راقم اپنی بستی کے پولنگ اسٹیشن پر بطور پولنگ ایجنٹ
موجود تھا۔ ہمارے پولنگ پر تین پولنگ بوتھ تھے۔ اور قاعدہ کے مطابق ہر بوتھ
پر دو، دو بیلٹ بکس، ایک سبز ڈھکن والا قومی اور دوسرا سفید ڈھکن
والاصوبائی اسمبلی کیلئے،کل چھ بیلٹ بکسس تھے۔ پولنگ کا وقت ختم ہوا توبیلٹ
بکسس کو سیل کیا جانے لگا۔ بیلٹ بکس کو جس جگہ سے سیل کیا جاتا ہے۔ دو بیلٹ
بکسس اس جگہ سے ٹوٹےہوئےتھے۔ یعنی انہیں سیل کیا ہی نہیں جا سکتا تھا۔
حالانکہ پولنگ شروع ہوتے وقت تمام بیلٹ بکسس ہر طرح صحیح سلامت تھے۔
پریذائیڈنگ افسرکہنے لگا اب ان بیلٹ بکسس کا کیا کیا جائے۔ انہیں سیل تو
کیا ہی نہیں جا سکتا، یہ تو ٹوٹ چکے ہیں ؟
راقم نے عرض کی سر جس سے بھی یہ ٹوٹے، وہ بندہ تھا بہت انصاف پسندکہ اس سے
ایک قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کابیلٹ بکس ٹوٹا ۔ دونوں قومی یا دونوں
صوبائی اسمبلی کےبیلٹ بکسس نہیں ٹوٹے۔ بہرحال سر جب تک یہ باہر موجود ہیں ،ہم
لوگ کھلی آنکھوں سے پوری طرح ان کی نگرانی کریں گے۔ اور جب آپ گنتی کیلئے
انہیں اندر لے کر جائیں تو یہ دونوں بیلٹ بکسس ہم پولنگ ایجنٹس کی نظروں کے
سامنے رہنے چاہیے۔ کہ کہیں ان میں کسی قسم کی کو ئی برکت نہ ڈل جائے۔
لیکن جب گنتی کیلئے ان بیلٹ بکسس کو اندر لے جائے گیا تو ہمارے پرزور
مطالبے کے باوجود ہم لوگوں کو کوئی دس منٹ تک اندر نہیں جانے دیا گیا۔ اس
دوران ان بیلٹ بکسس پر کیا بیت گئی خدا جانے یا پولنگ سٹاف۔
کسی بڑی کارروائی ڈالنےکیلئے بظاہر یہ دس منٹ بہت کم وقت ہے، مگرپہلے سے
مہریں لگے بیلٹ پیپر ز کو بیلٹ بکسس میں ڈالنے کیلئے اتنا وقت بہت ہے۔
پھر گنتی کیلئے تقریباً پچیس فٹ بڑے کمرے کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اور حکم
ہوتا ہے کہ پولنگ ایجنٹس کمرے کی ایک طرف کی دیوار کے ساتھ بیٹھیں گے۔ اور
پولنگ سٹاف دوسری طرف کی دیوار کے پاس۔
اس پر راقم نے احتجاج کیا کہ سر اگر آپ اتنی دور بٹھائیں گے تو ہم لوگ
گنتی کے عمل کی نگرانی کیسے کر سکیں گے، پولنگ ایجنٹس اور ان لوگوں میں کیا
فرق ہے جو پولنگ اسٹیشن سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں؟
لیکن ہماری ایک نہیں سنی گئی۔ اور ہمیں کوئی بیس فٹ دور ہی بٹھایا گیا جہاں
سے ہمیں کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا کہ کون سی پرچی پر کس نشان پر مہر لگی ہے
اور اسے کس امیدوار کے کھاتے میں شمار کیا جا رہا ہے۔
گنتی کا عمل مکمل ہوا تو ہمیں کہا گیا کہ آپ لوگ رزلٹ لکھ لیں۔ ہم نے
مطالبہ کیا کہ ہمیں فارم 45 دیا جائے۔ مگر پریذائیڈنگ افسر نے فارم 45 دینے
سے صاف انکار کر دیا۔ اور کہا کہ فارم پنتالیس کسی صورت نہیں دے سکتا۔ ہاں
البتہ الیکشن کمیشن کے لیٹر پیڈ پر نتیجہ لکھ کر دے سکتا ہوں۔ اور پھر ایسا
ہی کیا گیا کہ تمام پولنگ ایجنٹس کو لیٹر پیڈ پر نتیجہ جاری کیا گیا۔ |