جب بھی کوئی مخالفوں سے تنگ آتا ہے تو لڑنے مرنے کے لیئے
تیار ہوجاتاہے اسی لیئے کہاوت ہے کہ تنگ آمد بجنگ آمد۔ ابھی کل کی بات ہے
کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز نے اندروںِ خانہ اپنے خیالات کے
اظہار کے لیئے راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار کا سٹیج استعمال کیا۔ ایک جج کی حیثیت
سے وہ کوئی قانونی مسائل پر بحث کرتا یا عوام کے مسائل حل کرنے کے لیئے
وکلا حضرات کی رہنمائی کرتا اس نے برملا ملک میں انتشار اور دفاع پاکستان
پر کیچڑ اچھالنے کی باتیں کیں۔ جسٹس موصوف کے رشوت لینے کا کیس سپریم کورٹ
میں ہے جس کی پیشی 30 جولائی کو ہے۔ شوکت عزیز نے اس سے قبل عدلیہ اور پاک
فوج کو بدنام کرنے کے زہرافشانی کرڈالی۔میں نے کچہری میں لوگوں سے سنا تھا
کہ نالائق ترین وکیل ہے، جماعت اسلامی کا اہم رکن ہے اس لیئے جماعتی
وابستگی کی وجہ سے اس کی دال روٹی چل رہی ہے۔ ایک دفعہ قومی اسمبلی کے
انتخابات میں حصہ بھی لیا۔ جماعت کے امیدواران کا مقصد اسمبلی میں جانا
نہیں ہوتا بلکہ وہ حلقے میں صرف اپنے اراکین اور متفقین کی تعداد کا شمار
کرنے کے لیئے حصہ لیتے ہیں۔ جب چوہدری افتخار صاحب صدر پرویز مشرف سے برسر
پیکار تھے تو شوکت صاحب نے چوہدری صاحب کی حمائت میں کارہائے نمایا ں
سرانجام دیئے جنکے صلہ میں چوہدری صاحب نے انہیں اہلیت نہ رکھنے کے باوجود
اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج بنادیا۔ غازیء امت حضرت ملک ممتاز حسین قادری
شہید کا کیس جس بنچ نے سنا اس میں شوکت صاحب بھی شامل تھے۔ پہلے روز جب میں
کورٹ میں گیا اور عدالت کے کچھ رازداروں سے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ
جماعت اسلامی سے ہونے کی وجہ سے عشقِ رسول یا عظمتِ رسول کے نظریہ کا مخالف
ہے، اچھا آدمی نہیں۔ پھر ہم نے اسکے طنزیہ کلمات بھی سنے کہ جو سبز پگڑی نہ
باندھے یا الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اﷲ نہ کہے تم تو اس پر بھی فتویٰ
لگا دوگے۔اس وقت ملک میں کرپٹ مافیا کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے، سبھی شور
مچا رہے ہیں۔ زرداری صاحب پہلے تو نواز شریف کے خلاف بیان بازی کرتے رہے
لیکن جیسے ہی نیب والوں نے ان کا رخ کیا تو انہوں نے نواز شریف کی قربت
اختیار کرنی شروع کردی۔ کل ہی پی پی کے انتہائی ذمہ دار نے بتایا کہ پی پی
اور ن لیگ مل کر حکومت بنائیں گے۔ حکومت تو اﷲ تعالیٰ کس کو دیتا ہے۔ یہ
راز 25 تاریخ کو کھلے گا۔ لیکن ملک میں بدعنوان، لٹیروں، قاتلوں، ظالموں
اور ملک دشمنوں کے خلاف ہلاکت خیز موجیں بلند ہورہی ہیں۔ اب بچے گا کوئی
نہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نے کہا کہ میں پہاڑ پرچڑھ جاؤنگا تو آپ
علیہ السلام نے فرمایا کہ بیٹا آج میری کشتی میں سواروں کے سوا کوئی نہیں
بچے گا۔ کشتی میں سوا ر پاکدامن لوگ تھے وہ بچ گئے ۔ جو باہر تھے وہ سارے
ہلاک ہوگئے سوائے ایک ضعیفہ کے کہ جو حضرت پر ایمان رکھتی تھی اور اپنا
چرخہ کات کرحلال روٹی کھاتی تھی۔ اس نے آپ علیہ السلام سے عرض کی تھی کہ
