مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ ووٹ کس کو دینا چاہئے ؟ میں
نے اشارتاََ اپنے سابقہ کچھ کالموں میں لوگوں کو آئین پاکستان کی آگہی دینے
اور آئینِ پاکستان کے نفاذ کو ووٹ دینے کیلئے ترغیب دی ہے ۔ لیکن اب میں
اپنے قارئین کے سامنے اس بات کو سرعام بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ ویسے تو
پاکستان کے لوگ خلائی مخلوق کی باتوں پر عمل کرتے ہیں لیکن یہ خلائی مخلوق
کا وجود ہوا کی صورت میں ہے ۔جس کی ہوا چل پڑتی ہے بس اسی کے پیچھے ہو لیتے
ہیں ، نا تو کسی خبر کی تصدیق کرنا گوارا کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کا کردار
دیکھنا گوارا کرتے ہیں ۔ پاکستان کا خواندہ طبقہ کہتا ہے کہ ووٹ ضمیر کا
ہونا چاہئے ، اور ہم اسی کوووٹ دیں گے جسے ہمارا ضمیر مانے گا۔ لیکن پھر
کیا ہوتا ہے ، یہ لوگ اس کا کردار یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کتنا چالاک ،
مکاراور چال باز ہے ،عزت اس لئے دیتے ہیں کہ اس کے پاس بنک بیلنس اور
کاروبار اتنا بڑا ہے ، اس کی علاقے میں دھاک کتنی اونچی ہے؟ ایسی کئی
نشانیاں گنوائیں جا سکتیں ہیں لیکن یہ سب کی سب غلام ہونے کی نشانیاں ہیں ۔
جب ضمیر میں غلامی سینت ، سینت کر بھری ہو گی تو آئیڈیل کردار کہاں سے
سامنے آ سکتا ہے؟پھر جب ایسے لوگوں کو یہ ووٹ دے کر ایوانوں میں بٹھا دیتے
ہیں تو بعد میں پورے پانچ سال انہیں گالی گلوچ اور برے القابات سے پکارتے
ہیں ، ان کی پیٹھ پیچھے غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں ۔ سنی سنائی باتیں
لوگوں کے سامنے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں ، کئی کہانی گو تو ایسے ہوتے ہیں
کہ انہیں پانچ منٹ میں ڈکیت بنا کر رکھ دیتے ہیں ، لیکن میرا اﷲ ایسی باتوں
سے منع فرماتا ہے ، فرمایا غیبت اور چغل خوری مت کرو ، غیبت کرنا ایسا ہے
جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا ۔ کچھ لوگ خود کو نظریاتی ثابت کرنے کے
دعویدار ہوتے ہیں ، وہ یہ نہیں جانتے کہ ہم ملک پاکستان کے باسی ہیں اور
ہمیں سب سے پہلے نظریہ پاکستان کی بات کرنی چاہئے ، بے شک نظریہ پاکستان کی
بقاء میں ہی بقائے پاکستان ہے ، ان کے سامنے ایک شخص آتا ہے جو ان کے جذبات
کو کیش کرتا نظر آتا ہے ، کبھی مخالف فریق کے خلاف باتیں اور لمبی لمبی
تقریریں کر کے ان کے جذبات سے کھیلتا نظر آتا ہے تو کبھی اولیاء اﷲ کے
جانشینوں کے ساتھ تصویریں بنوا کر اور ویڈیو بیان جاری کروا کر یا ان کے
کسی فرد کو اپنے ساتھ گاڑیوں میں سیر کروا کر ان کے پیروکاروں کے جذبات کو
مجروح کرنے کیلئے پیش پیش ہوتا ہے ، کیونکہ وہ مریدین سے تو دھوکہ کرتا ہی
کرتا ہے اولیاء کے ساتھ بھی دوغلی پالیسی کرتا ہے اور ان کے مریدین سے ووٹ
