الیکشن کا موسم سر پر ہے بادلوں میں کالی گھٹا چھائی ہے
سوچا کیوں یہ ایک بار پھر اپنی عوام کو بیدار کرو کہ اب تو اٹھ جاؤ تم پر ۵
سال کے لئے پھر سے کوئی ظالم و جابر لٹیرا قابض ہونے کو ہے تو آج بات ہو
جائے آرٹیکل 19Aپر اس آرٹیکل کا نعرہ ہے ''اطلاعات کی آزادی اور جاننے کا
حق '' اس کا مطالعہ کرنے کے بعدمیرا تجزیہ یہی ہے کہ بول کہ لب آزاد ہیں
تیرے کیوں کہ قرآن پاک میں بھی ارشاد ہے کہ:
'' رب ان قوموں کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود نہ چاہے''
ہماری عوام اپنے حقوق کے علاوہ ہر چیز پر آواز اٹھاتی ہے اگر انڈین چینل
بند ہو جائیں تو عوام کو یہ بات برداشت نہیں،ناموس رسالت کے پروانوں نے چند
علماء کے اشتعال انگیز تقاریروں،بیانوں،جمعے میں ہونے والے خطبوں کی وجہ سے
ناموس رسالت کے دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچایا مگر عوام میں سے کسی فرد
واحد نے یہ نہیں کہا کہ جب ان علماء،ملاؤں کو ناموس رسالت کا اتنا ہی پاس
ہے تو وہ خود اور ان کی اولادیں کیوں نہیں تھی غازی الم دین۔غازی ممتاز
قادری و غازی عبدالرحمن چیمہ کی جگہ،آئے دن کبھی کہیں خودکش حملہ ہوجاتا
ہے،تو کہیں دہشت گردی کی واردات عوام صرف ایک کام کرتی ہے اپنی پیاروں کی
لاشیں اٹھاتی ہے بین کرتی ہے اور پھر دوسرے حملے کے لئے تیار ہوجاتی ہے مزہ
کی بات یہ ہے کہ ہماری عوام مہنگائی کا بھی رونا روتی ہے مگر پچھلے ۲ سالوں
سے ۱۴ اگست پر میڈیا کی رپورٹ کے مطابق۱۵ ارب کی خریداری کی گئی،تو۲۰۱۷کے
بکرا عید پر ۴۵۰ ارب کی خریداری کی گئی حالیہ عیدالفطر پر صرف کراچی کی
عوام نے عید کے پہلے دن ۱۹ کروڑ کی مٹھائی خریدی!کسی ماں کو گالیاں دینا آن
ائیر پروگرام میں پھر دوسرے دن آکر گالیاں دینے والاشخص معافی مانگ لیتا ہے
عوام کے ساتھ ساتھ چند علماء اور فلاحی اداروں کے بڑے نام بھیٹے پروگرام
میں مسکرا رہے ہوتے ہیں موصوف کوئی اور نہیں عامر لیاقت ہیں جوکہ مرحوم
جنید جمشید کی ماں کوسرعام گالیاں دیتا ہے کوئی اس شخص کو ایک لفظ نہیں
کہتا کہے گا بھی کیوں مفادات کی محفل جو سجی تھی قندیل بلوچ اور اس کا
پارسہ قاتل تو سب کو یاد ہی ہوگا وہاں بھی یہ عوام خاموش رہی تالی دونوں
ہاتھوں سے بجتی ہے مفتی قویٰ بھی اتنا ہی قصور وار تھا جتنا قندیل کو بتایا
مگر اس لڑکی کے حق میں بولنا تودور ریٹنگ کی حوس اور ٹی آر پی کی نحوست کو
پروان چڑھایا گیا اورقندیل کی زندگی پر ڈرامہ باغی بنا دیا گیا عوام پھر
خاموش رہی کیوں کہ:
سامنے ایک مفتی تھا اسے کچھ کہا جاتا تو فتوہٰ داغ دیا جاتا
آئے دن سیاسی جماعتیں روڈ بلاک کر دیتی ہیں عوام کے لئے نہیں اپنے مفادات
