نئے پاکستان کے وزیر اعظم کے نام کھلا خط ........محترمہ
تعظیم ناز صاحبہ ایک نوجوان پاکستانی ہیں انہوں نے محترم وزیر اعظم جناب
عمران خان صاحب کے نام ایک خط لکھا ھے انکی تقریر سن میں بھی اسی خط کو چند
ترمیم کے ساتھ آپکی نظر کرو گا.....
آپ کی تقریر سنی، سن کر یقین کریں کچھ کچھ ہونے لگا، خصوصا وزیراعظم ہاوس،
گورنر ہاوس اور سادگی سے متعلق سن کر لگا کہ آپ میرے دل کی بات کر رہے ہیں۔
میں آپ کی توجہ کچھ بہت ہی اہم معلومات کی طرف مبذول کروانا چاتی ہوں، مجھے
قوی امید ھے کہ جسے پڑھ کر میں خود بھی کچھ دیر کے لئے ششدر رہ گی تھی آپکو
بھی یہ معلومات حیران ضرور کرے گی....
خان صاحب آپ جس سادگی کو اپنانے کی بات کر رہے ہیں ، اس وقت۔۔۔
(1) ﮐﻤﺸﻨﺮ ﺳﺮﮔﻮﺩﻫﺎ ﮐﯽ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﮔﺎﮦ تقریباً ﺍﯾﮏ ﺳﻮ 4 ﮐﻨﺎﻝ ﭘﺮ ﻣﺤﯿﻂ ﻫﮯ ﯾﮧ
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ بھی ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻣﻼﺯﻡ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﮔﺎﮦ ﻫﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﮕﮩﺪﺍﺷﺖ
ﻣﺮﻣﺖﺍﻭﺭ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﮯﻟﯿﺌﮯ 33 ﻣﻼﺯﻡ ﻫﯿﮟ...
(2) ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻧﻤﺒﺮ ﭘﺮ ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺳﺎﮨﯿﻮﺍﻝ ﮐﯽﮐﻮﭨﻬﯽ ﺁﺗﯽ ﻫﮯ جسکا ﺭﻗﺒﮧ تقریباً 98
ﮐﻨﺎﻝ ﻫﮯ
(3) ﮈﯼ ﺳﯽ ﺍﻭ ﻣﯿﺎﻧﻮﺍﻟﯽ ﮐﯽ ﮐﻮﭨﻬﯽ ﮐﺎ ﺳﺎﺋﺰ تقریباً 95 ﮐﻨﺎﻝ ھے..
(4) ﮈﯼ ﺳﯽ ﺍﻭ ﻓﯿﺼﻞ ﺁﺑﺎﺩ ﮐﯽ ﺭﮨﺎﺋﺶ تقریباً 92 ﮐﻨﺎﻝ ﭘﺮ ﺗﻌﻤﯿﺮﺷﺪﮦ ﻫﮯ..
(5) ﺻﺮﻑ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﮐﮯ ﺳﺎﺕ ﮈﯼ ﺁﺋﯽ ﺟﯿﺰ ﺍﻭﺭ 32 ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯿﺰ ﮐﯽ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﮔﺎﮨﯿﮟ
تقریباً 860 ﮐﻨﺎﻝ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞﮨﯿﮟ
(1)ﮈﯼ ﺁﺋﯽ ﺟﯽ ﮔﻮﺟﺮﺍﻧﻮﺍﻟﮧ تقریباً 70 ﮐﻨﺎﻝ
(2)ﮈﯼ ﺁﺋﯽ ﺟﯽ ﺳﺮﮔﻮﺩﻫﺎ تقریباً 40 ﮐﻨﺎﻝ
(3)ﮈﯼ ﺁﺋﯽ ﺟﯽ ﺭﺍﻭﻟﭙﻨﮉﯼ تقریباً 20 ﮐﻨﺎﻝ
(4)ﮈﯼ ﺁﺋﯽ ﺟﯽ ﻓﯿﺼﻞ ﺁﺑﺎﺩ تقریباً 20 ﮐﻨﺎﻝ
(5)ﮈﯼ ﺁﺋﯽ ﺟﯽ ﮈﯾﺮﮦ ﻏﺎﺯﯼ ﺧﺎﻥ تقریباً 20 ﮐﻨﺎﻝ
(6)ﮈﯼ ﺁﺋﯽ ﺟﯽ ﻣﻠﺘﺎﻥ تقریباً 18 ﮐﻨﺎﻝ ﺍﻭﺭ
(7)ﮈﯼ ﺁﺋﯽ ﺟﯽ ﻻﮨﻮﺭ تقریباً 15 ﮐﻨﺎﻝ ﮐﮯ ﻣﺤﻼﺕ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
(8)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﻣﯿﺎﻧﻮﺍﻟﯽ ﮐﺎ ﮔﻬﺮ تقریباً 70 ﮐﻨﺎﻝ
(9)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﻗﺼﻮﺭ تقریباً 20 ﮐﻨﺎﻝ
(10)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺷﯿﺨﻮﭘﻮﺭﮦ تقریباً 32 ﮐﻨﺎﻝ
(11)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﮔﻮﺟﺮﺍﻧﻮﺍﻟﮧ تقریباً 25 ﮐﻨﺎﻝ
(12)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﮔﺠﺮﺍﺕ تقریباً 8 ﮐﻨﺎﻝ
