الیکشن کے نتائج غیر متوقع نہیں۔اب یہ تحریک انصا ف کے
بڑے بول ہیں جو حکومت سازی میں مشکلات کا سبب بن رہے ہیں۔عمران خان نے سارے
بیر یہ بھی کٹھا ہے، یہ بھی خراب ہے کہہ کرپھینک چھوڑے تھے۔اب جب کہ حکومت
سازی کا مرحلہ ہے۔وہ انہی کھٹے اور خراب بیروں کو اکٹھا کرنے میں مصروف
ہیں۔پارلیمانی نظام میں اس قدر پیجیدگیاں ہوتی ہیں۔انہیں اندازہ نہ تھا۔وہ
تو چھومنتر کے قائل تھے۔سوچا تھا کہ حکومت ملی تو پہلے دن یہ کمال کردیں
گے۔پہلے ہفتے میں یہ عجوبہ ہوجائے گا۔پہلا مہینہ یہ انقلاب کرڈالے گا،وغیر
ہ وغیرہ اب جب کہ انہیں زمینی حقائق کا سامنا ہے تو انہیں اپنا یہ د ن،
ہفتے او رمہینے والا شیڈیول دھندلاتا دکھائی دے رہا ہے۔انہیں حکومت سازی کے
لیے مطلوبہ عددی قوت حاصل کرنی ہے۔اس کے لیے انہیں دیگر جماعتوں کا تعاون
درکارہے۔یہ جماعتیں رنگ رنگ کے مطالبات پیش کر کے پارلیمانی نزاکتیں واضح
کررہی ہیں۔
خاں صاحب اس طرح کی بارگین کے عادی نہیں۔پھر مطلوبہ تعداد پوری ہوجانے کے
بعد پارٹی کے اندر سے بھی ایک نئی جنگ شروع ہونا متوقع ہے۔تحریک انصا ف مال
غنیمت کے متلاشیوں کا ایک ہجو م ہے۔عمران خاں اس ہجوم کا محور بناتودیے
گئے۔مگراس ہجوم کی اکثریت خود کو خاں صاحب سے افضل تصور کرتی ہے۔اس اکثریت
من مانیاں بھی خاں صاحب کے دن،ہفتے،مہینے والے شیڈیول کی طوالت کا باعث
بنیں گی۔
سارے فساد کی جڑ پنجاب پر حکمرانی کی ضد ہے۔منصوبہ سازوں نے پنجاب میں
تحریک انصا ف کی حکومت بنانے کے لیے وافر انتظا م کردیاہے۔اب یہ وافر
بندوبست تحریک انصا ف کے ہجوم کے سبب زائل ہوجائے تو منصوبہ سازوں کا کیا
گناہ؟اس ہجوم میں ہر کوئی وزیراعلی ٰبننے کا متمنی ہے۔گورنری پر بضد ہے۔بڑی
بڑ ی وزارتوں کی اہلیت کا مدعی ہے۔تحریک انصاف اگر کوئی نظریاتی جماعت ہوتی
تو عمران جس بندے کو جو ذمہ داری سونپ دیتے۔وہ قبول کرلیتا۔باقی سب خاموشی
سے اس اپنی باری کا انتظار کرتے۔اب ایسا نہیں ہے۔یہ ہجوم خاں صاحب کو ہجوم
کا حصہ ہی سمجھتاہے۔اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔خیال کیا جارہا ہے کہ اگر پنجاب
ہاتھ سے نکل گیا تو آدھی پارٹی بغاوت کرجائے گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر پنجاب
میں حکومت بنا بھی لی جائے تو پھردوسرے کئی محاز کھل جاتے ہیں۔مسلم لیگ ن
اس وقت بڑی ڈری ڈری اور مصالحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے۔اگر پنجاب میں اسے
حکومت بنانے سے باز رکھاگیاتویہ جماعت اپنی بقا کے لیے متحرک ہوجائے
گی۔صوبے میں سب سے زیادہ عوامی مینڈیٹ ہونے کے باوجود اسے اقتدار سے محروم
کرنامعاملہ خراب کردے گا۔یہ محرومی وہ تازیانہ ہوگی۔جو اسے سڑکوں پر لے آئے
گا۔مسلم لیگ ن کو اس سلسلے میں بڑے بڑے گرکھوں کی سپورٹ حاصل ہوگی۔جو
الیکشن میں ہار نے کے بعد تفریح طبع کاموقع تلاش کررہے ہیں۔
کہنے اور کرنے میں جو فرق ہوتاہے۔ہم اس فرق کو نہ سمجھنے کی غلطی کرتے رہتے
ہیں۔اس بار بھی وہی غلطی ہوئی۔دونمبر سیٹ اپ کو اس قدر بھونڈے اندازمیں
مسلط کیا گیاہے کہ یہ زیادہ دیر تک چلتا نظر نہیں آتا۔ملک بھر کی سیاسی
جماعتیں دھاندلی کا الزام لگارہی ہیں۔سابق اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا
کہنا ہے کہ عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے کے لیے پینتیس نہیں فل پنکچر
لگائے گئے۔ایم ایم اے۔گرینڈ الائنس۔اے این پی۔مسلم لیگ ن۔سمیت تمام بڑی
جماعتیں الیکشن نتائج کو مستر دکرچکی۔مصلحتا خاموشی ہے مگر اس سکون کو
مستقل سمجھنے والے بھول میں ہیں۔خاموش رہنے والی جماعتیں کثیر تعداد میں
ہیں۔تحریک انصا ف کو یکا یکی پورے ملک پر مسلط کرنا غلطی ہی کہا جائے
گا۔اگر اسے مرکز میں حکومت دے دی جاتی۔صوبوں کو نہ چھیڑا جاتاتو عمران خاں
کے دعووں کے نتائج دیکھنا زیاد ہ آسان ہوتا۔جانے میں یا انجانے میں ایسے
انتخابی نتائج پیداکیے گئے جوتحریک انصا ف کو نت نئی مشکلا ت سے دوچارکررہے
ہیں۔ایک طر ف پارٹی کے اندر محاز آرائی کی کیفیت ہے۔دوسر ی طرف دوسری
جماعتوں والے پیچ وتاب کھارہے ہیں۔موقع کی تلاش میں ہیں۔ملک ایک گرداب میں
آ ن پھنسا ہے۔اس گردا ب سے وقتی طورپر تو چھٹکا رہ مل جائے گامگر مستقلا
جان چھوٹتی دکھائی نہیں دے ہی۔نوازشریف کو کھڈے لائن لگانے والوں کی عجلت
پسندی نے ملک کو بیس سال پیچھے لے جانے والا اقدام کرڈالا۔نوازشریف ایک
بارملک کو صحیح پٹر ی پر چڑھا چکے تھے۔امن وامان بہتر ہوچکا۔لوڈ شیڈنگ ختم
کردی گئی۔معیشت بہتر ہونے جارہی تھی۔سب کچھ بہتر ہورہاتھا۔پھر سب کچھ تلٹ
پلٹ کردیا گیا۔ملک اور قوم کی ترقی کو کچھ لوگوں کی اکڑ نے نگل لیا۔تحریک
انصا ف تبدیلی کی بات کررہی ہے۔ ملک کو بیس سال آگے لے جانا چاہتی ہے۔جب اس
جماعت کی حکومت اپنی مدت پوری کرلے گی تو دیکھیں گے۔ملک بیس سال آگے گیا
ہے۔یا اسے بیس سال پیچھے دھکیل دیا گیا۔ |