پاکستان کی باعفت اور باحیا بیٹی کو امریکہ کے وحشیانہ
تشدد نے انسانوں کے دلوں کو ہلا کے رکھ دیا مگرہمارے حکمرانوں کے دلوں کیا
کانوں پربھی جوں تک نہ رینگی۔شاید قوم کی بیٹی پر مزیدمظالم ڈھانے کیلئے
ہمارے حکمران بھی امریکہ کے ساتھ کمربستہ ہوگئے ہیں میں یہ کالم لکھنا ضرور
چاہتا تھامگر مجھے سوشل میڈیا،ای میل اور کال کرکے میرے کالم پڑھنے والوں
نے ریکویسٹ کی کہ میں ڈاکٹرعافیہ صدیقی پر کالم لکھوں میں سمجھتا ہوں یہ
میرا نہیں میڈیا سے جڑے ہر فردواحد کا بھی فرض ہے مگرہمارے ملک کے میڈیا کو
وہاں کوریج کرنی آتی ہے جہاں سے کچھ ملتا ہو نہ کہہ جہاں سے دعائیں یا
لوگوں کی سپورٹ پچھلے دنوں یہ دیکھ کے مجھے نہایت دکھ ہوا کہ ایک طرف
دھماکہ میں لوگ شہیدہوگئے اور کئی زخمی ہیں مگرنہیں ہمارے میڈیا کو نواز
شریف کی واپسی پر کوریج کرنی تھی صبح سے ایک ہی نیوز دیکھ کے ویسے بھی دماغ
تھک گیا تھا اور دھماکے کا سن کے اور اس کی مختصراً کوریج سے اپنے ملک کے
میڈیا پر شدیدغصہ آیا کہ میڈیا کا مقصد عوام کو مسائل سے آگاہ کرنا ہے
مگرنہیں آجکل کا میڈیا بھی پرائیویٹ سکولوں کی طرح صرف بزنس بن گیا ہے لوگ
جائیں بھاڑ میں پر ان کو اپنے بزنس کی ہے ہمارے ملک میں اگرمہنگائی ہوتی ہے
پیٹرول مہنگا ہوتا ہے تو لوگ واویلا کرتے ہیں سڑکیں بلاک کردیتے ہیں مگر
عافیہ کی وجہ سے پاکستانی عوام کی خاموشی بھی سوالیہ نشان ہے میری ایک
سینئرصحافی سے ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے کہا کہ عافیہ ایک دہشتگرد ہے اس
وجہ سے اس نے اس معاملے پر مجھ سے بات نہ کی اور میں بھی اس سے مزید اس
ٹاپک پر بات نہ کرسکا کیوں کہ سینئرہونے کی وجہ سے سننے کا ٹائم نہیں ہوتا
مگرمیں اپنے اس کالم سے ان کو جواب دینا چاہتا ہوں کہ اگرعافیہ دہشتگردہے
تو اسے امریکہ ہمارے ملک کیلئے استعمال کرتا نہ کہ اسے اپنے ملک میں قید
کرکے اذیت دیتا اس بار الیکشن میں جو بھی ووٹ مانگنے آئے اس سے پوچھیں ملک
کی بیٹی عافیہ کے بارے میں کیا کیا ہم تو اسے ووٹ دیں گے جو عافیہ کی رہائی
کی حامی بھرے گا ہم نے سب کو آزما کے دیکھ لیا اب عمران خان کو بھی آزما
لیتے ہیں انہوں نے فوزیہ صدیقی سے ملاقات کے دوران وعدہ کیا ہے ہمیں امید
ہے کہ وہ وزیراعظم بنیں یا اپوزیشن میں بیٹھیں وہ عافیہ کیلئے کچھ نہ کچھ
ضرور کریں گے مجھے یاد آیا کہ بادشاہ کھوکھ،فیاض شاہ،عمران مشتاق سعیدی کی
فیسبک آئی ڈیز سے اکثرمیسجز ملتے تھے کہہ عافیہ پرکالم لکھیں ۔ڈاکٹرعافیہ
صدیقی وزن 110کلوانکی پیدائش 1973کوکراچی میں ہوئی تھی اور انکے بالوں کا
رنگ براؤن ہے اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے امریکہ کے فوجیوں سے بندوقیں
