ایم ایم والے بڑے طیش میں ہیں۔مولانا فضل الرحمان ہوں یا
سراج الحق صاحب و دیگران سب کے خواب ٹوٹ چکے۔ان انتخابات میں وہ بڑی
کامیابی کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ایسی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ان کے
اتحاد کو زیادہ سیٹیں تو کیا ملنی تھی۔بڑے بڑے نام والے خود اپنی سیٹیں بھی
نہ بچاپائے۔بڑا طیش ہے۔بہت کچھ سوچا جارہاہے۔ہذیمت سے زیادہ رسوائی چھیڑ
رہی ہے۔اگر بڑی قیاد ت جیت جاتی تو بھلے ہی اتحاد زیادہ سیٹیں نہ لے پاتا،
زیادہ پریشانی نہ ہوتی۔تب اس ناکامی پر زیادہ تکلیف نہ ہوتی۔اب ایک تو اتحا
دکو ملنے والی نشستیں قابل فخر نہیں الٹا قیادت بھی ہار چکی۔ایسے میں اگر
دماغ میں گرمی نہ آئے تو کیا ہو۔مولانا صاحب نے بھر پور احتجا ج کی دھمکی
دے ڈالی ہے۔اس اتحاد میں شامل دوسری بڑی پارٹی جماعت اسلامی والے بھی اس
احتجاج میں پورا پوراحصہ ڈالنے پر مجبور ہوچکے۔سراج الحق کو جس انداز میں
شکست ہوئی۔اس کے بعد ان کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہ رہا کہ مولانا
صاحب کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوجائیں۔
مرکز اور کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت بننے کی راہ میں بظاہر کوئی
رکاوٹ نہیں، باقی تین صوبوں میں کوں حکومت بنائے گا۔اس کا اندازہ لگانا بھی
مشکل نہیں۔سندھ میں صد فی صد پی پی کی حکومت بنے گی۔وہ کسی کی محتاج
نہیں۔پچھلے الیکشن میں اسے صوبائی اسمبلی میں 65نشتسٹیں ملی تھیں۔اس بار
اسے دس سیٹیں زیادہ ملی ہیں۔ اسے کسی دوسری جماعت کی بلیک میلنگ کا
ڈرنہیں۔بلوچستان میں اس باربھی روایتی حکومت بنے گی۔وہ روایتی حکومت جس میں
نام کسی جماعت کا شکل کسی کی اورجماعت کی اور حکم کسی تیسرے کا چلا
کرتاہے۔پچھلی بار بھی بظاہر حکومت مسلم لیگ ن کی تھی۔پھر راتو ں رات ق لیگ
والے حکمران بن گئے۔پھر کچھ دنوں بعد ایک نئی پارٹی قائم ہوگئی۔اورصوبائی
حکمران اس پارٹی کے وفادار بن گئے۔اس بار بھی تحریک انصا ف کی حکومت کے نام
پر آغاز کیا جائے گا۔پھر یہ حکومت اپنے پانچ سال پورے ہونے تک وہ سارے روپ
اپنائے گی جو اس سے قبل اپناتی رہی۔
پنجاب میں عددی توازن اس بار بالکل وہی ہے جو پچھلے الیکشن میں کے پی کے
میں تھا۔تب دو گروپوں کے پاس قریبا ایک جیسے نمبر ز تھے۔اگر مسلم لیگ ن کے
قائد میا ں محمد نواز شریف فراخ دلی کا مظاہر ہ نہ کرتے۔اور کے پی کے کی
وزارت اعلیٰ کا لالچ کرتے تو شاید یہ صوبہ وہاں پورے پانچ سال تک آئینی
بحران کا شکار رہتا۔دونوں گروپ بار بار ہارس ٹریڈنگ کا کھیل رچاتے۔باربار
حکومتیں بنتی بار بار ٹوٹتیں۔میاں صاحب نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا اور اس
