عوام اور الیکشن

مسائل کی چتا میں جھلستے پاکستان میں ایک بار پھر الیکشن کا وقت آگیا ‘ پاکستان کے دامان ِ صد چاک کی رفوگری کا وقت آگیا ہے ‘ کرپشن کا ناسور ہما ری ہڈیوں تک اُتر چکا ہے ‘ نااہل حکمرانوں کی نا لا ئیکیوں نے پاکستان کے دامن کو تار تار کر دیا ہے ‘ قرضوں کے ہما لیے کے نیچے سانس لینا مشکل ہو گیا ہے ‘ توانائی کے بحران نے ڈراؤنے خواب کی شکل اختیار کر لی ‘ ملکی معیشت مر ض الموت میں مبتلا ہے ‘ ہو شربا مہنگائی بے روزگاری کی چکی میں پستی عوام جمہوری تما شے سے عاجز آچکے ہیں‘ دہشت گر دی کی پنیری تنا ور فصل کا روپ دھا رچکی ہے ‘ نفرت بغض الزام تراشی ہما رے کلچر کا حصہ بن چکی ہے ‘ ہماری زبانوں کو جھوٹ کی لت پڑ چکی ہے ‘ اِن حالات میں الیکشن 2018آگئے ہیں موجودہ دور میں جب عوام با شعور ہو تے نظر آرہے ہیں ان حالات میں ملک گیر سطح پر یہ ضروری ہو گیا ہے کہ انتخابات شفاف ہوں ‘ دھاندلی کی ہر کھڑکی کو سختی سے بند کر دیا جا ئے ‘ جعلی ووٹ بھگتنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جائے انتخابی عملے کو باوقار شفاف الیکشن کی تمام سہولتیں دی جائیں ‘ وطن عزیز کے دور دراز علا قوں میں انتخابی عملہ مقامی با شندوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ‘ اُن کی حفاظت کے عمل کو یقینی بنا یا جا ئے اگر انتخابی عملہ خود کو غیر محفوظ سمجھے گا تو کبھی بھی شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کو ممکن نہیں بنا سکے گا ‘ پاکستان کے بعض علا قوں میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کو پسند نہیں کیا جاتا وہاں پر ایسے حالات مہیا کئے جائیں کہ خوا تین بھی آسانی سے اپنے ووٹ کا حق استعمال کر سکیں ۔ اگر زخموں سے چور پاکستان اور مسائل کی دلدل میں پھنسے عوام کی بھلائی مقصود ہے تو شفاف الیکشن کر انے ہو نگے تا کہ وطن عزیز پر چھا ئے سیا ہ بادل چھٹ جائیں اور پھر امید اور ترقی کا ایسا سورج طلوع ہو جو پھر کبھی غروب نہ ہو ‘ اِس ملک سے جو بھی محبت کر تا ہے و ہ اپنی مثبت کو شش سے مثبت تبدیلی کی کو شش کر ے گا ‘ رعونت اوربغض کے دھوئیں میں لپٹے لو گ دوسروں کی کلغی نیچی کر نے کے لیے اخلا قیات کی تمام حدود کراس کر جا تے ہیں ‘ لیڈروں کی منفی بیان با زی عوام کو بھی نفرت کے دائروں میں تقسیم کر دیتی ہے نفرت کی آگ کو ٹھنڈا کر نے کے لیے انفرادی کوششوں کے ساتھ ساتھ ہمیں اجتما عی کو ششوں پر دھیان دینا ہو گا ورنہ نفرت کی سیاست سے آپ وقتی کامیابی کا جھو لا جھو لتے ہیں لیکن تا ریخ ایسے وقتی لیڈروں کو اپنے ماتھے کا جھو مر بنا نے کی بجا ئے کو ڑے دان میں پھینک کر اوپر گمنامی