(13)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺣﺎﻓﻆ ﺁﺑﺎﺩ تقریباً 10 ﮐﻨﺎﻝ
(14)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺳﯿﺎﻟﮑﻮﭦ تقریباً 9 ﮐﻨﺎﻝ
(15)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺟﻬﻨﮓ تقریباً 18 ﮐﻨﺎﻝ
(16)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﭨﻮﺑﮧ ﭨﯿﮏ ﺳﻨﮕﻬﮧ تقریباً 5 ﮐﻨﺎﻝ
(17)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﻣﻠﺘﺎﻥ تقریباً 13 ﮐﻨﺎﻝ
(18)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﻭﮨﺎﮌﯼ تقریباً 20 ﮐﻨﺎﻝ
(19)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺧﺎﻧﯿﻮﺍﻝ تقریباً 15 ﮐﻨﺎﻝ
(20)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﭘﺎﮐﭙﺘﻦ تقریباً 14 ﮐﻨﺎﻝ
(21)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺑﮩﺎﻭﻟﭙﻮﺭ تقریباً 15 ﮐﻨﺎﻝ
(22)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺑﮩﺎﻭﻟﻨﮕﺮ تقریباً 32 ﮐﻨﺎﻝ
(23)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺭﺣﯿﻢ ﯾﺎﺭ ﺧﺎﻥ تقریباً 22 ﮐﻨﺎﻝ
(24)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﻟﯿﮧ تقریباً 6 ﮐﻨﺎﻝ
(25)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺭﺍﻭﻟﭙﻨﮉﯼ تقریباً 5 ﮐﻨﺎﻝ
(26)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﭼﮑﻮﺍﻝ تقریباً 10 ﮐﻨﺎﻝ
(27)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺟﮩﻠﻢ تقریباً 6 ﮐﻨﺎﻝ
(28)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺍﭨﮏ تقریباً 29 ﮐﻨﺎﻝ
(29)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺧﻮﺷﺎﺏ تقریباً 6 ﮐﻨﺎﻝ
(30)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺑﻬﮑﺮ تقریباً 8 ﮐﻨﺎﻝ
(31)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺭﺍﺟﻦ ﭘﻮﺭ تقریباً 37 ﮐﻨﺎﻝ ﺍﻭﺭ
(32)ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﻧﺎﺭﻭﻭﺍﻝ تقریباً 10 ﮐﻨﺎﻝ ﮐﯽ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﻤﺎﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﭘﺬﯾﺮ
ﮨﯿﮟ
ویسے تو جس گورنر ہاؤس میں صرف ایک دن کے دودھ کا بل اٹھائیس ہزار بنتا ہے
اس سے جان چھڑانی ہی اچھی ہے..
لیکن گورنر کے عہدے کو ختم کرنے کے لیے لمبی چوڑی آئینی ترامیم کی ضرورت ہے
- جب کہ یہ ایک آسان سا اور انتظامی فیصلہ ہو گا کہ گورنر صاحب کو ڈیفنس یا
کسی اور پوش علاقے میں ایک دو ایکڑ کی کوٹھی میں منتقل کر دیا جائے اور
گورنر ہاؤس کو بیچ دیا جائے ....کیونکہ :
لاہور کا گورنر ہاوس تقریباً اکہتر ایکڑ رقبے پر واقعہ ہے - شاید کہا جا
سکتا ہے کہ یہ لاہور کی قیمتی ترین جگہ ہے - اکہتر ایکڑ میں گیارہ ہزار تین
سو ساٹھ مرلے ہوتے ہیں ..اگر ایک مرلے کی قیمت صرف بیس لاکھ روپے شمار کی
جائے جو وہاں کی ممکنہ قیمت کا نصف بھی نہ ہو، شاید تو بھی یہ قیمت بائیس
ارب روپے بنتی ہے -
...........