قبیح عمل کی نوبت نہ آنے دی۔اس بار پنجاب میں کچھ اسی طرح کا نقشہ بن رہا
ہے۔مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو قریبا برابر برابر نشستیں حاصل ہیں۔ایک
بار پھر دونوں میں سے کسی ایک پارٹی کو فراخ دلی کا مظاہر ہ کرنا ہوگا۔اگر
ضد بازی کی گئی تو اگلے پانچ سال تک پنجاب خواہ مخواہ کی لڑائی کا اکھاڑہ
بنا رہے گا۔مرکز اور کے پی کے میں حکومت بنانے کے بعد اگرپی ٹی آئی پنجاب
میں اپوزیشن پر بیٹھنے کا فیصلہ کرلے تو شاید حالات میں بہتر کی امید لگائی
جاسکتی ہے۔ایک طرح کا چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم قائم ہوجائے گا۔پنجاب والے
مرکز سے چھیڑ چھاڑ سے گریز کریں اور مرکز والے پنجاب حکومت کو دیوار سے
لگانے کی سوچ نہ اپنائیں۔اگر تحریک انصا ف ضد بازی کرتی ہے۔پنجاب کو
زبردستی سے پانے کی کوشش کرتی ہے تو اس ضد بازی سے مسلم لیگ ن کے لیے
لاتعلق بیٹھے رہنا مشکل ہوگا۔
الیکشن 2018کے نتائج کا فارمولہ تیارکرنے والے نادانی میں بڑا بلنڈر
کربیٹھے۔ جو سیاسی ترتیب سامنے آئی ہے۔وہ تحریک انصاف کے فطری حلیفوں کے
آؤٹ ہوجانے اور اس جماعت کے پکے حریفوں کے آگے آجانا ہے۔تحریک انصاف کے بعد
جن جماعتوں کو زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ہے ان میں مسلم لیگ ن اور پی پی
ہے۔یہ ایسی جماعتیں ہیں جن سے تعاون عمران خان کی سیاست کی مو ت ہوگا۔جو
جماعتیں اینٹی نوازشریف ایجنڈے پر میدان میں تھیں۔سبھی کوناکامی ہوئی۔عوامی
تحریک نے الیکشن ہی نہیں لڑا۔جماعت اسلامی کو ایم ایم اے کی صورت میں کمزور
کردیا گیا۔تحریک لبیک والے خادم حسین رضوی بھی کچھ کمال نہ دکھا پائے۔نہ
ملی مسلم لیگ والے کوئی معجزہ دکھا پائے۔اس وقت میدان میں تحریک انصاف ایک
واحد بڑی جماعت کے طور پر موجود ہے۔اگر اس پر کڑا وقت آیا تو دور دور تک
کوئی اس کی کمک کے لیے موجود نہیں۔سب سے زیادہ بڑی پریشانی تب آئے گی۔جب
آئین سازی کا مرحلہ آئے گی۔جب نیا قانون بنانا ہوگا۔قومی اسمبلی میں تو
تحریک انصاف کو شاید دوتہائی حاصل ہوجائے۔مگر سینٹ میں موجود دونوں بڑی
جماعتیں پی پی اور مسلم لیگ ن کا تعاون نہیں مل پائے گا۔دونوں جماعتیں ان
الیکشن نتائج کو لے کر اس حد تک مشتعل ہیں کہ ان کی طرف سے رضاکارانہ تعاون
بعید ازقیاس ہے۔جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے پاس سینٹ میں جو نشستیں ہیں
ان کی حمایت پانا بھی عمران خاں کے لیے مشکل کردیا گیا۔منصوبہ سازوں سے
بلنڈر ہوچکا۔اس الیکشن کے نتائج سے صرف اور صر ف ایک جماعت مطمئن ہے۔اس کے
علاوہ ہر جماعت انگاروں پر لوٹ رہی ہے۔اگر تحریک انصا ف کی نشستیں زرا کم
کرکے اس جماعت کے ہم خیالوں میں بانٹ دی جاتیں تو شاید پانچ سال نکال لینا
آسان ہوجاتا۔ |