لے کر بعد میں ان کی زبان بننا تو دور ان کے ووٹوں کا تقدس بھی پامال کرتا
نظر آتا ہے ۔ کچھ لوگ جاگیر داروں اور وڈیروں کو ترجیح دیتے ہیں اور
اسلامیت ، انسانیت اور پاکستانیت سے کوسوں دور کہیں سسک رہی ہوتی ہے ۔ میرا
سوال ہے کہ کیا کسی کی کردار کشی کرنے سے کوئی شخص اچھا یا برا ہو سکتا ہے؟
اختلاف ہونا چاہئے لیکن کسی سے ذاتی نہیں بلکہ نظریاتی اختلاف ہونا چاہئے ۔اور
آپ کا نظریات کے اختلاف کی صرف ایک صورت ہو اور وہ اسلامیت ، انسانیت اور
پاکستانیت کی ہو سکتی ہے ۔ میں نے یہاں اسلامیت ، انسانیت اور پاکستانیت کی
بات کی ہے تو میری نظر میں یہ تینوں ایک ہی مقصد کے نام ہیں اور وہ ہے
مسلمانیت۔ اگر میں سوال کروں کہ میں آپ سے انسانیت ، اسلامیت اور پاکستانیت
کیلئے ووٹ مانگنے آیا ہوں تواس پر حامی تو سبھی بھر دیں گے لیکن عملی طور
پر کوئی بھی ووٹ نہیں دے گا، کیوں کہ سب کی ترجیحات یہ ہے ہی نہیں، کسی کو
نوکری کیلئے ووٹ دینا ہے ، کسی کو گلی ، نالی ، سولنگ کیلئے ووٹ دینا ہے ،
کسی کو تھانہ کچہری کے معاملات سے جان چھڑانے کیلئے ووٹ دینا ہے ، کسی کو
پیروں کو ووٹ دینا ہے ، کسی کو فلاں جاگیر دار کیلئے ووٹ دینا ہے ۔ لیکن
اگر آپ لوگ واقعی ووٹ کا مطلب سمجھتے ہیں تو ان تینوں باتوں کو سمجھنے کی
بھی اشد ضرورت ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ تب تک آپ اچھے مسلمان نہیں بن سکتے
جب تک آپ اچھے انسان نہ بن جائیں ۔ اسلامیت سے مراد یہ ہے کہ ووٹ اس شخص کو
دیا جائے جو زندگی کے ہر پہلو کو اسلام کے مطابق گزارنے کی کوشش کرے ، یعنی
اگر کہیں کوئی فوت ہو گیا ہو اور وہاں کوئی منتخب عوامی نمائندہ موجود ہو
تو وہ کم از کم جنازہ پڑھانے کی اہمیت رکھتا ہو، ممبر رسول ﷺ پر بیٹھ کر
وعظ کر سکے جمعہ اور نماز کی امامت کروا سکے ، وہ اپنی رعایا کو اسلامیت سے
بہرہ مند کر سکتا ہو ۔ یہ اسلام ہے اور اس کی پاسداری اسلامیت کہلاتی ہے ۔
انسانیت سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص معاشرتی زندگی میں کیسا ہے! کیا وہ حقوق
العباد پورے کرتا ہے ، اس کے بارے میں اس کے پڑوس سے پتہ کرو کہ اس کا
اخلاق اور رویہ ان کے ساتھ کیسا ہے ؟ کیا وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کے
بنیادی ضروریات کیلئے آواز اٹھاتا ہے ، ان کی خدمت کرتا ہے؟ کیا وہ ڈوبتے
کو بچاتا ہے؟ بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے ؟ کیا وہ بیماروں کی عیادت کرتا
ہے؟کیا اس کے پڑوس میں کوئی یتیم مسکین بچی جو کنواری بیٹھی ہو کے سر میں
چاندی تو نہیں اترنے لگی ؟ کیا وہ باطل کے خلاف حق کیلئے ڈٹ جاتا ہے؟ کیا
وہ باطل کا طرفدار تو نہیں ؟ کیا اس کے ہمسائے میں کوئی بیوہ عورت یا کوئی
بے سہارا ماں جینے کو سسک تو نہیں رہی؟ کیا وہ سلام کو عام کرتا ہے؟ لوگوں
