الیکشن کی گہما گہمی ،پولنگ ڈے اور پھر جیت کے جشن کی
فراغت کے بعد اتوار کی چھٹی کوغنیمت جانتے ہوئے فیکا صبح تڑکے ہی وارد
ہوا۔پہلے کی طرح جوش وجنون کم ،کچھ پھیکا پھیکا سا نظر آرہا تھا۔پوچھنے پر
کہنے لگا یار آپ لوگ ٹھیک ہی کہتے تھے ۔عمران خان یا پی ٹی آئی وہ نہیں ہے
جو ہم سمجھے تھے۔فیکا خود کلامی کے انداز میں بول رہا تھا۔ہمیں لگا کہ
پیپلزپارٹی ،قائد عوام بھٹوشہید اور شہید بینظیر بھٹو کے بعد اگر کوئی لیڈر
ہے تو عمران خان ہے۔میرے جیسے کم فہم بہت سارے جیالے پیپلزپارٹی چھوڑ کر پی
ٹی آئی میں آئے اور عمران خان کو بھٹو اور پی ٹی آئی کو پیپلزپارٹی کا
متبادل قرار دینے کی تبلغ کرنے لگے۔ایک نئی امید ،روشن صبح اور تبدیلی کے
نعرے کے ساتھ ہم وہی کچھ کر رہے تھے جو کبھی پیپلزپارٹی میں ہوا کرتا
تھا۔اشرافیہ کے بچوں اور خود اشرافیہ کی پی ٹی آئی میں غیرمعمولی دلچسپی
اور شرکت بھی ہمارے لئے تبدیلی ہی کی ایک شکل تھی کہ ایک طویل عرصے بعد
نوجوان طبقہ بھی سیاست کی طرف راغب ہوا ہے۔یہ بھی ایک بڑا پہلو تھا کہ
نوجوانوں کی اکثریت پی ٹی آئی کا حصہ ہے۔عوام میں مقبولیت بھی دیدنی ہے۔بہت
سارے عوامل ایسے تھے ۔جو ہمیں عمران خان میں بھٹو تلاش کرنے پر مجبور کرتے
تھے۔لیکن یہ سب کچھ حالیہ عام انتخاب سے پہلے تھا۔الیکشن ،جیت اور جیت کے
جشن کے بعد تحریک انصاف پیپلزپارٹی کا متبادل دیکھائی دی اور نہ عمران خان
میں ہمیں بھٹو کی پرچھائیاں دیکھنے کو ملی ہیں ۔ پیپلزپارٹی جیسا کچھ بھی
تو نہیں ہے۔فیکا خاموش ہوا تواس کے چہرے کے تاثرات مایوسی کی چغلی کھا رہے
تھے۔فیکے جیسے اور بھی بہت سارے لوگ ہیں۔جو عمران خان میں بھٹو تلاش کر رہے
تھے اور کر رہے ہیں ۔لیکن بھٹو کا عہد اور تھا اور عمران خان کا اپنا عہد
ہے۔سیاست،تبدیلی اور انقلابات عہد کے ہوتے ہیں۔اگر ہم عہد کے مطابق عمران
خان کی سیاست ،عام انتخابات میں عمران خان کی جیت کا تھوڑا سا باریک بینی
سے تجزیہ کریں تو عمران خان نے جو حکمت عملی اپنائی ،شاندار ہے۔اس عہد میں
عمران خان کو ایسے ہی کرنے کی ضرورت تھی۔وگرنہ سیاسی جگادری عمران خان سمیت
تحریک انصاف کو کب کے ہڑپ کر چکے ہوتے ہیں۔نوازشریف اور آصف زردای جیسے
ٹائیکون کے ہوتے ہوئے اپنی سیاسی جگہ اور شناخت بنانا عمران خان کا غیر
معمولی کارنامہ ہے۔یہی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو چاروں شانے چت کرکے
آج وزیراعظم کے منصب کیلئے کھڑے ہیں۔تجزیہ نگار اور سیاسی دانشور عمران خان
کو کئی حوالوں سے ہدف نقید بنا رہے ہیں ۔بلکہ اکثر کا کہنا ہے کہ عمران خان
پھس گیا اور معاملات سنبھال نہیں پائے گا۔اس کے برعکس جگادری قسم کے
سیاستدان پھس گے ہیں۔اس میں کسی قسم کے شک کی بات نہیں ہے کہ عمران خان
عوام کے تمام طبقات میں مقبول ہیں اور عوام کی بھرپور حمایت عمران خان کو
حاصل ہے۔یہی امر ہے کہ عام انتخابات میں جھرلوں بھی چل گیا اور عوام نے نظر
انداز بھی کر دیا ہے،اگر عوام کی عمران خان کو حمایت حاصل نہ ہوتی تو اس
وقت عوام سٹرکوں پر ہوتے ۔شہباز شریف ،فضل رحمن کی بات توجہ طلب ہوتی ۔دنیا
نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ پاکستانی عوام نے احتجاج کا راستہ اپنانے کی
بجائے جشن کو ترجیح دی ہے۔عوام نے جو ردعمل دیا ۔درست دیا ہے۔جن لوگوں نے
عمران خان کا درست مطالعہ کیا ہے ۔عمران خان کی حکمت عملی کوعہد کے مطابق
سمجھا ہے ۔وہ جانتے ہیں کہ ہیں کہ جو کچھ بھی ہوا ہے۔خواہ کچھ ناپسندیدہ
عمل بھی وقوع پذیر ہوئے ہیں ۔سب عہد کے تقاضے تھے ۔وگرنہ سیاست کے جارہ دار
پھر سے قابض ہو سکتے تھے۔مشکلات میں صرف فیکے جیسے لوگ ہیں ۔ جو عمران خان
میں مہاتیر محمد اور شہید بھٹو تلاش کر رہے تھے۔
|