گیارھویں جنرل الیکشن بھی دھاندلی کے الزامات کی زد میں

پاکستان کی سیاسی تاریخ کے گیارھویں جنرل الیکشن اختتام پزیر ہوئے عوام نے ایک بار پھر اپنا حق رائے دہی اور قومی فریضہ انتہائی احسن انداز میں شدید ترین حبس کے موسم میں ادا کر کے ثابت کر دیا کہ پاکستانی عوام جمہوریت کا تسلسل چاہتی ہے سانچ کے قارئین جانتے ہیں کہ میں نے گزشتہ دنوں لکھے کالموں میں بارہا اس بات کا تذکرہ کیا تھا کہ سابقہ سیاسی روایات کے مطابق اَب کی بار بھی کامیاب ہونے والی پارٹی اور اُسکے لیڈر انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدار ی سے منعقد کروانے پر متعلقہ اداروں کومبارک بادیں دیں گے اور ہارنے والے دھاندلی دھاندلی اور ٹیکنیکل انداز میں مینڈیٹ چرانے کا الزام لگائیں گے آج جنرل الیکشن 2018کوگزرے اڑھتالیس گھنٹے ہونے کو ہیں ہارنے والی پارٹیوں اور امیدواروں کی جانب سے مخالف پارٹیوں اورامیدواروں کے خلاف دھاندلی کرنے کے الزامات زورو شور سے جاری ہیں میڈیا نے ان امیدواروں کی آواز گھر گھر پہنچانے میں اپنابھر پور حصہ ڈال رکھا ہے بلکہ اسے اورزیادہ متنازعہ بنانے میں سوشل میڈیا کا کردار سب سے اہم چل رہا ہے ہارنے والوں کے چاہنے والوں نے مخالفوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ایسے ایسے ذومعنی اور اخلاقیات کا جنازہ نکالتے تبصرے کیئے ہیں کہ الامان الاحفیظ ،بے دریغ سوشل میڈیا کے استعمال نے جہاں اور سماجی واخلاقی مسائل پیدا کر رکھے ہیں وہیں دوستوں رشتہ داروں کے درمیان سیاسی پارٹیوں کی حمایت میں معمولی اختلافات سے لے کر گالم گلوچ تک نوبت پہنچی کسی پارٹی کے بڑے لیڈر اور امیدواریا ناکام ہونے والوں نے آپکی چھوٹی چھوٹی خوشی غمی میں فوری شریک نہ ہونا ہے اور نہ ہوسکیں گے بس آپ نے اپنی ناسمجھی میں اپنے قریبی دوستوں رشتوں کوختم کر کے اپنی جانوں پر ظلم ضرور کیا ہے کسی بھی شخص کی کسی بھی پارٹی سے وابستگی اسکا جمہوری حق تو ہے لیکن کسی لیڈر یا امیدوار کی حمایت میں اپنے دوستوں رشتوں کو گنوا بیٹھنا کہاں کی عقل مندی ہے بزرگ بتایا کرتے ہیں کہ آج سے تیس ،پنتیس سال پہلے ایک گھر میں رہنے والے سب افراد کا متفقہ فیصلہ ہوا کرتا تھا کہ کس پارٹی کو سپورٹ کرنا اور ووٹ دینا ہے اور اسکا فیصلہ بھی گھر کا سب سے بڑا بزرگ کیا کرتا تھا ویسے بھی اُس وقت پارٹیاں بدلنے کی رفتار اتنی تیز نہ ہوئی تھی جتنی گزشتہ پندرہ بیس سال میں ہو چکی ہے جبکہ موجودہ دور میں بعض جماعتوں کے رہنماؤں نے اٹھارہ بیس سال کے نوجوانوں کو اپنے فیصلے خود کرنے اور اپنی مرضی سے مستقبل کی پلاننگ کرنے کے بارے خوب اُکسایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خودسری ،بداخلاقی 2013میں کسی حد تک کم اور 2018میں کچھ زیادہ دیکھنے کو ملی بعض گھروں میں ایک چھت تلے رہنے والے رشتوں نے اپنی اپنی مرضی کی پارٹیوں کو ووٹ ڈالا بات ہورہی تھی سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی کی تو میرے خیال میں وطن عزیز کی بہت بڑی آبادی یہ اچھی طرح جان چکی ہے کہ سوشل میڈیا پر جس طرح کی گالم گلوچ اور مخالف پارٹی کے چاہنے والوں کو القابات دیئے جاتے ہیں اُس کا تصور آج سے اٹھارہ بیس سال پہلے کسی نے کیا ہی نہ ہو گا مخالف امیدوار اور پارٹی کے رہنماکی خواتین کا تمسخر اُڑانا معمول بن چکا ہے بلکہ بات یہاں سے بھی آگے وٹس اپ گروپس میں انتہائی گھٹیا اور لچرفحش پوسٹ شیئر کرنے والے نام نہاد پڑھے لکھے اور معزز پیشوں سے منسلک لوگ کی بھی ہے جو اپنے آپ کو تعلیم یافتہ بھی کہتے ہیں ان کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ بہیودگی میں ڈگری بھی رکھتے ہیں،سانچ کے قارئین کرام !الیکشن میں دھاندلی وہاں وہاں ہوئی ہے جہاں جہاں جسکا امیدوار کامیابی حاصل نہیں کر سکا وہاں نہیں ہوئی جہاں وہ کامیاب ٹھہرا ،کیونکہ ہمارے خطہ میں شکست کو تسلیم کرنے کی اخلاقی جرات نہ ہے بطورسماجی ورکروصحافی مبصر کے میرا یہ پانچواں جنرل الیکشن تھا سابقہ انتخابات کی طرح اس بار بھی مجھے اپنے شہر اوکاڑہ کے کسی بھی پولنگ اسٹیشن پر جیسا کہ بیان کیا جارہا ہے دھاندلی ہوتی نظر نہیں آئی ہاں الیکشن سے پہلے پیدا کی گئی فضا کے رُخ پر جو ووٹ ڈالے جاتے ہیں انہیں پولنگ اسٹیشن پر دھاندلی نہیں کہا جاسکتا پریزائیڈنگ افسر سے ریٹر ننگ افسر تک امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس جس طرح لمحہ با لمحہ ساتھ ہوتے ہیں وہاں بڑے پیمانے کی دھاندلی بالکل ناممکن ہو جاتی ہے ہاں البتہ گنتی کے دوران مسترد کیئے گئے ووٹ اکثرری کاؤنٹنگ میں اضافہ کا سبب ضرور بن جاتے ہیں سال 2018میں جس طرح الیکشن کے دن سے پہلے ایک خاص جماعت کو کھل کر انتخابی عمل میں اپنی سرگرمیاں دیکھانے کا موقع نہ دیا گیا اور احتساب کے نام پر ایک ہی جماعت کو ٹارگٹ کیا گیا اُس پرجماعت کے رہنماؤں نے پری پول رگنگ کا الزام ضرور لگایا لیکن ان تمام تر الزامات کے باوجود تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی سرگرمیوں کی اجازت حاصل رہی ،25جولائی 2018کو منعقد ہونے والے جنرل الیکشن کی ایک خاص بات یہ رہی کہ میڈیا کے نمائندوں کو الیکشن کمیشن کی جانب سے ایکریڈیشن کارڈ اور کوڈ آف کنڈیکٹ دیا گیا لیکن اس کے باوجود اکثر پولنگ اسٹیشن پر سیکورٹی اہلکاروں نے صحافتی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں رکاوٹ ڈالی بعض پولنگ اسٹیشن پر ایکریڈیشن کارڈ ہولڈرزکو پریزائڈنگ افسران اور انتخابی عمل کو سر انجام دینے والے عملہ کے کام کا مشاہدہ کرنے سے بھی روکا گیااور صبح آٹھ بجے سے شام رزلٹ تک کے اجازت نامے کے باوجود چند منٹ کے بعد میڈیا پرسنز کو پولنگ اسٹیشن سے جانے کا کہتے بھی دیکھا گیا بعض جگہوں سے یہ شکایات بھی موصول ہوئیں کہ ایکریڈیشن کارڈ ہولڈرز کو پولنگ اسٹیشن میں ٖفوٹیج لینے پر بھی پابندی لگادی گئی جو کہ میڈیا پرسنزکی اپنی صحافتی حدود میں رہتے ہوئے صحافتی سرگرمیاں روکنے کا انتہائی غلط اقدام ہے علاقائی صحافیوں سے اس طرح کا رویہ نا قابل فہم ہے، بڑے بڑے اداروں میں بیٹھے معروف تجزیہ کاروں اور بھاری بھرکم تنخواہیں وصول کرنے والوں کو اپنے اپنے علاقوں سے مفت معلومات فراہم کرنے کا سبب یہ علاقائی صحافی ہی بنتے ہیں ،قارئین کرام ! اب کی بارقومی خزانے سے بیس ارب سے زائد الیکشن پراخراجات ہونے کے علاوہ کروڑوں روپے سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کی جانب سے لگائے گئے میرے وطن کے سیاسی رہنما اب جمہوریت اور ملک میں بسنے والوں کے لئے دیرپا اور مستحکم پالیسیاں بنانے پر توجہ دیں دوسرے کی جیت کو خوش دلی سے قبول کریں اور آئندہ کی جیت کے لئے اپنے منشور کو عملی جامع پہنانے کی کو شش کریں ٭

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 129 Articles with 133599 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.