پاکستان میں جب جب فوج نے مارشل لاء لگایا تب تب ہماری
عدالتوں نے اُسے تحفظ دیا۔بعض او قات تو وہ اختیار بھی عطا کر دیئے جو سائل
نے مانگے ہی نہیں تھے ۔ گزشتہ 1سال سے ملک میں خاموش عدالتی مارشل لاء نافذ
ہے معزز عدلیہ مقننہ بھی ہے عدلیہ تو ہے ہی. اس بار اسٹیلشمنٹ ماضی کے
احسانات کا بدلہ چکا رہی ہے۔ تیزی سے پنپتی ہوئی اس رائے کے حامل افراد کا
یہ خیال ہے کہ آئینی حدود اور اپنے اپنے دائرے سے باہر نکل کر دوسرے کے کام
میں مداخلت کرنا ریاست کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتی ہے جبکہ اُن کایہ بھی
کہنا ہے کہ ہمارے ہاں انصاف کا مطلب کسی کو ہدف بنانا اور اُسے کھڈے لین
لگانا ہے۔ کبھی انصاف کے نام پر PPP کو رگڑا دیا کبھی MQM کو اور اور آج
PMLNکو لیکن آج تک انصاف کے رگڑے میں نہ کوئی جج آیا اور نہ جرنیل جبکہ ایک
رائے اس کے بر عکس ہے جب آپ اپنا کام نہیں کریں گے تو کوئی تو کرے گا۔ چیف
جسٹس کیا برا کررہے ہیں۔ موبائل صارفین کو لوٹنے والی کمپنیوں ، ہسپتالوں
میں موجود مافیا پانی کی قلت خواجہ سراؤں کے مسائل جب حکومتیں حل نہیں کریں
گی تو کوئی تو کرے گا۔ ملک میں فوج اور عدلیہ غیر جانبدار ہے جبکہ عمران
خان کی لانڈری میں جیالے اور متوالے دھل کر حکومت میں آئیں گے اور وطن کو
عظیم سے عظیم تر بنائیں گے ۔ یہ دونوں آراء میرے لیے غیر اہم ہیں اور بے
معنی ہیں کیونکہ ایک کچے گاؤں کے چھوٹے سے مکان میں بسنے والا حمید بلوچ
میرے نزدیک اصل موضوع ہے۔9 سال کی عمر سے گرمیوں میں برف اور سردیوں میں
لنڈے کے کوٹ بیچنے والا یہ شخص اپنے اندر سن 47سے آء تک کی تاریخ سمیٹے
ہوئے ہے اسے ہر سیاسی واقعہ ہر رہنما کی تقریر غرض سب یاد ہے سرٹیفیکیٹ پر
ائمری کا بھی نہیں مگر علم ایسا کہ پروفیسر چپ ہو جائیں۔ اس غریب برف فروش
نے کبھی بھٹو کے جیالوں کا پونی پلا یا تو کبھی نواز شریف کے متوالوں کو
کبھی قاضی کے مظاہرین کو تو کبھی الطاف بھائی کے چہیتوں کو 4 لوگوں میں بحث
ہوئی تو اس نے محبت کے پھول کھلائے ۔ علاقے میں سب اسے خان چچا کہتے ہیں
انتخابات کے دنوں میں اُمیدواروں کے نعرے اور وعدے نہیں بس خان چچا کا
مشورہ چلتا ہے اور پھر خان چچا نہ کسی ڈیرے سے کھانا کھاتے ہیں نہ ہی کسی
سے کچھ طلب کرتے ہیں بلکہ وہ تو رہنماؤں کے حق میں نعرے لگانے والوں کو مفت
ٹھنڈا پانی پلاتے ہیں۔ خان چچا کی چار بیٹیاں ہیں پہلی ایم اے اسلامیات،
دوسری بی ایس انگلش، تیسری سلائی کڑھائی کی ماہر اور حافظہ جبکہ چوتھی ایف