اسی طرح کراچی کا گورنر ہاؤس ہے جس کی قیمت لاہور کے گورنر ہاؤس سے کم نہ
ہو گی -
اس کے بعد پشاور کا گورنر ہاؤس بھی اربوں روپے کی زمین پر موجود ہے۔
سو ان تین گورنر ہاوسز کو بیچ کے ہی ڈیمز کی اچھی خاصی قیمت وصول کی جا
سکتی ہے۔
..............
اس کے بعد ہر ضلع کے ڈی سی ہاؤسز ہیں جن کے رقبے آپ کی سوچ سے بھی زیادہ
ہیں ، میں نے ایک بار اس حوالے سے بھی مضمون لکھا تھا ، اگر ملتا تو نقل
کرتی، آپ کی آنکھیں کھل جاتیں - یہ گھر بھی بعض جگہوں پر بیسیوں ایکڑ پر
مشتمل ہیں - جب کہ ایک ڈی سی نامی افسر عموماً چھے فٹ سے لمبا نہیں ہوتا ،
اس کا وزن بھی سو کلو کے لگ بھگ ہی ہوتا ہے ، سو اس شہر کی کسی بھی پوش
آبادی میں اس کو ایک یا دو کنال کے گھر میں "بند " کیا جا سکتا ہے کہ
"لیجئے صاحب قوم کی خدمت کیجئے۔ "
...
اور چلتے چلتے بتاتی چلوں کہ ہمارا وزیر اعظم ہاؤس قائد اعظم یونورسٹی سے
کچھ زیادہ ہی رقبے میں واقع ہے -
اچھا ایک اور بات یاد آئی کہ آپ نے پچھلے دنوں موبائل فون پر ٹیکس کٹوتی
ختم کی ...کہ جو ایک سو کے کارڈ پر بچیس روپے کے قریب تھی ، اگر بائیس کروڑ
کی آبادی میں صرف دو کروڑ افراد موبائل استعمال کرنے والے تصور کیے جائیں
اور ہفتے کا ایک کارڈ تو جناب یہی پچاس کروڑ روپے بنتا ہے ، جو اب حکومت کی
بجائے کمپنیوں کی جیب میں جا رہا ہے ...عوام کو کوئی خاص ریلیف نہیں ملا
..آپ اسے واپس بحال کر کے ڈیم کے لیے مختص کر لیں
...........
اگر گزری حماقتوں کا ذکر کریں گے تو رونے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا
...جیسا کہ اورنج ٹرین ہے جس پر دو سو ارب روپے سے زیادہ لگ رہے ہیں جو ایک
شہر کی صرف ایک سڑک ہے
..............
سوال یہ بھی ہے کہ یہ ہمارے لیڈر ، افسر اور رہنما کیسے ان تنگ گھروں میں
رہ سکیں گے تو بتاتی چلوں کہ :
بل گیٹس دنیا کا امیر ترین شخص ہے، دنیا میں صرف 18 ممالک ایسے ہیں جو دولت
میں بل گیٹس سے امیر ہیں، باقی 192 ممالک اس سے کہیں غریب ہیں، لیکن یہ شخص
اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتا ہے، وہ اپنے برتن خود دھوتا ہے. وہ سال میں ایک
دو مرتبہ ٹائی لگاتا ہے اور اسکا دفتر مائیکروسافٹ کے کلرکوں سے بڑا نہیں-
وارن بفٹ دنیا کا دوسرا امیر ترین شخص ہے۔ اسکے پاس 50 برس پرانا اورچھوٹا
گھر ہے، اسکے پاس 1980ء کی گاڑی ہے۔
برطانیہ کے وزیراعظم کے پاس دو بیڈروم کا گھر ہے۔
جرمنی کے چانسلر کا ایک بیڈ روم اور ایک چھوٹا سا ڈرائنگ روم سرکاری طور پر
ملا ہے -
اسرائیل کا وزیراعظم دنیا کے سب سے چھوٹے گھر میں رہ رہا ہے -
ﺻﺮﻑ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﮐﮯ ﺍﻥ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻣﺤﻼﺕ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﻣﺮﻣﺖ ﺍﻭﺭ ﺗﺰﺋﯿﻦ ﻭ ﺁﺭﺍﺋﺶ ﭘﺮ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ 80
ﮐﺮﻭﮌ ﺭﻭﭘﺌﮯ ﺳﮯ کچھ ﺍﻭﭘﺮ ﺧﺮﭺ ﮨﻮﺗﮯ ہیں۔
ﺟﻮ ﻻﮨﻮﺭ ﮐﮯ ﺗﯿﻦ ﺑﮍﮮ ﮨﺴﭙﺘﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻻﻧﮧ ﺑﺠﭧ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﻫﮯ۔
