تبدیلی کی ہوا اور نیا پاکستان

پچیس جولائی کواسلامی جمہوریہ پاکستان میں گیارہویں عام انتخابات ہوئے یہ ملکی تاریخ کے مہنگے ترین الیکشن تھے عام انتخابات کے انعقاد پر 21 ارب روپے سے زائد کے اخراجات آئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے پولنگ ایک ہی روز ہوئی انتخابات میں تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سمیت کل 122 سیاسی و مذہبی جماعتوں نے حصہ لیاالیکشن مہم کے دوران’’فضا اور ہوا‘‘پی ٹی آئی کے حق میں بنا دی گئی تھی اور آثار بتا رہے تھے الیکشن کا بڑا معرکہ پی ٹی آئی کے نام ہوگا الیکشن نتائج سامنے آئے تو خیبر سے کراچی تک ’’تبدیلی کی ہوا ‘‘نے ملک عزیز کے بڑے بڑے برج اڑا کر’’نیا پاکستان ‘‘بنانے کی بنیاد رکھ دی اوندھے منہ گرنے والے برجوں میں میں مولانا فضل الرحمن،محمود اچکزئی،اسفند یار ولی ،غلام احمد بلور،اکرم درانی،یوسف رضا گیلانی،قمرالزمان قائرہ،چوہدری نثارعلی خان،شاہد خاقان عباسی،طلال چوہدری،خواجہ سعد رفیق،عابد شیرعلی ،غلام مصطفی کھر،منظور وٹو،سید مصطفی کمال ،ڈاکٹر فاروق ستار،ذوالفقار مرزااور دیگر شامل ہیں حسب روایت جیتنے والے جشن اور ہارنے والے دھاندلی کا رونا رو رہے ہیں مولانا فضل الرحمن نے تو الیکشن کے فورا بعد آل پارٹی کانفرنس بلائی جس میں حلف نہ اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا اور انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے الیکشن کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کردیا اے پی سی میں مسلم لیگ ن بھی شامل تھی جس نے حلف نہ اٹھانے والی بات کو اہمیت نہ دیتے ہوئے پارلیمنٹ میں جانے کا فیصلہ کیا دوسری جانب پیپلز پارٹی نے انتخابی نتائج تو مسترد کئے لیکن ساتھ ہی پارلیمنٹ میں جانے کا بھی اعلان کرکے اے پی سی کے غبارے سے ہوا نکال دی -

