الیکشن 2018کے تتائج پر تحریک لبیک پاکستان کو شدید تشویش
ہے۔وہ ملک بھر سے ایک نشست بھی نہیں حاصل کرپائی۔الیکشن نتائج کو مسترد
کرتے ہوئے مولانا خادم حسین رضوی نے احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔ان الیکشن
میں دوسرا اپ سیٹ ایم ایم ا ے والوں کی ناکامی سے ہوا ہے۔وہ بھی اپنی مشرف
دور میں پانے والی عظیم کامیابی کا اعادہ نہیں کرپائے۔سرکردہ لیڈران کو پی
ٹی آئی کے عام سے لوگوں کے ہاتھوں دھول چاٹنا پڑی۔ایم ایم اے والے بھی ان
الیکشن نتائج پر تلملا رہے ہیں۔ان نتائج سے پریشان لوگوں میں پاک سرزمین
والے بھائی بھی شامل ہیں۔جو ایک نشست بھی نہیں پاسکے۔یہ الیکشن دن کے وقت
جتنے پرسکون اور پرامن ہوئے تھے۔اگلی صبح ہونے تک اتنے ہی متنازع اور گھپلے
والے بن گئے۔بتایا گیا تھا کہ ان الیکشن میں ایک نئی ٹیکنالوجی متعارف
کرویا جارہا ہے جس سے الیکشن ریزلٹس کا نظام بہتر ہوجائے گا۔اس بار رات دو
بجے تک ریزلٹ اناؤنس کردیے جائیں گے۔اس ٹیکنالوجی کا فائدہ نہیں ہوا۔الٹا
پچھلے الیکشن میں جو اس ٹیکنالوجی کے بغیر ہوا کرتے تھے صبح صادق تک قریبا
75فیصد نتائج آجایا کرتے تھے۔اب الیکشن سے اگلے دن دوپہر تک نصف نتائج بھی
نہیں عوام تک پہنچائے جاسکے۔تحریک انصاف کی کراچی میں برتری کو ہضم کرنا
بھی مشکل ہے۔اگر اسے یہاں مسلم لیگ ن کے برابر محبت ملتی توپھر بھی شاید
بات سمجھ میں آتی ۔پنجاب سمیت پور ے پاکستان سے سابق وزیر اعظم نوازشریف کے
پکے وفاداروں کو چن چن کر ہروانا بھی کچھ لوگوں کی تمنا دیکھی گئی۔
سابق صدر اور جنرل (ر)پرویز مشر ف کو بھی ان الیکشن میں مایوس کن نتائج
ملے۔ان کی الیکشن کمپئین بھی کچھ زیادہ مؤثر کن نہیں تھی۔پچھلے الیکشن کی
طرح اس الیکشن میں بھی انہیں میدان کھلا نہیں ملا۔بلکہ اس لحاظ سے زیادہ
مشکل پیش آئی کہ وہ وطن میں موجود نہ تھے۔انہیں عدالت نے الیکشن لڑنے کے
لیے نااہل قراردے دیا تھا۔ انہیں پارٹی قیادت سے بھی دستبردار ی اختیارکرنا
پڑی۔ ان حالات میں اگر ان الیکشن میں کچھ نہیں حاصل ہوا تو حیرت کیسی۔اپنے
ووٹرز سے ان کی اپیل تھی کہ انہیں انتقامی طور پر وطن سے باہر رکھا گیا
ہے۔قوم ان کے بے مثال کامیابی والے دور کو واپس لانے کے لیے انہیں ووٹ
دیں۔وہ اپنے مثالی کامیاب دور کا واسطہ دے رہے ہیں۔حالانکہ پاکستا ن کو اسی
دور میں دہشت گردی فروغ ملا۔وہ انتقامی طور پر وطن سے باہر بھجوائے جانے کا
واویلہ کررہے ہیں۔حالانکہ وہ ازخود گئے ہیں۔ بڑی مشکل سے بڑی فرمائشوں اور
سفارشوں سے باہر جانے کی اجازت ملی۔ان کی واپسی کے لیے بھی چیف جسٹس صاحب
نے بڑی ہلاشیریاں دی مگر انہیں واپسی کا حوصلہ نہیں ہوا۔اب اگر ان کی پارٹی
الیکشن ہار گئی ہے۔تو حیرت کیسی ۔ الیکشن 2018کے نتائج نوازشریف کے لیے کسی
صدمے سے کم نہیں۔انہوں نے ان الیکشن مین اپنی جماعت کی کامیابی کے لیے بڑا
رسک لیا تھا۔اپنی بیٹی سمیت وطن واپسی اور جیل میں جانا قبول کرنا معمولی
رسک نہ تھا۔انہوں نے پارٹی کی مضبوطی کے لیے یہ رسک لیا۔ان کی بجائے پرویز
مشر ف ایک جرنیل ہونے کے باوجود جیل جانے کے خوف سے منتیں سفارشیں کرواکے
وطن سے باہر چلے گئے۔میاں صاحب کے لیے توقع کے خلاف الیکشن ریزلٹ مایوس کن
ہیں۔وہ پاکستان کو ستر سالہ شیطانی چنگل سے آزاد کروانے کے متمنی
تھے۔الیکشن نتائج ان کی راہ میں حائل ہوچکے۔وہ بڑے ہوپ فل تھے ۔پرامید تھے
کہ کراچی والے امن امان لوٹ آنے پر مشکو رہونگے۔خیبر پختونخواہ والے دہشت
گردی کا طوفا ن تھم جانے پر احسا ن مند ہونگے۔پنجاب او ربلوچستان میں
ریکارڈ ترقیاتی کاموں پر ستائش ملے گی۔ایسا کچھ نہ ہوا۔سب کچھ فراموش کردیا
گیا۔یا شاید ان سب کو کہیں راستے ہی میں روک لیا گیا۔نوازشریف نے پچھلے
پانچ سال ذلت برداشت کی۔گالی گلوچ برداشت کیا۔ان کے پاکستان اور لند ن میں
گھروں پر ہلے بولے گئے۔اتنا زلیل کرنے کا مقصد تھا کہ وہ میدان چھوڑدیں۔وہ
ڈٹے رہے۔انہیں اندازہ تھاکہ اگر آ ج میں نے میدان چھوڑدیا تو کچھ گدھ او
ربھیڑیے مسلط کردیے جائیں گے۔انہوں نے اپنی تذلیل برداشت کی۔عدالتوں میں
ریکارڈ پیشیاں بھگتیں۔ا ن کے بے مثل استقامت بتاتی ہے کہ وہ قوم اور مملکت
پاکستان کے لیے اپنی ذات کی نفی کرنے پرآمادہ ہیں۔جانے کیوں الیکشن 2018میں
ان کی حوصلہ افزائی نہیں ہوئی۔ممکن ہے۔حوصلہ افزائی تو ہوئی ہو مگر اس کو
ہنرمندی سے توڑ مروڑ دیا
|