ملک میں دھماکہ خیز الیکشن اختتام پزیر ہوئے ۔نتائج کے
بعد پی ٹی آئی اکثریتی جماعت کے طور پر مرکز،کے پی میں سامنے آئی جبکہ
پنجاب میں تقریباًمسلم لیگ ن کے ساتھ ساتھ ہے ۔پی ٹی آئی کی فتح نے ملک میں
دو جماعتوں پی پی پی اور پی ایم ایل ن کی اجارہ داری ختم کردی ۔الیکشن سے
پہلے پری پول دھاندلی کی بازگشت ملکی وغیر ملکی میڈیا میں سنائی دیتی رہی ۔سیاسی
جماعتیں بھی اس کا رونا روتی رہیں یہ سلسلہ الیکشن والے دن بھی تھما نہیں ۔ملک
کی تمام بڑی جماعتیں بعض بے قاعدگیوں ،جانب داری ،دھاندلی کا رونا رورہی
ہیں آل پارٹیز کانفرنس نے احتجاج کی دھمکی میں حلف نہ لینے کا اعلان کیا
لیکن پی پی پی اور پی ایم ایل این نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا ۔ان کے
خیال میں اسمبلیوں میں بیٹھ کر اپنے موقف ،احتجاج کو زیادہ پزیرائی مل سکتی
ہے اور یہی جمہوری سوچ بھی ہے ۔قرضوں میں ڈوبے ہوئے ملک کو یہ الیکشن 21
ارب میں پڑا ۔بار بار یہ عمل دہرایا نہیں جاسکتا ۔ویسے بھی میں نے الیکشن
کے دن کئی پولنگ سٹیشنوں کا دورہ کیا کہیں بھی اکادکا معمولی نوعیت کی
شکایات کے علاوہ کوئی بڑی دھاندلی کاثبوت نہیں ملا یہی صورتحال ملک بھر میں
رہی عوام نے خالص کارکردگی اور تبدیلی کے لئے ووٹ دیا ۔کے پی کے میں عوام
نے پہلی بار تاریخ میں دوسری مرتبہ مسلسل حکمرانی کا حق کسی جماعت کو دیا
اب پی ٹی آئی کویہاں اپنی سابقہ غلطیوں کا تدارک کرنا ہوگا ۔کے پی میں اے
این پی کے رہنما غلام احمد بلور نے نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ میں
اپنی ہار کو تسلیم کرتا ہوں اور انہوں نے کہا کہ صوبے کے عوام عمران خان کو
پسند کرتے ہیں ایسے ہی رویے کی ملک کو ضرورت ہے ۔ہم اگر دھاندلی کا رونا
پیٹتے رہیں گے تو اس سے حاصل کچھ نہیں ہوگا ۔ہمیں اپنی غلطیوں کا تدارک
کرنا ہوگا اور اپنی کارکردگی کو بہتر کرنا ہوگا الیکشن 2018 کے بارے میں
ڈیرہ اسماعیل خان سے دو حلقوں این اے 38 اور این اے 39 پر الیکشن لڑنے والے
مولانا فضل الرحمٰن جو کہ بری طری پی ٹی آئی کے امیدوار علی امین گنڈہ وپر
اور شیخ یعقوب کے مقابلے میں شکست کھا گئے نے بڑا سخت موقف اختیار کیا ہے ۔انہوں
نے تمام تر نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اپنی ہار کو بھی
دھاندلی کا شاخسانہ قرار دیا ان کے بیان کے جواب میں علی امین خان گنڈہ پور
نے مولانا کی سیاست کو دفن کرنے کا اعادہ کیا۔انہوں نے کہا کہ میں نتائج کی
جانچ پڑتال کے لئے ہرطریقے کے لئے تیار ہوں ویسے مولانا کی شکست مکمل طور
پر ان کی کارکردگی انتہائی خراب اور عوام سے رابطہ نہ رکھنے کے باعث ہوئی ۔اس
میں دھاندلی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ میڈیا میں الیکشن کے بارے میں
مجموعی طور پر مثبت اشارے مل رہے ہیں ۔ غیر ملکی میڈیا کے ملے جلے تاثرات
میں انڈین میڈیا کے مطابق عمران خان کی حکومت فوج کے زیر اثر ہوگی ۔بعض
ناقدین کے نزدیک ان کی حکومت پاکستان کے عوام کی تبدیلی کی خواہش کی غماز
ہے ۔انڈین میڈیا نے الیکشن میں مذہبی سخت گیر اور انتہا پسند امیدواروں کی
شکست کو مثبت اقدام قرار دیا۔انہوں نے عمران خان کی ترجیہات میں معیشت کی