2 ﮨﺰﺍﺭ 6 ﺳﻮ 6 ﮐﻨﺎﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﺍﻥ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﮔﺎﮨﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﮕﮩﺪﺍﺷﺖ ﮐﯿﻠﯿﺌﮯ 30 ﮨﺰﺍﺭ
ﮈﺍﺋﺮﯾﮑﭧ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮈﺍﺋﺮﯾﮑﭧ ﻣﻼﺯﻣﯿﻦ ﮨﯿﮟ۔
ﺻﺮﻑ ﺍﻥ ﮐﮯ گھاس کے ﻻﻧﻮﮞ ﭘﺮ 18 ﺳﮯ 20 ﮐﺮﻭﮌ ﺭﻭﭘﺌﮯ ﺳﺎﻻﻧﮧﺧﺮﭺ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﯾﮏ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﺍﻧﺪﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﯾﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﮔﺎﮨﯿﮟ ﺷﮩﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺍﻥ ﻣﺮﮐﺰﯼ ﻋﻼﻗﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺘﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﯿﮟ۔
ﻟﮩﺬﺍ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﮔﺎﮨﯿﮟ ﺑﯿﭻ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﯿﮟ( یا انہیں بھی عوامی فوائد کے
لئے مختص کر دیں) ﺗﻮ 70 ﺳﮯ 80 ﺍﺭﺏ ﺭﻭﭘﺌﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﺭﻗﻢ ﻭﺍﭘﮉﺍ ﮐﮯ
ﻣﺠﻤﻮﻋﯽ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﺩﻭﮔﻨﯽ ﻫﮯ ﮔﻮﯾﺎ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺭﮨﺎﺋﺸﯿﮟ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺭﻗﻢ ﻭﺍﭘﮉﺍ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺩﯼ
ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻭﺍﭘﮉﺍ ﮐﻮ ﭼﺎﺭ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﺑﮍﻫﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﯽ۔
ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺭﻗﻢ ﮨﺎﺋﯽ ﻭﮮ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﻮﭨﺮﻭﮮ ﺟﯿﺴﯽ ﺩﻭ ﺳﮍﮐﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﺳﮯ
ﭘﺸﺎﻭﺭ ﺗﮏ ﻧﯿﺸﻨﻞ ﮨﺎﺋﯽ ﻭﮮ ﺟﯿﺴﯽ ﻣﺬﯾﺪ ﺍﯾﮏ ﺳﮍﮎ ﺑﻨﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﻫﮯ۔
ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺭﻗﻢ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﺻﺤﺖ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ "
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺍﻧﺴﭩﯿﭩﯿﻮﭦ ﺁﻑ ﻣﯿﮉﯾﮑﻞ ﺳﺎﺋﻨﺴﺰ " ﺟﯿﺴﮯ 70 ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﺑﻨﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﻫﮯ۔
ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺭﻗﻢ " ﻭﺍﺭﺳﺎ " ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺭﻗﻢ ﺳﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ
ﺻﺎﻑ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ 12 ﭘﻼﻧﭧ ﻟﮕﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﻫﮯ۔ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ 45 ﻓﯿﺼﺪ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﺎ
ﭘﺎﻧﯽ ﻣﻞ ﺳﮑﺘﺎ ﻫﮯ۔
