13جولائی سے پہلے نواز شر یف مجرم قرار پا چکا تھا ،
مطعون کرنے والے اس اندھی ’’ میڈیا وار ‘‘ میں اس پر اتنا گند اچھال چکے
تھے کہ شاید اب مزید کی گنجائش اور ’’ ضرورت‘‘ بھی نہیں تھی ،وہ ملزم سے
مجرم بننے سے کا عمل اپنی موجودگی میں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے کا
خواہش مند تھا لیکن اسکی پہلی بہت سی درخواستوں کی طرح یہ والی درخواست بھی
رد کر دی گئی تھی ، مجھے یاد نہیں پڑتا جب سے جے آئی ٹی بنی اور پھر احتساب
عدالت میں مقدمہ چلا اسکی کوئی درخواست منظور کی گئی ہو ، سزا ہوئی تو بیوی
زندگی اورموت کی کشمکش میں مبتلا تھی ، وہ محض بیوی نہیں نواز شریف کی
رفیقہ ء حیات ہے ، عورت کو رفیقہ ء حیات کا درجہ دینے اورکسی کومحض بیوی
بنا کر چھوڑ دینے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ، یہ فرق جوانی میں ’’پلے
بوائے‘‘ کاامیج رکھنے والے لوگ نہیں سمجھ سکتے ، نواز شریف کی سزا ہزار گنا
بڑھ گئی جب اسے اپنی اہلیہ کو اس حالت میں چھوڑ کر آنے کا فیصلہ کرنا پڑا ،
میڈیا وار کے کرتا دھرتاؤں نے زور لگانا شروع کیا وہ نہیں آئے گا ، وہ بھاگ
گیا ہے مگر پچھلے بہت سے مواقع کی طرح اس بار بھی اس نے سخت اور بڑا فیصلہ
کیا ، اﷲ توفیق دے تو انسان بڑے فیصلے ہی کرتا ہے ، وہ پاک ذات توفیق اور
راہنمائی نہ دے تو چیونٹی کے سامنے بھی بزدلی دکھاتا ہے ، مشکلات اور مصائب
نے نواز شریف کو اور بھی مضبوط بنا دیا ہے ، اس شخص کا اﷲ پہ توکل دیکھیں
کہ اہلیہ زندگی اور موت کے درمیان ساکت پڑی ہے ، بیٹی ساتھ جیل جا رہی ہے
لیکن اسکاحوصلہ نہیں ٹوٹ رہا ، ایسے شخص کو کون شکست دے سکتا ہے ، سو اس نے
کہی ہوئی بات پہ پہرہ دیا ، لوگ فلائیٹ کینسل ہونے ، ابوظہبی سے واپسی یا
وہیں رک جانے کی بے پر کی اڑاتے رہے ، مگر وہ آگیا ،پاکستان میں اسکی آمد
سے پہلے پکڑ دھکڑ اور ریاستی دہشت گردی کی وہ مشق دوہرائی گئی جو کم ظرف،
بزدل اورعقل سے پیدل آمروں نے اپنے اپنے ادوار میں عوام کے ساتھ روا رکھی
تھی ، ٹی وی کو زنجیروں میں جکڑ لیا گیا،انٹرنیٹ کے سگنلز غائب اور لاہور
میں موبائل سروس بند کردی گئی ، یہ سارے انتظامات اس لئے کئے گئے کہ اس دن
کااستقبال عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا جاسکے، پولیس جیسی غنڈہ فورس جو
عوام پر پل پڑنے کو ویسے بھی ہر وقت تیار رہتی ہے ، اسے احکامات مل چکے تھے
کہ ن لیگ کے کارکنوں کوکسی بھی صورت لاہور ایئرپور ٹ نہیں پہنچنے دینا،، تب
میں نے گوجرانوالہ سے روانہ ہونے والے سٹی صدرحاجی عبدالرؤف مغل کی قیادت
میں روانہ ہونے والے قافلے کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا ، ضلعی جنرل سیکرٹری
شازیہ سہیل میر جومردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہوئی کبھی عورت نہیں لگتیں
کی گاڑی میں روانہ ہوئے تو اس قافلے کوروانگی کے چند منٹ بعد ہی سیالکوٹ
روڈ پر سنٹرل جیل کے پاس ایک ایس ایچ او نے روکنے کی ناکام کوشش
کی،عبدالرؤف مغل نے پولیس کی بات سننے سے ہی انکار کردیا اورقافلے کو چلنے
کو کہا ،جوں جوں آگے بڑھے تو اندازہ ہوا کہ جگہ جگہ آمریت سیاسی کارکنوں کا
ایک بار پھر تمسخر اڑا رہی تھی اوراس دن نگران حکمران آمروں کے گماشتے بنے
ہوئے تھے،کامونکی ٹول پلازہ سے قافلہ گزرا تو پیچھے آنے والے روک لئے گئے ،رانا
مقصود احمد نے کال کر کے بتایا پولیس نے بہت روکامگر اس دن ن لیگی کارکنوں
کے جذبوں کی شدت اور حدت بھی آسمانوں کو چھو رہی تھی،کالاشاہ کاکو پہنچے تو
وہاں اور ہی منظر تھا ، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر خان کی قیادت میں ایک
بڑا قافلہ پہلے ہی پہنچ چکاتھا جسے پولیس کی جانب سے شدید شیلنگ کا سامنا
تھا ، اس کے باوجود خرم دستگیر ، حاجی عبدالرؤف مغل ،شازیہ سہیل میر، توفیق
بٹ ، حاجی نواز چوہان اور اشرف انصاری، ایم ایل اے چوہدری اسماعیل گجر ،
حاجی وقار چیمہ پولیس کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے اور انکا واپسی کا
کوئی ارادہ نہ تھا جبکہ ایک گاڑی میں کمر کی تکلیف میں مبتلا پیر غلام فرید
بھی موجود تھے،عبدالرؤف مغل پتھراؤ اور شیلنگ میں اپنی گاڑی لے کر آگے بڑھے
جس کے نتیجے میں انکی گاڑی کی ونڈ سکرین بھی ٹوٹ گئی ،درجنوں ایسی گاڑیاں
تھیں جو اس دن پتھراؤکا شکار ہوئیں ، معظم رؤف مغل قافلے میں آگے آگے تھے
اور گرنے والے آنسو گیس کے شیل پر پانی گراتے نظر آئے ، اس قافلے نے آنسو
گیس کی شیلنگ کے لئے کوئی انتظامات نہ کئے تھے چنانچہ خرم دستگیر اور توفیق
بٹ کے علاوہ درجنوں لیگی کارکن زخمی ہوئے، کئی ایک کے سر پھٹ گئے ،اس صورت
حال میں خرم دستگیر خان نے کارکنوں کو دوبارہ ایک مقام پر جمع ہونے کی
ہدایت کی جہاں کارکن اکھٹے ہونے کے بعد ایک بار پھر پیش قدمی کے لئے آگے
بڑھے اور بالآخر پولیس کو پسپا کرنے کے بعد ایک بڑے کنٹینر کو ہٹاکر آگے
بڑھے ، راوی پل پرپہلے سے تصادم جاری تھا ، وہاں ایک گھنٹے سے زائد کے
ٹاکرے کے بعد کارکنوں کو راستہ ملا اور پھر لاہور کی سڑکیں تھیں اور ن لیگ
کے کارکن جو شیر کے نعرے لگاتے انجانی منزل کی جانب بڑھ رہے تھے ، بعد میں
آنے والے بتاتے رہے کہ پومی بٹ اور عمران خالد بٹ کے قافلے کو بھی شدید
شیلنگ کا سامنا کرنا پڑا ہے ، چوہدر ی محمود بشیر ورک کارکنوں کے ہمراہ
داتادربار کے سامنے ملے ، ٹریفک جام میں سڑک پر ہی الیکشن کی صورت حال پر
تبادلہ ء خیال ہوتا رہا، وہاں عرفان چیمہ ، انجم سہیل بٹ اور دیگر ساتھی
بھی موجود تھے ،لاہور کی سڑکوں پر بہت ساوقت اسی طرح گزر گیا ،یہاں تک کہ
نواز شریف اور مریم نواز کی فلائیٹ اتر گئی اور انہیں گرفتار کر لیا گیا ،
افسوس ہوا کہ نواز شریف کے ذاتی معالج کو اسکی درخواست کے باوجود ساتھ نہیں
لے جایا گیا ، مصدقہ اطلاعات ہیں کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے 3بار
کے وزیر اعظم کو پہلی رات چارپائی بھی نہیں ملی ، زمین پر بچھانے والے روئی
کے گدے میں سے پیشاب کی بدبو اسقدر رچی ہوئی تھی کہ نواز شریف نے بیٹھ کر
ہی رات بیتائی ، جیل کا سیل بھی شاید بند رہنے کی وجہ سے انتہائی بدبودار
ہو چکا ہے ، یہ جیل تو سی کلاس کے قابل بھی نہیں ہے ، نوازشریف ، مریم اور
صفدر کو ایک دوسرے سے ملاقات کی اجازت نہیں ،سو ذہنی اذیت دینے کے یہ حربے
عروج پر ہیں، دو ورز قبل خواتین ونگ کی عہدیداران نے اظہار یکجہتی کے لئے
اڈیالہ جیل جانے کا فیصلہ کیا ، شازیہ سہیل میر بہن کا اصرار تھا کہ میں
بھی انکے ساتھ چلوں ، اڈیالہ جیل کے باہر کے مناظر انتہائی افسوسناک تھے
جہاں پولیس افسرنے گلدستے زمین پر ہی رکھ دینے کاحکم صادر کردیا،خواتین نے
اس پراحتجاج کیا تو سڑک پر لگے ایک بیریئر کو لٹا کر اس پر گلدستے رکھ دینے
کو کہا گیا ،کسی کو ملاقات کی اجازت نہ ملی ، یہ سب قانون کی حکمرانی کے
نام پر ہو رہا ہے پتا نہیں کس قانون کے تحت پاکستان میں منتخب حکومتیں
الٹائی جاتی رہی ہیں اور وزیر اعظم ان جیلوں میں بند کر دیئے جاتے ہیں جہاں
شاید دہشت گردوں کو بھی بند نہیں کیا جاتا ، نواز شریف اور انکی بیٹی اس
سلوک کی ہرگز مستحق نہیں ، 25جولائی آن پہنچا ہے ، کہانی ابھی باقی ہے عوام
کافیصلہ بتائے گا انکا ردعمل کیا ہے ۔ |