دیا جل گیا

بھلے وقتوں کی بات ہے‘ دنیا میں چور ہوا کرتے تھے‘ جب کہ ