بنی گالہ میں لمبی بیٹھکیں سجانے والے شاید اس اضطراب کو
بھول رہے ہیں جس نے حالیہ انتخابات کے بعد پورے ملک کو جکڑ لیا ہے مولانا
فضل الر حمن کی گھن گرج پر اس لیئے کان نہ دھرنا کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز
پارٹی عملاً انہیں جھنڈی کرارہے ہیں درست نہیں ہے مولانا فضل الر حمن اگر
اپنی ضد پر ڈٹے رہتے ہیں تو انتشار خوفناک حد تک بڑھ جائے گا اور عرصہ دراز
سے بحران در بحران کی کیفیت کا شکار یہ ملک اب مزید کسی امتحان کا ہر گز
ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا ۔
اضطراب کی ایک اور بڑی وجہ اکثریتی جماعت تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات
ہیں تحریک انصاف کو معمولی عددی اکثریت حاصل ہے جس کا تقاضہ یہ تھا کہ وہ
بالخصوص پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے اپنے امیدوار کی نامزدگی فوراًکردیتی
مگر یہ جماعت ابھی تک کے پی کے کا فیصلہ نہیں کرپائی ہے جہاں اسے واضح
اکثریت حاصل ہے تو پنجاب کس کھیت کی مولی ہے ۔ انتخابات سے قبل ہی تحریک
انصاف کے اندرونی اختلافات کھل گئے تھے ٹکٹوں کی تقسیم کے دوران تو یہ
اختلافات بدبو دینے لگے جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے درمیان جاری
رسہ کشی خوفناک حدتک بڑھ چکی ہے اور اب تو اندیشہ سر اٹھانے لگا ہے کہ کہیں
رسہ ہی نہ ٹوٹ جائے ۔
شاہ محمود قریشی روز اول سے تخت پنجاب کے آرزو مند تھے اسی لیئے انہوں نے
قومی اسمبلی کے ساتھ ملتان کی ایک صوبائی نشست پی پی 217 سے بھی انتخاب لڑا
لیکن اس حلقہ سے پارٹی ٹکٹ کے ایک اور خواہش مند محمد سلیمان بھی تھے بتایا
جاتا ہے کہ اس مخصوص حلقہ میں پارٹی کو فعال کرنے میں اس کارکن کا کلیدی
کردار تھا اور ٹکٹ کے اصل حقدار بھی وہی تھے مگر جب پارٹی نے ٹکٹ شاہ محمود
قریشی کی جھولی میں ڈالا تو محمد سلیمان نے اس حق تلفی پر علم بغاوت بلند
کردیا پارٹی کے فعال کارکنان بھی ان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوگئے جس کا نتیجہ
ان کی کامیابی اور شاہ محمود کے خوابوں کی بربادی کی صورت میں نکلا اس حلقہ
میں محمد سلیمان نے 35294 ووٹ لے کر میدان مارا جب کہ مد مقابل شاہ محمود
31716 ووٹ لے کر ہار گئے ۔ 25جولائی کی شام کو محمد سلیمان اور ان کے حامی
تو ایک صوبائی نشست جیتنے کا جشن منارہے تھے جبکہ شاہ محمود قریشی تخت
لاہور چھن جانے کا ماتم کررہے تھے ۔اب جبکہ محمد سلیمان جہانگیر ترین کے
جہاز میں بیٹھ گئے ہیں تو اس پر بھی شاہ محمود گرم توے پر جا بیٹھے ہیں ۔
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) 129 نشستوں کے ساتھ اکثریتی جماعت ہے لیکن تحریک
انصاف اپنی 123 اور اتحادی جماعت ق لیگ کی سات نشستوں کے ساتھ ایک نشست کی
عددی برتری پر کھڑی ہے ۔ اب 29 آزاد ارکان نے فیصلہ کن کردار اداکرنا ہے
اگر چہ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی پنجاب میں 6نشستیں جیتی ہوئی ہے مگر
تحریک انصاف پی پی کو گلے لگانے کیلئے تیار نہیں جبکہ پیپلز پارٹی کی قیادت
یہ اعلان کرچکی ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کا ساتھ نہیں دے گی لیکن اس اعلان کے
پہلو میں بھی کوئی اسرار ضرور چھپا ہوگا ورنہ پیپلز پارٹی پنجاب کے موجودہ
حالات میں فیصلہ ساز مخدوم احمد محمود کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے ہیں ۔
انتیس کامیاب آزاد اراکین میں سے ایک تو چوہدری نثار ہیں جو دو قومی نشستوں
پر شکست کے بعدشام غریباں منارہے ہیں جبکہ دوسرے ان کے دیرینہ ساتھی ملک
عمر فاروق بھی چوہدری نثار کے اشارے کے منتظر ہیں باقی ماندہ 27 ممبران میں
سے پندرہ کی ہمدردیاں تحریک انصاف، دس کی مسلم لیگ (ن) اور دو کی مسلم
لیگ(ق) کے ساتھ ہیں یہ بڑی پیچیدہ صورت حال ہے لیکن جہانگیر ترین کا جہاز
چل پڑا ہے اور وہ جوڑ توڑ کے ماہر ہیں اگر ان کا جادو چل گیا تو شاید ایک
دو دن میں وہ بڑی تعداد میں آزاد اراکین کو بنی گالہ کی سیر کرادیں گزشتہ
روز پہلی قسط میں چار اراکین کو وہ بنی گالہ کا پانی پلا چکے ہیں ۔
عمران خان نے گزشتہ روز لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست کھونے والی یاسمین
راشد سے بھی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے حوالہ سے طویل ملاقات کی ہے یاسمین
راشد چونکہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر پنجاب اسمبلی کی ممبر بننے جارہی ہیں
اس لیئے یہ خبر بھی گرم ہے کہ شاید وزارت اعلی کا قرعہ ان کے نام نکل آئے
مگر اصول پسندی کی سیاست کا دعوی کرنے والے عمران خان کیلئے یہ فیصلہ بھی
آسان نہیں ہوگا کیونکہ اس سے وہ ایک غلط روایت کو جنم دیں گے اور منتخب
ارکان میں مایوسی بڑھے گی پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ
کاروں کی اکثریت ماضی میں مخصوص نشستوں پر منتخب خواتین کی وزارتوں کے بھی
خلاف رہے ہیں کیونکہ وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہوئیں اور اس طرح عوام
کی جواب دہ نہیں ہیں جس طرح عوامی مینڈیٹ لینے والا رکن اسمبلی ،اب اگر
وزارت عظمی کے بعد پاکستان کاسب سے اہم اور طاقت ور منصب بھی ایک مخصوص
نشست کی حامل خاتون لے اڑتی ہے تو یہ جمہوری کلچر کیلئے کوئی اچھی مثال نہ
ہوگی ۔
پنجاب کی وزارت اعلی کیلئے تحریک انصاف کے عبد العلیم خان کے نام پر مشاورت
کرچکی ہے عبد العلیم خان کو جہانگیر ترین کی مکمل حمایت حاصل ہے لیکن چونکہ
شاہ محمود قریشی صوبائی نشست پر شکست کے بعد بھی ہارماننے کو تیار نہیں اور
ان کی خواہش ہے کہ پارٹی ضمنی انتخاب میں ان کو کسی صوبائی نشست سے کامیاب
کروائے اور پنجاب کی پگ ان کے سر باندھ دے ممکن ہے کہ یاسمین راشد کا مشورہ
بھی عمران خان کو انہوں نے ہی دیا ہو کیونکہ اگر پارٹی ان کے مطالبے پر سر
جھکالیتی ہے تو عارضی وزیر اعلی کیلئے یاسمین راشد سے بہتر یقینا کوئی نہیں
ہوگا لیکن شاہ محمود قریشی کی آرزو کی بیل منڈھے سر چڑھتی دکھائی نہیں دیتی
ہے بعض لوگ کہتے ہیں عبد العلیم خان کی کردار کشی کی جو مہم ان دنوں میڈیا
پر دکھائی دے رہی ہے اس کے پیچھے بھی کہیں نہ کہیں شاہ محمود ضرور ہیں ۔
پنجاب کی وزارت اعلی کا منصب انتہائی اہم ہے تحریک انصاف کو پنجاب اسمبلی
میں اس جماعت کا سامنا کرنا ہے جو دس سال تک پنجاب میں بلا شرکت غیرے
اقتدار کا جھولا جھولتی رہی ہے اور اس وقت بھی وہ ایک پارٹی کی عددی اکثریت
کے حساب سے پنجاب کی اکژیتی جماعت ہے تحریک انصاف اپنی اتحادی جماعت مسلم
لیگ (ق) کو بھی فراموش نہیں کرسکتی چوہدری پرویز الہی ماضی میں پنجاب کے
کامیاب وزیر اعلی رہ چکے ہیں اگر تحریک انصاف ان کے نام پر اتفاق کر جاتی
ہے تو میرے خیال میں وہ مسلم لیگ (ن) کو پہلے ہی قدم پر ناک آﺅٹ کردیں گے ۔
مسلم لیگ (ن) بھی وزارت اعلی گجرات چلے جانے سے خائف ہے چونکہ ان کو اس کے
نتائج کا بھرپور اندازہ ہے اسی لیئے مسلم لیگ(ن) نے بھی جھولی پھیلادی ہے
اور چوہدری برادران کو پیش کش کی ہے کہ وہ مسلم لیگ(ن) سے مل کر حکومت
بنالیں اور وزارت اعلیٰ بھی لے لیں وقت بہت بے رحم ہے 1997ءمیں مسلم لیگ(ن)
نے چوہدریوں کے اس حق پر بھاری مینڈیٹ کے زعم میں ڈاکہ ڈالا تھا اور آج
حالات ان کو چوہدریوں کے ہی در پر لے گئے ہیں ۔
|