چھین کر ان پر فائرنگ کی مگرہمارے ملک کے حکمرانوں نے امریکہ سے کبھی اس
معاملہ پر کھلم کھلا بات نہیں کی کیونکہ جو بھی حکمران بنتا ہے اپنی عیاشی
میں مست ہوکر سب کے ساتھ اس معصوم پاکستانی بیٹی کو بھی بھول جاتے ہیں
حکمران تو پاکستان کے ہوتے ہیں مگرایسے لگتا ہے جیسے پانچ سال کیلئے امریکہ
کے غلام ہوں اور جی حضور کی رٹ لگائی ہوتی ہے جنرل عائشہ صدیقی نے جب عافیہ
سے ملاقات کی تواس کے باد بتایاکہ عافیہ پر جسمانی تشدد اور جنسی ہراسانی
کی تصدیق ہوئی اور باقی رپورٹ کو خفیہ رکھا گیا اور کہا گیا اسی وجہ سے
عافیہ غنودگی میں رہتی ہے ۔پہلے تو میڈیا پر کبھی کبھار عافیہ کے حوالے سے
کوئی خبردیکھنے اور سننے کو مل جاتی تھی مگر الیکشن کی وجہ سے وہ خبریں بھی
دب کررہ گئیں عافیہ پر جنسی،جسمانی ،ذہنی تشددکی خبروں کی تردیدیاتنقیدکی
ضرورت نہیں کیونکہ صرف عافیہ کی رہائی کی ضرورت ہے مجھے یاد پڑتا ہے کہ
امریکہ کے صدربارک اوبامہ نے خط بھیجا تھا کہ پاکستان کے
صدر،وزیراعظم،وزیرخارجہ کہہ دیں کہ عافیہ پاکستانی ہے تو میں اس کی سزامعاف
کردوں گامگرہمارے ملک کے بے حس حکمران خط کے جواب میں ایک سطر کیا کوئی
بیان تک نہ دیا اور چپ سادھ لی ۔جہاں حکمرانوں نے چپی لی وہاں ہمارے عدلیہ
نے بھی ہاتھ کھڑے کرلیے ویسے تو ہماری عدلیہ اتنی مضبوط ہے وقت کے وزیراعظم
کو جیل میں ڈال دے اسمبلیاں تحلیل کردے وزیراعظم صدرکو پھانسی کے پھندے پر
لٹکا دے مگرعافیہ کے معاملہ پر چیف جسٹس کی تین رکنی بنچ میں درخواست گزار
نے کہا کہ پاکستانی شہری کے حقو ق ہیں تو امریکہ عدالت میں دعویٰ دیرکریں
تو میاں ثاقب نثار کے ریمارکس تھے کہ ہماری عدالتیں امریکہ میں عافیہ کے
معاملے پر کردارادانہیں کرسکتی اور ہماراحکم امریکی عدالتوں نے اٹھا کے
پھینک دیا تو ہماری عزت خاک میں مل جائے گی میں سوچتا ہوں اتنی مضبوط عدلیہ
اور امریکہ کے سامنے بے بس ....صد افسوس۔مشرف کی نااہلی اور حماقت کی وجہ
سے عافیہ کو 2003میں افغانستان لے جایا گیا اور میڈیا پر عافیہ کو یہ کہہ
کردہشتگردقراردیا جاتا ہے کہ اس نے زخمی حالت میں M-4گن سے امریکہ کے
فوجیوں پر حملہ کیا جس کی وجہ سے انہیں ۔2009میں امریکہ لے جایا گیا اور آج
تک ان پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں 2010میں امریکی قانون کے مطابق امریکی
فوجیوں پر قاتلانہ حملہ کرنے کی وجہ سے انہیں 88سال قید کی سزاسنائی اور
انہیں 6فٹ لمبی اور6فٹ چوڑی کوٹھڑی میں رکھا گیا ہے۔آصف زرداری نے امریکہ
سے آئے کیس کے اہم دستاویزات پر اس وجہ سے دستخط نہ کیے کہ یہ عافیہ کے
بھیجے ہوئے لوگوں کا کام ہے اور یہ آزادی کی اہم ترین کوشش رائیگاں
ہوگئی۔ڈاکٹرعافیہ صدیقی نے بیان دیا تھاکہ حسین حقانی نے ان کی کوئی مدد
