سید مزمل حسین نقشبندی
نائب سرپرست اعلیٰ:۔اسلامک رائٹرزموومنٹ پاکستان
چیف ایڈیٹر:۔ماہنامہ علوم ربانیہ لاہور
زمین حیات کا دارومدارپانی پر ہی ہے ،انسان کھائے بغیر طویل عرصہ تک زندہ
رہ سکتا ہے مگرپانی کے بغیراس کی حیات نہایت مختصر ہوگی ۔ یہی حال نباتات
ودیگر جانداروں کا ہے ۔ زمین کاتقریباًتین حصہ پانی اور ایک حصہ خشکی پر
مشتمل ہے ۔انسان وچرند کی خوراک کا دارومدار نباتات پر ہے جوکہ پانی ے بغیر
اپنا وجود برقرا رنہیں رکھ سکتے ۔اس طرح گوشت خور انسان ودرندے اپنی گوشت
کی خوراک چرندوں سے حاصل کرتے ہیں ، چرندے اپنی خوراک نباتات سے حاصل کرتے
ہیں ،الغرض ہر ایک کاایک سرکل(دائرہ)ہے۔
اسی طرح سمندری مخلوق بھی اپنی خوراک نباتات اور دیگر گوشت سے بنے چھوٹے
جانداروں سے حاصل کرتی ہے ،سانپ اور مچھلیاں وغیرہ اپنے ہم جنس کو ہی کھا
کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں ۔
آج پاکستانی سائنسدانوں کو پانی کا مسئلہ نظر آنے لگا ہے ،انڈیا پر الزام
لگایا جارہا ہے کہ وہ آبی جارحیت کرکے پاکستان کوبنجربنانا چاہتا ہے ۔ آئیے
غیر جانبدارانہ اس مسئلے کا جائزہ لیتے ہیں ۔پاکستان بنتے ہی دانشوروں ،محب
وطن پاکستانی انجینئرز اور پلانرز نے اس مسئلہ کی سنگینی کا احساس دلادیا
تھا ۔غیر ملکی ماہرین نے بھی پاکستان کی اس بے وقوفی کا احسا س دلایا تھا
کہ پاکستان اپنا قیمتی پانی سمندر میں پھینک دیتا ہے ،مگر ہم خواب خرگوش کی
طرح سوتے رہے ،جبکہ ہمارا دشمن مسلسل ہم پر نظر رکھے ہوئے تھا ،ہم نے اس کا
حل کالاباغ ڈیم کی صورت میں نکالا۔ اس پر کام ہوا ،ڈیزائننگ کی گئی ،مشینری
منگوا کر تعمیر شروع کردی گئی ۔ جب انڈیا نے دیکھا کہ اس ڈیم سے پاکستان کے
وارے نیارے ہوجائیں گے تو اس نے اپنے تنخواہ دار ایجنٹوں کو اشارہ کیا تو
وہ سب بیک زبان اس کی مخالفت میں بولنے لگے ،نتیجہ یہی نکلا کہ اس کی
تعمیررکوادی گئی ۔
حالانکہ یہ ایک ٹیکنیکل مسئلہ تھا اسے عوام میں لانے کی بجائے ٹیکنو کریٹس
کی میٹنگ میں ڈسکس کرنا چاہیے تھا ،نہ کہ بکے ہوئے سیاستدانوں کو بولنے کی
کھلی چھٹی دے دینی چاہئے ۔ماہرین نے پہاڑوں کے درمیان آئیڈیل جگہ اس منصوبے
کیلئے منتخب کی تھی کہ وہ قدرت کی طرف سے پاکستان کیلئے عطیہ تھی ۔کم خرچ
بالانشین موقعہ تھا ،مگر اس شاندار منصوبے کو التواء میں ڈال کر پاکستان کو
لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں میں دھکیل دیا گیا ،اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا
،مشینری کھلے آسمان تلے پڑی پڑی سکریپ میں تبدیل ہوگئی ۔اس دوران پاکستان
میں کئی طاقتور حکمران برسر اقتدار رہے ،مگر کالاباغ ڈیم نہ بن سکا ۔کئی نے
دعویٰ بھی کیا مگر اس بھاری پتھر کو چوم کررکھ دیا ۔
کچھ اہل ستم ،کچھ اہل ہشم میخانہ گرانے آئے تھے
دہلیزکو چوم کے چھوڑ گئے ،کہتے ہیں کہ پتھر بھاری ہے
قارئین محترم!ہمیں آج انڈیا کے جن ڈیمزپر اعتراض ہے ،کیاانہوں نے یہ
ڈیمزاچانک ایک ہی دن میں بنالئے ہیں...؟۔یاد رہے ان ڈیمزکو بنانے میں سب سے
زیادہ تعاون پاکستان نے ہی کیا ہے ۔کیا کوئی ڈیم سیمنٹ کے بغیر بن سکتا ہے
...؟،پاکستان سیمنٹ سٹیٹ کارپوریشن کے چیئرمین ظفر اقبال کا کہنا ہے کہ
بھارت ایک تولہ سیمنٹ بھی نہیں بناسکتا ،کیونکہ جس پتھر سے سیمنٹ تیار ہوتا
ہے اس کا ایک پہاڑ بھی بھارت میں نہیں ہے ،جبکہ یہ نعمت اﷲ تعالیٰ نے
پاکستان کو اتنی وافر مقدار میں عطا کی ہے کہ اگر پاکستان 200سال بھی ان
پہاڑوں سے سیمنٹ بناتارہے تو بھی یہ ختم نہ ہوں گے۔
بھارت کے تمام ڈیمز پاکستانی سیمنٹ سے تیارہوئے ہیں ،ہے نا مزیدار انکشاف....؟مزیدتڑکا
پاکستانی سیمنٹ فیکٹریوں کے مالک اکثر سیاستدان ،فوجی اور حکومتی ادارے ہی
ہیں ۔ اﷲ بھلا کرے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور چیف جسٹس آف پاکستان
کا کہ انہوں نے اس کا بھی از خود نوٹس لیا اور عوام میں اس اس شعور کو بیدا
ر کیا ہے ۔
|