کی چادر ڈال دیتی ہے ‘تا ریخ بہت بے رحم ہو تی ہے وہ ہمیشہ حق سچ کی بات کر تی ہے آپ کو تا ریخ کے سنہرے اوراق میں چمکنا چاہیے نہ کہ تاریخ کے غلیظ کو ڑے دان میں آ نے والے دور کے انسان آپ کو نفرت سے دھتکاریں ‘ آج عوام ظلم ‘ جھوٹ ‘ نفرت ‘ بغض ‘ رشوت ‘ سفارش ‘ کر پشن ‘ اقربا پروری ‘ جان لیوا مہنگائی ‘ بے روزگاری کی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے عوام بار بار ایسے مسیحا کا منہ دیکھتی ہے جو اُسے اِس دلدل سے نکال سکے لیکن عوام بار بار ایک غلطی تو اتر سے کر تی آرہی ہے کہ وہ بار بار انہی چہروں کا انتخاب کر تی ہے جو بار بار اُسے لوٹ چکے ہیں ہم حکمرانوں کا رونا تو دن رات روتے ہیں لیکن اِن لیڈروں کو مسندِ اقتدار پر سوار کون کر اتا ہے اِن کے گلوں میں ووٹوں کے ہار کو ن ڈالتا ہے ۔ ہر حکمران عوام کے اندر اور اِن کی طاقت سے ہی اٹھتے ہیں ‘ سیاسی لیڈر عوام کے ووٹو ں سے منتخب ہو کر ہی اقتدار کی راہداریوں میں براجمان ہو تے ہیں اور نہ ہی کو ئی شخص عوام کی مرضی کے بغیر لیڈر بن سکتا ہے ہر لیڈر عوام کے زور پر ہی اقتدار کے گھوڑے پر کاٹھی ڈالتے ہیں عوام اِن کی پر فریب با تیں سنتے ہیں عوام اِن لیڈروں کے دکھائے ہو ئے جھو ٹے خوابوں پر یقین کر تے ہیں تو ہی یہ لیڈر اِن کو خواب دکھا تے ہیں ‘ عوام اِن اقتدار کے بھو کے عفریتوں کے قدموں میں پھول کی پتیاں اور آنکھیں بچھاتے ہیں تب ہی تو اِن میں کرو فر آتا ہے یہ عوام کے بنا ئے ہو ئے سٹیجوں پر بڑھکیں ما رتے ہیں یہ عوام کے فلک شگاف نعروں سے ہی ہوا کے غبا رے بنتے ہیں عوام کے گلہ پھا ڑنے سے ہی یہ زندہ باد ہو تے ہیں ‘ عوام کی لگا ئی ہو ئی مہروں سے اِن کی صندوقچیاں بھرتی ہیں یہ عوام ہی ہے جو اِن کے پو لنگ ایجنٹ بن کر اِن کی راہ ہموار کر تی ہے اِن کے لیے دن رات ڈور ٹو ڈور جا کر ناراض لوگوں کو مناتی ہے الیکشن کے بعد ہم امریکہ یا مغربی اقوام یا خفیہ ایجنسیوں کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں جبکہ یہ آدھا سچ ہے با قی سچ یہ ہے کہ نا تو امریکی فوج یا خفیہ لو گ آکر اِن کے ہاتھ سے ووٹ پکڑ کر صندوقچی میں ڈالتے ہیں اور نہ ہی ووٹروں کو زبر دستی مجبور کر تے ہیں ‘ برسہا برس سے اگر وطن عزیز کی اقتداری راہداریوں میں یہ کر پٹ حکمران جھولے جھو لتے ہیں تو اُنہیں ان جھولوں پر بٹھایا کس نے عوام نے ‘ ہر پانچ سال بعد الیکشن کا وقت آتا ہے تو سالوں بعد حلقوں میں آنے والے امیدواروں کو گلے سے کون لگا تا ہے اُن کی کا رنر میٹنگوں اور جلسوں میں کو ن آتا ہے ‘ گھنٹوں انتظار کے بعد اِن کر پٹ حکمرانوں کی رٹی رٹائی تقریریں کو ن سنتا ہے ‘ نسل در نسل دادے سے باپ اور اب با پ سے بیٹا یہ کون اِن پر حکمرانی کر رہا ہے ‘ خاندان ایک ہی ہے چہرے بدلتے جا رہے ہیں پچاس سال پہلے اِن کے گھروں محلات اور ڈیروں کے جغرافیے کیا تھے اور آج یہ کیا ہو گئے ہیں ‘ زمین سے آسمان تک اِن لیڈروں کو پہچاننے میں مدد کس نے کی ۔ یہ عوام کے دیکھے بھا لے لو گ ہو تے ہیں نہ ہی یہ سلیمانی ٹو پی پہن کر دوبارہ عوام کو بیوقوف بنا نے آجاتے ہیں یہ اونچی برادریوں کے لو گ گدی نشین جاگیر دار سرمایہ دار زمین سے اُگ آئے ہیں یا آسمان سے ٹپک پڑے ہیں یا سرحد کراس کر کے آئے ہیں نہیں بلکہ ہما رے با نجھ معاشرے کی پیداوار ہیں غلطی ہما ری ہے جو اِن کو جانتے پہچانتے پھر اقتدار کے کو ٹھے پر چڑھا دیتے ہیں یہ ہر بار آکر کو ئی نیا لطیفہ یا شعبدہ دکھا تے ہیں اور ہم پھراِن کے فریبی جال میں پھنس جاتے ہیں یہ صرف ایک بار پیار سے ہمیں بلاتے ہیں گلے لگا تے ہیں یا ایک کپ چائے پیش کر تے ہیں تو ہم جان تک دینے کو تیار ہو جا تے ہیں ہمارے عوا م کا مشترکہ شکو ہ ہے کہ ہما رے نمائندے الیکشن کے بعد کبھی بھو ل کر بھی واپس نہیں آتے یا سارے فنڈ خو د ڈکار جا تے ہیں اپنے میراثیوں چمچوں عزیزوں کو بانٹ دیتے ہیں ۔اپنے گھر محلات میں تبدیل کرتے ہیں ہم نا راض اِس بات پر ہو تے ہیں کہ اُس نے تھا نے میں مدد نہیں کی ‘نو کری نہیں دلوائی ‘ پر مٹ نہیں دیا یا ہما رے دھڑے کی سائیڈ نہیں کی ‘ اِس بنیاد پر نفرت نہیں کر تے کہ اُس نے لو ٹا کر یسی کو پروان چڑھایا ‘خیانت کی ‘بد عہدی کی ‘ملکی وسائل سے اپنی تجوریاں بھریں‘ علا قے میں ایک پیسہ نہیں لگا یا ‘ قصور عوام کا ہے جب تک عوام برادری ازم کا خو ل نہیں تو ڑے گی ‘ملکی مفاد کو مد نظر نہیں رکھے گی ‘ دیانتدار‘ با کردار نما ئندوں کو نہیں چنے گی تو جس طرح بادل کے بغیر با رش ممکن نہیں ‘امتحان دئیے بغیر فرسٹ ڈؤیژن نہیں ‘بنیاد کے بغیر مکان نہیں ‘بیج کے بغیر فصل نہیں تو جب یہ دنیا کے کسی چپے میں ممکن نہیں تو پاکستان میں یہ معجزہ کیسے ممکن ہو گا ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہما ری ریا ست فلاحی ریا ست کا روپ دھار لے یہاں پر انصاف کا بو ل بالا ہو ‘ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کر ے ‘ انصاف سب کے لیے برابر ہو تو الیکشن کے دن عوام کو اپنی ذات سے نکل کر حقیقی اورایمان دار نمائندوں کو چننا ہو گا ورنہ ہمارا فلاحی ریاست کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا عوام مسائل کی چتا میں اِسی طرح جھلستی رہے گی ۔

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735710 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.