر کے ایک اشارے پر خاتون کارکنان سڑکوں پر نکل آتی ہیں۔ مگر سیاسی جماعتوں سے وابستہ خواتین نے کیا کبھی اس بات پر احتجاج کیا ہے کہ پارٹی ٹکٹ تقسیم صنفی امتیاز کے بغیر برابری کی بنیاد پر کیوں نہیں کی جاتی؟ یا کم از کم معقول تعداد میں خواتین کو امیدوار نامزد کیوں نہیں کیا جاتا؟

2013 کے عام انتخابات کے بعد 342 رکنی قومی اسمبلی میں 60 خواتین مخصوص نشست پر ایوان میں پہنچیں جبکہ صرف 9 خواتین جنرل نشست پر الیکشن جیت کر پارلیمنٹ تک پہنچنے میں کامیاب رہیں جو کہ ایوان کی کُل نشستوں کا صرف 3.3 فیصد ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق مسلم لیگ ن نے 37 جنرل نشستوں پر خواتین کو ٹکٹ جاری کیے ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے کل 769 جنرل نشستوں پر 42 خواتین کو دیے ہیں۔ تحریک لبیک پاکستان نے 35، متحدہ مجلس عمل نے 33 جنرل نشستوں پر خواتین کو ٹکٹ جاری کیے۔

پاک سر زمین پارٹی نے 12، ایم کیو ایم پاکستان نے 6، آل پاکستان مسلم لیگ نے 8، پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے 18، عوامی نیشنل پارٹی نے 14، مسلم لیگ ق نے 5، بلوچستان نیشنل پارٹی نے 3 اور بی این پی عوامی نے 2 جنرل نشستوں پر خواتین کو ٹکٹ دیے ہیں۔

سیاسی جماعتوں میں شامل وہ تمام خواتین جو اپنی اپنی جماعت میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں، اپنی جماعت میں خواتین کو نظرانداز کرنے پر آواز کیوں نہیں اٹھاتیں؟ ان کی ذرا سی کوشش اور احتجاج ان کی جماعتوں میں خواتین کا مقام تبدیل کرسکتا ہے۔ یہ سارا منظر دل دکھانے والاہے، مگر میں مایوس نہیں، کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ اس ملک میں تبدیلی کا وقت آچکا ہے۔ جو کبھی نہ ہوا وہ انشاء اﷲ اگلے پانچ سال میں ضرور ہوگا۔ جب صرف باتوں سے خواتین کے حقوق کی چیمپیئن شپ جیتی نہ جاسکے گی، بلکہ نامزد امیدواروں کی فہرست میں ’’محترمہ، آنسہ اور مِس‘‘ کے لاحقے والے ناموں کی نمایاں تعداد ہی بتائے گی کہ کون سی جماعت عورتوں کے حقوق کو تسلیم کرتی ہے۔

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 282102 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.