بہتری کو قرار دیا۔برطانوی وزیر خارجہ جریمی ہنٹ نے پاکستان میں جمہوریت کے
فعل کو خوش آئند قرار دیا ۔انہوں نے میڈیا پردباؤ ،کالعدم گروہوں سے وابسطہ
جماعتوں کے الیکشن لڑنے پر تحفظات کا اظہار کیا ۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کے
اقدامات کی تعریف کی ۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے الیکشن کے انعقاد پر
پاکستانی قوم کو مبارکباد دی اور نئی حکومت وعوام کے لئے نیک خواہشات کا
اظہار کیا ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بہتر اور مثبت اقدام کیے جبکہ
یورپی مبصرین کے چیف الیکشن مبصر مائیکل گالر نے کہا کہ آذادی اظہار پر
پابندیوں اور الیکشن مہم میں عدم مساوات نے لیگل فریم ورک کو متاثر کیا ۔انہوں
نے کہا کہ پولنگ سٹیشنوں پر سیکورٹی اہلکار اندر اور باہر موجود رہے تاہم
اختیارات صرف پریزائیڈنگ آفیسر کے پاس تھے ۔ووٹ ڈالنے کا عمل بہتر جبکہ
گنتی کے عمل میں دشواریاں رہیں ۔یورپی یونین نے کہا کہ سابقہ حکمران جماعت
یعنی پی ایم ایل ن کو منظم انداز سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ۔سکیورٹی
فورسز نے انتخابی عمل میں مداخلت نہیں کی ۔یورپی یونین نے 2018 کے الیکشن
کو 2013 کے مقابلے میں خراب جبکہ دولت مشترکہ نے بہتر قرار دیا ۔انہوں نے
2018 کے الیکشن میں الیکشن کمیشن کی تیاریوں کو بہترقراردیا جبکہ پاکستان
میں سب سے زیادہ اثر رکھنے والی سپر پاور امریکہ نے الیکشن سے قبل انتخابی
عمل میں خامیوں پر تحفظات کے ساتھ ساتھ نئی پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر
کام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ۔انہوں نے جنوبی ایشیاء میں امن واستحکام اور
خوشحالی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ۔انہوں نے لیگل فریم
ورک میں مثبت تبدیلیوں کے مطالبہ کے ساتھ ساتھ کالعدم جماعتوں کے الیکشن
میں حصہ لینے پر تشویش ظاہر کی اور انہیں مسترد کرنے پر خوشی کا اظہارکیا ۔
غیر ملکی میڈیا پر بھی عمران خان کی جماعت کی خبر نمایاں طور پر شائع کی
گئی جبکہ دوسرے دن عمران خان کے خطاب کو انڈین میڈیا سمیت مثبت انداز
قراردیاگیا ۔ان کے خطاب کو جو کہ لکھا ہوا نہیں تھا کو ملک کے اندر بھی
میڈیا اور عوامی سطح پر سراہا گیا اور مجموعی طور پر امید ظاہر کی گئی کہ
وہ ملک کے ابتر معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لئے تمام تروسائل بروئے کار
لائیں گے ۔عمران خان نے بھی غیر ملکی سرمایہ کار خاص کر خلیجی ممالک میں
مقیم پاکستانیوں کو یہاں لاکر سرمایہ کاری کی دعوت دی ،پی ٹی آئی کی حکومت
کے لئے اقتدار کی باگ دوڑ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ہے انہیں
بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہو گا جن میں مہنگائی ،کرپشن ،بے روزگاری ،توانائی
بحران ،بنیادی ضروریات زندگی کی عدم فراہمی ،صحت ،تعلیم کی ابتر صورتحال
،دہشت گردی ،پڑوسی ممالک سے تعلقات ،خارجہ پالیسی میں بہتری ودیگر قابل ذکر
ہیں ۔عوام کی خواہش ہے کہ مذکورہ مسائل میں کمی کرکے عمران خان تبدیلی کے
نعرے کو عملی جامہ پہنائیں ۔ |