مجھے بھی کشتی میں سوا ر کر لینا مگر حضرت کو اﷲ نے بھلادیا۔ جب کشتی ٹہری
اور آپ کو ضعیفہ کا خیال آیا کہ وہ بیچاری تو ڈوب کر مرچکی ہوگی۔ مگر اﷲ جس
کو رکھے اسے کون مارے۔ دیکھا کہ جھونپڑی موجود ہے اندر جھانکا تو مائی چرخہ
کات رہی تھی ، بولی اے اﷲ کے نبی کیا طوفان آنے والاہے ،آپ مجھے لینے آئے
ہیں۔ فرمایا کہ مائی طوفان آیا بھی اور گیا بھی ، نافرمان ہلاک ہوگئے۔ تجھے
اﷲ نے معلوم بھی نہیں ہونے دیا۔ یہ حلال کمانے اور حلال کھانے کی کرامت ہے۔
اب تمام کرپٹ مافیا نیب، عدلیہ اور فوج کے مقابلے میں ایک پلیٹ فارم پر جمع
ہونا شروع ہوگیا ہے۔ کند ہم جنس باہم جنس پرواز۔ پاکستان کے قیام کی سچائی
پر ایمان ارکھنے والے طویل عرصہ تک اس مخمصے میں تھے کہ کیا پاکستان غلط تو
نہیں بنا، پھر جب خیال آتا کہ لاکھوں مسلمانوں نے یونہی جانیں قربان نہیں
کیں، گھر بار بار چھوڑے، عزتیں لٹائیں۔ اﷲ کسی کی قربانیوں کو ضائع نہیں
فرماتا۔ شہدا کی ارواحِ طیبات بھی پریشان ہونگی کہ کس مقصد کے لیئے ہم نے
سبھی کچھ قربان کیا؟ پاکستان کے عوام نے مظلومیت میں بڑا عرصہ گذارا ۔ بڑے
طاقتور ہر شعبے پر قابض اب اپنے ہی پیشاب پر پھسلتے گرتے نظر آرہے ہیں۔ ان
کے بارے کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ایوانہائے حکومت سے نرم بستر چھوڑ کر
جیل کے فرشوں پر لیٹیں گے۔ ابھی بھی وقت ہے اگر عذاب الٰہی سے بچنا چاہتے
ہیں تو اس ملک کے عوام کا لوٹا ہوا مال واپس خزانے میں لائیں۔ شائد اﷲ معاف
کردے۔اگر یہ سمجھیں کہ لٹیروں کے جتھے اتحاد کرکے کوئی قوت بناکر اس
پاکستان (مسجد )کو اپنے تختہ مشق بنائیں گے۔ جب سے اﷲ کے رسول ﷺ کے محبوب
غازی کو شہید کیا ہے ظالموں ، قاتلوں اور دین کے دشمنوں کا احتساب شروع
ہوچکا ہے۔ کوئی بچے گا نہیں۔ میں نے نواز شریف کو لکھا تھا کہ آپ اپنے
اہلخانہ کو لے کر غازی شہید ممتاز قادری کے مزار پر جاکر معافی مانگیں اور
عہد کریں کہ غازی صاحب جو خطا مجھ سے ہوگئی وہ تو واپس نہیں ہوسکتی لیکن اب
اس کے ازالہ کے لیئے میں عہد کرتا ہوں کہ آپ نے نظامِ مصطفٰے ﷺ کے لیئے جان
قربان کی میں اسکے نفاذکی بھرپور جدوجہد کرونگا۔ مگر نواز شریف کے مقدر میں
ابھی سزائیں بھگتنا لکھی ہیں۔ اس نے اپنے داماد کو رات کے اندھیرے میں غازی
صاحب کے مزار پر بھیجا مگر خود جانے سے گریزاں رہا۔ میں ظالموں، قاتلوں،
لٹیروں کے جتھوں سے مخاطب ہوں کہ رسول اﷲ ﷺ کے امتی ہوسچے دل سے توبہ کرلو،
فقیرانہ زندگی آزادی کی زندگی اس امیرانہ ززندگی سے بہتر ہے۔ آخرت بھی سنور
جائے گی۔ آخرمیں میں جناب چیف جسٹس آف پاکستان، جمہ جسٹس صاحبان، چئیرمین
نیب اور افسرانِ نیب و چیف آف آرمی سٹاف اور انکے ساتھیوں سے گذارش کرتا
ہوں کہ ملک کے سارے چوہے اگر اکٹھے کر بلی کے قریب نہیں آسکتے تو آپ باہمت
اور سچے ہیں اور سچ کا علم بلند کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں سارا کرپٹ
مافیا خبیث سیاستدان سبھی ملک جائی تو آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ، اپنا کام
جاری رکھیں۔ آپ لوگوں کی حفاظت کے لیئے مجھ سمیت لاتعداد لوگ آئت الکرسی کی
تلاوت کرتے ہیں۔ اﷲ آپ سب کا مہیمن ہے۔ |