پچیس جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں کچھ منفرد ریکارڈ بنے اور ٹوٹے جیسے پی ٹی آئی کے قائد عمران خان نے پانچ قومی اسمبلی کے حلقوں سے انتخاب لڑا اور سبھی حلقے اپنے نام کرتے ہوئے ایک نیا منفرد ریکارڈ قائم کیا جبکہ چکری کے چوہدری نثار پہلی بار قومی اسمبلی تک رسائی حاصل نہ کرسکے اور اپنی دونوں نشستوں سے پی ٹی آئی کے غلام سرور چیمہ سے شکست کھا گئے سابق اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا چھٹی بار قومی اسمبلی میں پہنچنے والی پہلی خاتون بن چکی ہیں سابق وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی نے مسلسل 9بار ایم پی اے منتخب ہوکر انوکھا ریکارڈ قائم کیا 2018ء کے انتخابات میں پورے ملک سے ایک ہی امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوا کشمورسے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما میر شبیر بجارانی سندھ کے حلقہ پی ایس 6 سے بلامقابلہ رکن سندھ اسمبلی منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی قیادت نے ایک سے زائد حلقوں میں الیکشن لڑا عمران خان کے سوا شہباز شریف اور بلاول بھٹو صرف ایک ایک نشست بچانے میں کامیاب ہوئے چیئر مین پی پی پی کا یہ پہلا الیکشن ہے خیبر پختون خواہ کی روایت رہی ہے کہ جس پارٹی نے حکومت کی اگلی بار اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن کے پی کے میں پی ٹی آئی نے سابقہ ریکارڈ توڑتے ہوئے دوسری بار پہلے سے بھی زیادہ نشستیں حاصل کرکے نیا ریکارڈ اپنے نام کیا عام انتخابات 2018کے قومی اسمبلی کے 270حلقوں میں 19حلقوں پر خواتین نے مردوں سے زائدتناسب میں ووٹ ڈالے ،صوبہ پنجاب کے 15، خیبرپختون خوااور سندھ کے 2 حلقوں میں خواتین نے مردوں سے زیادہ ووٹ ڈالے جبکہ بلوچستان کا کوئی حلقہ اس لسٹ میں شامل نہیں ہوسکاان 19حلقوں میں پاکستان تحریک انصاف کے 7،مسلم لیگ ن کے 5،پیپلزپارٹی کے 4مسلم لیگ ق کے 2،اور متحدہ مجلس عمل کا ایک امیدوارکارمیاب ہواہے
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے 270 حلقوں کے جونتائج جاری کئے ان کے مطابق قومی اسمبلی میں تحریک انصاف 115 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ، مسلم لیگ ن 65 نشستوں کیساتھ دوسرے نمبر پر ،قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی 43 نشستیں حاصل کرکے تیسرے نمبر پر ہ، متحدہ مجلس عمل(ایم ایم اے)نے12 ،آزاد امیدواروں نے 14 نشستیں حاصل کیں جبکہ ایم کیوایم نے 6 اورمسلم لیگ(ق)نے 4 نشستیں بلوچستان نیشنل پارٹی نے قومی اسمبلی کی 3،عوامی نیشنل پارٹی کی ایک ،جی ڈی اے 2، جمہوری وطن پارٹی ایک اورپاکستان تحریک انسانیت نے ایک ایک نشست اپنے نام کی، پیپلز پارٹی نے بھی کارکردگی میں بہتری دکھائی ہے اور 2013 کے مقابلے میں 14 نشستیں زیادہ حاصل کی ہیں اور اب ان کی تعداد 43 ہو گئی ہے پی پی پی کوقومی اسمبلی کی زیادہ نشستیں سندھ سے ملیں جبکہ پنجاب میں بھی چند سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی سندھ میں پی پی پی نے فقیدالمثال کامیابی حاصل کی حالانکہ سندھ میں ان کے مدمقابل جی ڈی اے نے پی پی کو خاصا ٹف ٹائم دیا عام انتخابات میں قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی ایک کروڑ 68 لاکھ 23 ہزار 792 ووٹوں کیساتھ سرفہرست ہے جبکہ مسلم لیگ (ن)ایک کروڑ 28 لاکھ 94 ہزار 225 ووٹوں کیساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ پیپلزپارٹی 68 لاکھ 94 ہزار 296 ووٹوں کیساتھ تیسرے نمبرپررہی،آزادامیدواروں نے 60 لاکھ 11ہزار 337 ووٹ حاصل کئے،تحریک لبیک نے قومی سطح پر 21 لاکھ 91 ہزار 679 ووٹ حاصل کیے اورمتحدہ مجلس عمل نے 25 لاکھ 30 ہزار 452 ووٹ حاصل کئے مذہبی ووٹ کی تقسیم سے مسلم لیگ ن کو نقصان اٹھانا پڑا تحریک لبیک یا رسول اﷲ چودہ حلقوں پہ اثر انداز ہوئی پی ٹی آئی مرکز کے ساتھ ساتھ کے پی کے اور پنجاب میں بھی اہم کامیابی حاصل کی سابق حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو سب سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا مرکز کے ساتھ ساتھ پنجاب کا اقتدار ہاتھ سے نکلتااور زمین سرکتی محسوس ہوئی-

تحریک انصاف قومی اسمبلی کی 272 نشستوں میں سے 115 نشستوں پہ کامیابی حاصل کرکے پہلی پوزیشن پہ کھڑی ہے مسلم لیگ ق ،ایم کیو ایم اور آزاد اراکین اسمبلی کو اپنے ساتھ ملا کر وفاق ، خیبر پختونخوا اور ممکنہ طور پر پنجاب میں بھی حکومت بنا نے کی پوزیشن میں ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا پنجاب میں حکومت سازی کیلئے ن لیگ کا مینڈیٹ تسلیم کیا جاتا کیونکہ جمہوریت کا حسن اسی میں ہے کہ کسی بھی پارٹی کا مینڈیٹ کو نہ چرایا جائے لیکن یہاں تحریک انصاف فراخدلی کا مظاہرہ نہ کر سکی کھینچاتانی شروع کر دی گئی اور خود ہی حکومت سازی کی کوششوں میں لگ گئی واضح رہے دو ہزار تیرہ والے الیکن میں یہی پوزیشن کے پی کے میں تھی پی ٹی آئی اکثریتی جماعت تھی مسلم لیگ ن نے کھلے دل سے پی ٹی آئی کو حکومت بنانے دی کاش آج پی ٹی آئی بھی اسی روایت کو برقرار رکھتی تو یقینا یہ ملک عزیز کے لئے نیک شکون ہوتادعا ہے کہ ’’تبدیلی کی ہوا ‘‘ میں بننے والا ’’نیا پاکستان ‘‘ امن و سلامتی کا گہوارہ بنے آمین

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 470076 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.