موت ایک ٹھوس اور اٹل حقیقت ہے۔ کوئی اس سے بچ نہیں سکا
کیوں کہ یہ طے ہے کہ ہر ذی روح اور ہر شے فنا ہونے والی ہے۔ جو آیا یا بنا
ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ کوئی جلد اور کوئی کچھ مدت کے بعد باقی نہیں رہے گا۔
کسی چیز کو ہمیشگی حاصل نہیں۔ فنا اس کا مقدر ہے۔ باشعور محلوق خصوصا انسان
جو زمین پر خدا کا خلیفہ ہے اسے بھول کر دنیا اکٹھی کرنے میں مصروف ہے۔
میں اور تو کے گرفتی نواب چھبن کا شہباد حق ہو گیا۔ دفن کفن کی رسومات سے
فراغت کے بعد بھورے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ افسوس کے ساتھ ساتھ شہباز کی تعریف
میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جا رہے تھے۔ افسوس کے لیے شہر بھر کے شورےفا
تشریف فرما تھا۔ ان میں سے ایک بانٹکا نواب صاحب کا کن قریب بولا: نواب
صاحب کے شہباز کی کیا بات تھی۔ ایک بار دشمن پر آفت بن کر ٹوٹا ٹوکری پروں
کی اکھاڑ لایا۔ ہر طرف سے داد و تحسین کے نعرے بلند ہوئے۔ دھرو کی بات
دیکھیے ان میں کوئی نہ بولا اوئے ایک بٹیر پر پروں کی ٹوکری کہاں سے آ گئی۔
اسی نوعیت کی اور بہت سے قصے سننے میں آئے۔ نواب صاحب سر ہلائے جا رہے تھے
ان کا سر فخر سے تنا ہوا تھا۔ گردن میں رائی کے دانے کے برابر خم نہ تھا۔
یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہا۔ آخری کلام نواب صاحب کے سائیس کا تھا۔ وہ
کچھ یوں پہونکا: ایک روز میں نے بیگی جوڑی۔ رفتار حد سے گزر رہی تھی۔ میں
حیران رہ گیا دیکھا آگے گھوڑے نہیں شہباز جوڑا ہوا تھا۔ ہر طرف سے واہ واہ
واہ کے آوازے بلند ہوئے۔ نواب صاحب بھی سرور میں آ گئے اور انعام میں پانچ
رائج الوقت سکے دان کیے۔ آخر میں مہمانوں کی خوب تواضع کی گئی۔
نواب صاحب کی حرام کی کمائی تھی۔ لوگوں سے چھینا اپنے جی حضوریوں پر خرچ کر
رہا تھا۔ شاہ کی جی حضوری کے صلہ میں اسے بیسیوں جی حضوریے میسر آئے تھے۔
|