ایس سی چاروں باپ کا سہارا ہیں تو باپ ، باپ کے ساتھ ماں بھی۔ اچانک حمید
بلوچ جیسا محنتی اور جفاکش ایک ایسے مرض میں مبتلا ہوا کہ جس کا علاج تو ہے
مگر خرچ 5سے 10لاکھ ۔ حمید بلوچ نے 14 اگست کے موقع پر 3بیٹیاں رخصت کرنی
ہیں۔ ڈاکٹر صاحب یہ تو بہت معمولی رقم ہے۔ 60سال برف بیچی ہے ہر سیاست دان
میرا دوست ہے بس پتہ لگنے کی دیر ہے۔ یہ تو کوئی ایک ہی شخص بندوبست کر دے
گا۔ بہت بھرو سہ ہے آپ کو ان سیاست دانوں پر؟ ہاں جی! یہ خان چچا خان چچا
کہتے نہیں تھکتے۔ ہر ڈیرے پر خان چچا کی برف جاتی ہے۔
تو پھر ٹھیک ہے آپ جب رقم کا انتظام کر لیں تو مجھے بتا دیجئے گا ۔ باقی سب
میں خود ہی دیکھ لوں گا؟
کہتے ہیں کہ جب کوئی مان توڑے تو بہت افسوس ہوتا ہے۔ خان چچا اپنے بھرم ،
بھروسے اور توقعات لیے سب سے پہلے میاں کے متوالے شیر کے نشان پہ انتخاب
لڑنے اُس اُمیدوار کے پاس پہنچے جس کا دادا باپ اور وہ خان چچا کے پرستار
تھے جا کر مد عا بیان کیا اور دل ہی دل میں خوشخبری محسوس کرنے لگے۔ دکھ
ہوا آپ کی بیماری کا سن کر آپ کو پتہ ہے الیکشن میں ایک لمحے کی فرصت نہیں،
آپ کو پتہ ہے نیب، عدالتیں سب ہمارے پیچھے ہیں، میاں صاحب ملک میں نہیں
فوری طور پر تو میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکوں گا۔ اتنے میں اُمیدوار کا
اکا ؤنٹنٹ آیا اور کہا کہ صاحب وہ میڈم جہاں آرا ء کا فون آیا تھا آپ نے
موسیقی کے فنکشن کیلئے اُمید وارنے بات کاٹتے ہوئے کہا ہاں ہاں اُنہیں فوری
5 لاکھ روپیہ پہنچاؤ اُنہیں کون نہ کر سکتا ہے۔ خان چچا کو سمجھ آگیا وہ
اُٹھ گئے اور کہا کہ میاں صاحب تو سنا ہے کہ خدا ترس انسان ہیں لیکن اُن کے
اُ میدوار تو تصویر کا دوسرا رخ ہیں اگلے روز وہ متوالے سے مایوس ہونے کے
بعد تیر کے نشان پر لڑنے والے ایک بہت بڑے جاگیر دار شاہ صاحب کے پاس پہنچے
شاہ صاحب نے لسی منگوائی اور کہا کہ میں آپ کے پاس آنے ہی والا تھا بھٹو کا
نواسہ بی بی شہید کا بیٹا بھٹو کے نام کو پھر سے زندہ کرنے کیلئے میدان میں
آچکا ہے۔ آپ ہمارے جیالے رہے ہیں ہمیں پھر آپ کی ضرورت ہے۔ شاہ صاحب اب کی
بار تومیری ضرورت اور مجبوری مجھے آپ تک لائی ہے اور اپنا سارا ماجرا سنایا
خان چچا یہ کوئی چیرٹی ٹرسٹ ہے یا فلاح و بہبود کا ادارہ یہ میرا ڈیرا
ہے۔ہم کاشت کار لوگ ہیں 100مربع زمین سے تو گھر اور سیاست نہیں چلتی اور آپ
امداد مانگ رہے ہیں میں جیت گیا تو زکوٰۃ و عشر کی وزارت پکی ہے پھر دیکھیں
گے آپ چاہیں تو کھانا کھا کے جائیے گا مجھے کمپین پہ نکلنا ہے برس ہا برس
خدمت کے عوض طنز کے یہ تیر خان چچا کے اعتماد پر ایک اور ضرب تھی اُسے
احساس ہونے لگا کہ یہاں بدلہ وفاکا بے وفائی کے سوا کیا ہے۔اُسے خیال آیا
کہ تبدیلی کی ہوا چل رہی ہے۔PTI پاکستان کا مستقبل ہے اور اُس کا اُمید وار
بھی اتنا امیر ہے کہ جس کی کوئی نظیر نہیں توقعات کا بوجھ کندھوں پر لادے
خان چچا انتخابی نشان بلے کے اُمیدوار کے پاس پہنچے تو ٹکٹوں کی تقسیم پر
کارکنوں کو لڑتے اور گالم گلوچ کرتے پایا اُمیدوار کو سلام عرض کرنے کے بعد
بھی بات شرو ع ہی کی تھی کہ وہ خان چچا پر برس پڑا گلیوں، محلوں میں برف
بیچنے والا آج اتنا معتبر ہوگیا کہ ہمارے برابر ببیٹھتا ہے۔ ووٹوں کا سیزن
کیا آیا سب کوپرلگ گئے ۔ تم ووٹ دو یا نہ دو اس بار فتح ہماری ہے۔ جن کے
کندھوں پر بیٹھ کر سب آئے انہوں نے یقین دلایا ہے کہ اس بار وہ ہمیں لائیں
گے۔چچا کو اندازہ ہو گیا کہ یہ کون سی تبدیلی ہے اور کیسے آئے گی؟ ناکامی
در ناکامی کا کڑوا ذائقہ چکھنے کے بعد اُس نے سوچا کہ آخری کوشش کے طور پر
دین کے علمبرداروں کو بھی آزمالے ۔MMA کے اُمید وار جو پیشے کے اعتبار سے
بیرسٹر تھے کے پاس پہنچا جہاں اُسے کھجوریں اور دودھ پیش کیا گیا۔ ووٹوں کی
بات چیت کے بعد بیرسٹر صاحب نے اُس کا پورا مدعا سنا لوگوں کے رویے پر دکھ
کا اظہار کیا کاش! میری جماعت آپ کی کوئی مدد کر سکتی ہم تو خود چند
مخیردوستوں کے تعاون سے اپنا خرچ چلا رہے ہیں۔ دعا کیجئے دینی اتحاد کو
کامیابی ہو آپ کا حق آپ کو دینے میں ذرا بھی دیر نہیں کریں گے ۔ فی الوقت
کیلئے عاجزانہ معذرت قبول کیجئے۔ حلقے میں انتخاب لڑنے والے چاروں
اُمیدواران کے رویوں سے خان چچا کو اندازہ ہو گیا کہ خدمت 60 سال ہو یا
100سال صلہ کوئی نہیں ۔ ابن الوقت لوگ مطلب کیلئے گدھے کو بھی باپ کہتے ہیں
اور مطلب نکل جائے تو باپ کو بھی گدھا کہتے ہیں بقول شاعر۔
کوڑے کھوہ نئیں مٹھے ہوندے
بھاویں سو سو من گُڑ پائیے
وہ افسردگی اور دکھ کے عالم میں گھر پہنچا اور اپنی چاروں بیٹیوں کوبلایا
پیاری بیٹیو! تمہارا باپ 9سال کا تھا تو برف بیچنے لگا آج 69 سال کا ہے تو
بھی برف ہی بیچ رہا ہے میں جب برف لے کر نکلتا تھا تو سب سے پہلے راستے میں
آنے والے ایک کچے مکان کی رہائشی بیوہ اور یتیم بچوں کی خاموشی سے برف دیتا
سارا دن خوب کمائی ہوتی اﷲ کے ساتھ کیا گیا یہ سودا خاموشی سے چلتا رہا۔ آج
اس لیے بتا رہا ہوں کہ تم اور تمہارے بچے اس عمل کو جاری رکھیں جہاں مجھے
اپنی عوام سے نا قابل بیان محبت ملی وہیں سیاسی رہنماؤں سے بے وفائی اور بے
عزتی ملی۔ تقدیر بدلنے کے دعویدار اپنی ذات کے حصار میں جکڑے ہوئے ہیں۔
منافقت ، جھوٹ اور گھمنڈ کا لبادہ اوڑھے اور گردنوں میں سریا رکھے ، ان
لوگوں کیلئے قائد اور اقبال نے یہ ملک نہیں بنایا تھا۔اتنے میں ڈاکیے نے
دروازہ کھٹکھٹایا اور ایک لفافہ حمید بلوچ کو دیا اُ س میں لکھا تھا میں
بیگم جہاں آراء مسز عزیز الحمن کئی سال سے گھرمیں سب آسائش ہوتے ہوئے بھی
آپ سے برف خریدتی رہی ۔ عزیز صاحب دنیا سے چلے گئے میرا کوئی بھروسہ نہیں
مجھے پتہ ہے کہ آپ خود دار آدمی ہیں آپ کی چار بیٹیاں ہیں خدارا امداد نہیں
بیٹیوں کیلئے سلامی کی مد میں 20لاکھ کا چیک بھجوا رہی ہوں قبول کیجئے خط
پڑھتے ہی خان چچا سجدے میں گر گئے شاید اﷲ نے بچیوں کے نصیب میں پیسہ تو
لکھ رکھا تھا لیکن باپ کے ہاتھ سے رخصت ہونا نہیں ۔ حمید بلوچ سجدہ شکر ادا
کرتے ہوئے ہمیشہ کیلئے دنیا چھوڑ گیا۔ علاقے کا ہر شخص اُس کے جنازے میں
شامل ہوا وہ چاروں اُمیدواران بھی۔ بڑی بیٹی پکار اُٹھی یہ چاروں صرف جنازے
میں اس لیے آئے ہیں کہ یہ آپ کی ہمدردی اور ووٹ لے سکیں ورنہ میرے باپ کے
ساتھ تو انہوں نے جو سلوک کیا وہ بے شرمی اور بے حیائی کی انتہا تھی لوگوں
کا سننا تھا کہ اُمیدواروں پر جوتوں انڈوں اور شیم شیم کے نعروں سے برس پڑے۔
سب دبک کر عوام کے ڈر سے نکل لیے ایسے کہ جیسے کوئی چور پولیس کے ڈر سے
بھاگتا ہے۔ خان چچا دنیا سے جاتے جاتے یہ پیغام دے گئے کہ اپنے مفاد کیلئے
گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے ظاہری انسان مگر کردار کے لوٹے پارٹیاں بدل کر
انداز بدل کر صرف اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر اپنا مستقبل بہتر بناتے
ہیں۔ نئے نعرے قبروں کی سیاست ، تبدیلی کے خواب اور مذہب کی آڑ مقصد سب کا
ایک ہی ہے اپنا مفاد شاعر نے کہا تھا کہ
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ اور بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
وفا اور بے وفائی کے کھیل میں وفا کے عوض بے وفائی ملنا طے شدہ اصول بن چکا
ہے۔ سب مفادات اور مطلب کا کھیل ہے باقی کچھ نہیں۔ آپ بھی ووٹ دیتے ہوئے
ذات ، برادری اور لچھے دار تقریروں کو نہیں سابقہ عمل اور کردار کو دیکھئے
گا ورنہ خان چچا کی طرح آپ بھی دوسروں سے لڑتے نعرے لگاتے پیر چھوتے موت کی
دہلیز تک پہنچ جائیں گے اور یہ آپ کو ٹشو پیپر کی مانند پھینک دیں گے پھر
آپ کو بھی کہنا پڑے گا ۔یہی وفا کا صلہ ہے تو کوئی بات نہیں۔
|