ﺩﻧﯿﺎ ﺑﻬﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﺭﮨﺎﺋﺸﯿﮟ ﺳﮑﮍ ﺭﻫﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺁﭖ ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ 10
ﮈﺍﻭﺋﻨﮓ ﺍﺳﭩﺮﯾﭧ ( ﻭﺯﯾﺮﺍﻋﻈﻢ ) ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﭼﯿﻒ ﮐﻤﺸﻨﺮ ﺗﮏ ﺍﻭﺭ ﮈﭘﭩﯽ ﺳﯿﮑﺮﭨﺮﯼ ﺳﮯ
ﮈﭘﭩﯽ ﻭﺯﯾﺮﺍﻋﻈﻢ ﺗﮏ ﺳﺐ ﺍﻓﺴﺮ ﺍﻭﺭ ﻋﮩﺪﯾﺪﺍﺭ ﺩﻭ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ ﺗﯿﻦ ﮐﻤﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻓﻠﯿﭩﺲ ﻣﯿﮟ
ﺭﮨﺘﮯ ﺩﮐﻬﺎﺋﯽ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ۔
ﺁﭖ ﺍﻣﺮﯾﮑﺎ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﻭﮨﺎﺋﭧ ﮨﺎﻭﺱ ﺩﯾﮑﻬﯿﮟ،
ﺻﺪﺍﺭﺗﯽ ﻣﺤﻞ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﮐﮯ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﮨﺎﻭﺱ ﺳﮯ ﭼﻬﻮﭨﺎ ﻫﮯ
ﺟﺎﭘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﺯﯾﺮﺍﻋﻈﻢ ﮨﺎﻭﺱ ﺳﺮﮮ ﺳﮯ ہے ﻫﯽ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﯾﮧ ﺑﮍﯼ ﺑﮍﯼ ﻣﻤﻠﮑﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺮﺑﺮﺍﮨﺎﻥ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺗﺤﺎﻝ ہے ﺭﻫﮯ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻣﻼﺯﻡ ﺑﯿﻮﺭﻭﮐﺮﯾﭧ
ﺍﻋﻠﯽ ﺍﻓﺴﺮ ﺍﻭﺭ ﻋﮩﺪﯾﺪﺍﺭﺍﻥ ﺗﻮ ﺁﭖ ﭘﻮﺭﺍ ﯾﻮﺭﭖ ﭘﻬﺮﯾﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﻋﺎﻡ ﺑﺴﺘﯿﻮﮞ ﮐﮯ
ﻋﺎﻡ ﻓﻠﯿﭩﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻡ ﺷﮩﺮﯾﻮﮞ ﮐﯽﻃﺮﺡ ﺭﮨﺘﮯ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔
ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﻬﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻻﻥ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮ ﻭﮮ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﻟﻤﺒﮯ ﭼﻮﮌﮮ ﻧﻮﮐﺮ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮩﺎﮞ ﺁﭖ ﺍﯾﮏ ﺿﻠﻊ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺿﻠﻊ ﮐﺎ ﺩﻭﺭﮦ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﮍﯼ ﻋﻤﺎﺭﺗﻮﮞ
ﺗﻤﺎﻡ ﺑﮍﮮ ﻣﺤﻼﺕ ﻣﯿﮟ ﺿﻠﻊ ﮐﮯ ﺧﺎﺩﻣﯿﻦ ﻓﺮﻭﮐﺶ ﻧﻈﺮ ﺁﺋیں گے۔
ﺧﻠﻘﺖ ﺧﺪﺍ ﻣﺮ ﺭﮨﯽ ﻫﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﻓﺴﺮ ﭨﯿﮑﺴﻮﮞ ﮐﯽ
ﮐﻤﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﭘﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﺎﻏﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﻬﻮﻟﮯ ﮈال کر بیٹھیں ہیں۔
میرے نئے پاکستان کے نئے وزیراعظم میرے دل کے بہت قریب اور میرے قابل
احترام محترم عمران خان صاحب اگر ان سرکاری عمارتوں کو فروخت نہیں کرنا تو
براۓ مہربانی جہاں جہاں یہ عمارتیں موجود ہیں وہاں وہاں انکو سکول, ہوٹل,
میں اور سب زیادہ اور قابل احترام عمل یہ ھے کہ ان عمارتوں کو سرکاری
ہسپتالوں میں تبدیل کر دیا جاۓ.....
کیونکہ آپ نے خود سے شروع کرنے کا عندیا دیا ہے، تو مجھے امید ہے، کہ ان
صاحبان کو بھی اعتراض کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہئے۔
امید ہے کہ نیا پاکستان سب کے لئے، برابر، اور عوام دوست ہو گا۔
|