نہیں کی اور نہ ہی انکی عافیہ کو رہا کرانے کی دلچسپی نظرآتی ہے حالانکہ
حسین حقانی کو اس کیس کیلئے 20لاکھ ڈالربھی ہڑپ کرگئے۔ ڈاکٹرفوزیہ نے کراچی
میں جو 86دن کا احتجاج کیا اسے کون بھول سکتا ہے جس میں صحافی
،سیاستدان،پروفیسرز،طلباء وکلاتنظیمیں،مذہبی رہنماکے علاوہ ہرطبقہ کے لوگ
شامل ہوئے اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے بھی خطاب کیا تھا اس کے
بعدیہ احتجاج ملک ہرشہرگاؤں میں ہوا جس میں عوامی رکشہ یونین،سرائیکستان
ڈیموکریٹک پارٹی،تحصیل پریس کلب جتوئی،جماعت اسلامی،پی ٹی آئی بلکہ ہر یہ
کہا جائے کہ فرد واحدنے احتجاج کیا تو غلط نہ ہوگا کیونکہ کچھ لوگوں نے
سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا تو کچھ نے سوشل میڈیا پر رونا رویا مگرمعاملہ
ٹس سے مس نہ ہوا کیونکہ ہماری حکومت امریکہ کی غلام جو ٹھہری۔ پیپلز پارٹی
کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی وعدہ کیا تھا کہ عافیہ پاکستان کی بیٹی
ہے اسے پاکستان واپس ضرور لائیں گے پیپلزپارٹی کے امریکہ میں سفیرجواب
پاکستان میں عدالتوں کے مفرور ہیں تو وہ مدد کیا خودمدد کے طلبگارہیں فوزیہ
صدیقی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ رحمان ملک نے اسے قیدیوں کے واپسی
معاہدہ پر دستخط کردوجو اس وقت پیپلز پارٹی دور کے وزیرداخلہ تھے مگرجب میں
نے اس معاہدہ کے بارے میں اپنے دوست اور محب وطن وکلاء سے مشورہ کیا تو
پانے سے زیادہ کھونے کا تاثرملاکیونکہ اگراس معاہدہ سے عافیہ کو پاکستان
لاتے تو عافیہ کو مجرم قرار دیا جاتا اور اس کے بدلے ہزاروں پاکستانیوں کو
امریکہ کے حوالے کرنا پڑتا اس وجہ سے میں انکار کردیانواز شریف حکومت میں
آنے سے پہلے عافیہ کی ماں سے ملاقات کی اور ان سے وعدہ کیا کہ اقتدارمیں
آکرعافیہ کو پاکستان لانا میری پہلی ترجیح ہوگی مگرنواز شریف نے بھی وعدہ
وفا نہ کیا ۔امریکہ کے آگے ہمارے حکمران اتنے بے بس کیوں ہیں سمجھ نہیں آتی
اگرعافیہ کو مجرم سمجھا ہوا ہے تو اسے جو سزا وہاں ملی ہے وہ سزا اپنے ملک
میں لے آنے کے بعدپوری کرائی جا سکتی ہے جس میں قانونی کاروائی کرکے
پاکستان اپنے شہری کو لے آئیں شایدامریکی غلامی کے آگے بولنے کا فقدان ہے
جیسے ایک ساتھ مظاہرے اور احتجاج ہوئے اگراب ویسے ہوں تو شاید عافیہ کو ملک
واپس آنے میں دیر نہ لگے گی مگراس احتجاج کے بعد ہمارے ہی لوگوں میں یہ بات
بٹھا دی گئی کہ عافیہ دہشتگردہے اگرہم اپنے ہی لوگوں کو خود دہشتگرد کہیں
گے تو لوگ کیسے چپ رہ سکتے ہیں ۔ہم نے احتجاج تو کیے مگرکبھی اپنی پبلیسٹی
کیلئے تو کبھی شغل میں اگرہم دوبارہ احتجاج کریں اورووٹ اس امیدوار کو دیں
جو عافیہ کے معاملہ میں ایماندار ہو تو شاید حالات بہتر ہوجائیں۔ |