کے ساتھ احسان کا معاملہ کرتا ہے؟ وہ رشتہ داریاں کیسی نبھاتا ہے؟کیا وہ
کسی کا حق تو نہیں کھاتا ؟ لوگوں پر ظلم وجبر سے انہیں محکوم تو نہیں رکھتا؟
اور پاکستانیت سے مراد پاکستان کی نظریاتی اور سرحدی بقاء کی جنگ لڑنا ہے !پوری
دنیا کے مسلمانوں سے ہمارا رشتہ لا الہ الا اﷲ کا ہے ، چاہے وہ کشمیر کے
مسلمان ہوں ، برما کے ہوں ، شام کے ہوں ، عراق کے ہوں چاہے کسی بھی خطے کے
ہوں ، انہیں اپنا تسلیم کرنا ہے ، ان کی خدمت کو عبادت سمجھنا ہے اور خدمت
ہی سیاست ہونی چاہئے ۔ اپنے امیدوار کو دیکھئے کہ وہ ملک کو لوٹ کر کھانے
والوں میں سے تو نہیں ؟ اس کی محب وطنی عملی ہے یا صرف زبانی کلامی ؟
پاکستان کی کے معرض وجود میں آنے کی بنیاد لا الہ الا اﷲ ہے ، اور اسلامیت
اور انسانیت ہی اس کے دو ستون ہیں جنہیں کمزور کرنے کی کوشش میں پچھلے
چالیس سال سے غدار وطن مگن ہیں ، لیکن اﷲ نے انہیں دنیا میں ذلیل و رسوا کر
کے رکھ دیا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے جماعت الدعوۃ پر پابندیاں عائد کی
گئیں ، پھر فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے اثاثے منجمد کر دئیے گئے ، اور انہیں
دہشتگرد کہا جانے لگا ، مجھے کوئی جواب دے کہ کیا جماعت الدعوۃ نے بلا تعصب
تھر کے سسکتے اور بلکتے بچوں کو اﷲ کی توفیق سے پانی کے کنویں کھود کر نہیں
دئیے؟ کیا زلزلوں میں اﷲ کی توفیق سے ان کی خدمات کو اقوام متحدہ نے تسلیم
نہیں کیا؟ کیا سیلاب میں ہم سب نے اﷲ کی توفیق سے ان کی انسانیت کو تسلیم
نہیں کیا؟ کیا انہوں نے مسئلہ کشمیر پر اﷲ کی توفیق سے پاکستان کے مؤقف کو
اچھے اندا ز میں واضح نہیں کیا ؟ وہ بڑی بڑی داڑھیوں والے ، پیشانی پر
سجدوں کے نشان سجائے ، ہر طرح کی برائیوں کے الزامات سے پاک ، نظریہ
پاکستان اور بقائے پاکستان کی جنگ لڑنے والے اس بار اﷲ کی توفیق سے میدان
میں ہیں ، جس کی تکلیف بھارت کو ہے ، افغانستان میں بیٹھے اسرائیل کو ہے ،
امریکہ کو ہے ۔ تو ایسا کیا ہے اس جماعت میں اور حافظ سعید میں جو ان تینوں
مسلم مخالف قوتوں کی آنکھوں کا تارا بنے ہوئے ہیں ؟ وہ صرف اسلامیت ،
انسانیت اور پاکستانیت ہے ۔ انہیں پڑنے والے ووٹوں کی گنتی بھارت ، امریکہ
اور اسرائیل میں ہونے والی ہے ۔ کوئی ایک سیاسی جماعت مجھے دکھا دیں یا
مذہبی جماعت جس پر بھارت اور امریکہ بھڑکتا ہو ، صرف ملی مسلم لیگ اور
جماعت الدعوۃ کیلئے بھڑکتا ہے ۔ تو میں پوچھتا ہوں کہ اے لوگوں ! کیا تم
لوگ اپنے ووٹ کی گنتی بھارت ، امریکہ اور اسرائیل کو کروانا نہیں چاہو گے؟
تم نہیں چاہتے کہ تمہارے ووٹ بھارت میں میزائل بن کر گریں ؟ اگر واقعی حب
الوطنی کا جذبہ دکھانا چاہتے ہو تو آج تمہارے پاس موقع ہے ۔ ملی مسلم لیگ
کے امیدواروں کو کامیاب کروائیں ، جن لوگوں کا منشور ہی اسلامیت ، انسانیت
اور پاکستانیت ہے ۔ |