کی خاطرمگر شاباش ہے میری قوم کو چاہے دو گھنٹے ٹریفک جام کی اذیت برداشت
کرے مگر مجال ہے ایک حرف بھی کہے جائے۔۔۔۔۔to be continue
اب بات کرتے ہیں ہمارے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی تو بتاتی چلوں کہ صرف
سیاست دان و حکمران ہی عوام کے جاننے کے حق اور آزادی اظہار رائے پر کنڈلی
ڈال کر نہیں بھیٹے بلکہ پریس کے مختلف نظریات،میڈیا ہاؤسز کی پالیسز اور
صحافت کو پروپیگنڈہ کے طور پر استعمال کرنے والے عوام کے ڈھکے چھپے دشمن
ہیں کبھی سماجی ذمہ داری کی آڑ میں،کبھی میجک بلٹ تھیوری،کبھی مقتدرانہ
نظریہ کی آڑ میں،کبھی حریت پسندی کا سہارا لے کر،کبھی پروپیکنڈہ کر کے تو
کبھی مثالی ضابطہ اخلاق کا ڈوز (Doze)دیکر اس بے وقوف اور کٹھ پتلی کی طرح
چلنے والی قوم کے ساتھ کھیلا جاتا ہے پچھلے دنوں فیس بک پر ایک پوسٹ نے پھر
مجھے میری قوم کی یاد دلا دی۔
''اس پوسٹ میں ایک اندھا شخص آگے تھا باقی اس کے پھیچے سب آنکھوں والے لوگ
اسے Followیعنی اس کی پیروی کرتے دکھائی دئے''
اگر واقعی مہنگائی ہے اور عوام اس کے خلاف آواز بھی اٹھاتے ہیں تو پھر یہ
میری ملک کی کون سی مخلوق ہے جس کی وجہ سے پاکستانی شاپنگ
مال،ریسٹورنٹ،ڈھابے،چھوٹے چھوٹے کھانے پینے کے ٹھیلے،ہر مارکیٹ کی چھوٹی سے
بڑی دکان رش و ہجوم کے گرد گھیری دکھائی دیتی ہیں ہم تو وہ زندہ قوم ہیں کہ
دوسروں کے تہواروں کو اپنا فریضہ سمجھ کر مناتے ہیں ان تہواروں کے اصل وارث
بھی کبھی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہوں گے کہ کیا یہ واقعی ہمارے تہوار ہیں
یا پھر ان مسلمانوں کے خاص کر پاکستانیوں کے۔
میڈیا اتنا معصوم نہ بنے اور عوام عقل کے اس قدر اندھے نہ بنے کہ جانوروں
میں شمار کئے جائیں عوام کو خاص کر یہ تو شعور و آگاہی ہونا چاہے کہ اس کا
اصل حق کیا ہے؟دوسری بات ہم عوام کو کسی کو بھی بُرا کہنے کے بجائے اپنے آپ
کو دیکھنا ہوگاکہ آیا ہم کیا کر رہے ہیں؟کیوں کہ وہی معاشرے ترقی کر پاتے
ہیں جن میں عوام کو ذیادہ سے ذیادہ جاننے کا حق میسر ہو اور جہاں حق ملتا
نہیں وہاں چھیننا پڑتا ہے ترکی کی مثال سب کے سامنے ہے خداراالیکشن سر پر
ہیں اور یہ ایک ووٹ کا مسئلہ نہیں بلکہ ہماری آنیوالی اور موجودہ نوجوان
نسل کے مستقبل سے جڑے ہے ووٹ کا درست استعمال کیجئے گا روز محشر اس کا سوال
بھی ہوگا کہ جب تمھیں پتہ تھا کہ فلاں حکمراں حکومت کے قابل نہیں تو اس اہم
فریضے کو کیوں کر ضائع کیاآخر میں بس اتنا کہوں گی کہ:
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے میری عوام
تمھاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں |