اکثر سننے کوملتا ہے کہ ہم نظریاتی ہیں مگر جناب نظریات
تو ان لوگوں میں پائے جاتے ہیں جو باضمیر ہوں،حالات کی نزاکت کو سمجھتے اور
اس پر مکمل عبور رکھتے ہوں،لیکن کہاں نظریات اور کہاں ہم جیسے لوگ۔۔ہم
چونکہ کہیں سے ٹھکرائے ہوئے ہوتے ہیں اس لئے نظریاتی کالیبل لگا کر کچھ نیا
کرنے کی سوچتے ہیں مگر یہاں ہم یہ یکسر بھول جاتے ہیں کہ نظریات کے ذومعنی
لفظ میں مفاد نہیں ہیں۔تاہم اسے مفاد میں ڈالنے کا فن ہم یقینا اچھے سے
سیکھ چکے ہیں اسلئے بے چارے نظریا ت کا لبادہ اوڑھ کر ہم دراصل اپنے مفادات
کی جنگ لڑرہے ہوتے ہیں یہ تو بھلا ہو لفظوں کی ،کہ یہ بے چارے بے جان ہیں
ورنہ تو کب کے ہماری اصلیت دنیا کے سامنے لاچکے ہوتے۔بہرحال ملک خداداد میں
چونکہ جمہوریت ہے اس لئے جمہو ر ہونے کے ناطے ہمیں بھی اپنی رائے کے اظہار
کا مکمل حق حاصل ہے،اور شاید یہی کچھ وجہ ہو ہمارے آج کے لکھنے کی۔تو
دوستوبات دراصل یہ ہے کہ آج کل مفادات کو نظریا ت کا نام دے
دیاگیاہے۔پاکستان وجود میں آتے ہی کئی ایسے لوگ دیکھنے کوملے جنہوں نے اپنے
مفادات کو نظریات کو نام دے کر عوام کو باالعموم جبکہ خود کوبالخصوص دھوکے
میں رکھا ۔حالات بدلتے گئے وقت گزرتا گیا۔سیاست میں صرف بڑے بزرگوں کو آگے
آگے دیکھا۔اور پھر اکیسویں صدی نے ملک خدادا د میں اپنے قدم جمائے۔آبادی
بڑھتی گئی،وسائل کم جبکہ مسائل زیادہ ہوتے گئے۔نوجوان نسل جسے پاکستان کی
تیسری نسل کے نام سے یاد کیا گیاجاتاہے بے روزگاری کی چکی میں بری طرح سے
پھنس چکی تھی۔ایسے میں انہیں شارٹ کٹ بھی چاہیے تھا اس لئے ایک بار پھر
نظریات کا چولہ لئے مفادات کی جنگ لڑنے اپنے ہی بڑوں کے مقابل میدان میں
آنکلے۔ابھی سفر ریخت باندھا ہی تھا،کہ وقت اور حالات نے تیسری نسل یعنی
نوجوانوں کو آمنے سامنے لاکھڑا کردیا۔آج 2018ہے،چند دنوں میں ملک کے پانچ
سالوں کا فیصلہ ہونے والاہے۔فیصلہ کس کے حق میں آئے گا۔اﷲ تعالیٰ کی ذات
بہتر جانے۔مگر تیسری نسل نے اپنی کشتیاں ان امیدوں سے طوفانوں ا ور بھنور
کی نذر کردی ہیں کہ انہیں روشن مستقبل میسر آئے گا۔انہیں معاشرہ وہی عزت
اورمقام دے گا جو ان کے بڑے بزرگوں کو حاصل ہے۔ایوانو ں کے مزے لوٹنے والا
طبقہ بڑے بزرگوں کی بجائے تیسری نسل کو سلام ٹھوکے گا۔ان کے لئے تیسری نسل
زیادہ کارآمد اور مفید ثابت ہوگی،ایسا ہمارے نوجوان سوچتے ہیں۔کیونکہ ا ن
کی اکثریت بے روزگار ہے ورنہ ایک سروے کے مطابق پاکستان کا پڑھا لکھا ،سمجھدار
اور برسرروزگار طبقہ کو سیاست اور نظریات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ان کے
نزدیک نارمل زندگی ہی اﷲ تعالیٰ کی انمول نعمت ہے،اگر اﷲ تعالیٰ کی جانب سے
انہیں زندگی کی چند خوشیاں نصیب ہوجائیں تو سمجھتے ہیں کہ جیسے دنیا ہی میں
جنت مل گئی۔بہرحال تیسری نسل میں بے روزگار اپنی تقدیر کو بدلنے کی اس کوشش
میں ہیں کہ شاید ہمارے مفادات اب کے پورے ہوجائیں ،انہیں نظریات کے لبادے
میں اپنا آپ ہرگز دکھائی نہیں دے رہا ورنہ تو کب کے اپنی قسمت خود بنانے کی
تگ ودو کرتے نظرآتے۔وہ شاید یہ سمجھنے لگے ہیں نظریات کا لبادہ یا چولہ
پہننا نہایت ہی آسان ہنر ہے تاہم ان باتوں کوبھول جانا کہ دراصل نظریات کسی
اور چڑیا کا نام ہے۔آج ان کے بڑے بزرگوں کا لگایا ہوا پودا کہیں تناور درخت
بن کر کسی کو چھاؤں دے رہا ہے لیکن کیا ان کا لگایا ہوا مفادات کا پودا
انہیں تپتی دھوپ اور تاریک مستقبل سے بچایا پائے گا۔ہرگز نہیں۔اس لئے تیسری
نسل یعنی نوجوانوں کو مفادات ترک کرکے نظریات کو اپناناہوگا۔یہ ضروری نہیں
کہ کسی جماعت سے وابستگی انہیں نظریاتی بناسکتی ہے بلکہ انسان اگر خود
باضمیر ہوتو نظریات خود باخود اس میں جنم لینا شروع کردیتے ہیں۔ہم خود کیا
ہیں ۔۔۔؟یہ حقیقت ہے۔ناکہ یہ کہنا فلاں فلاں کی بدولت حالات بدل جائیں گے
۔۔انتہائی قسم کی حماقت ہوگی۔شکریہ ۔ |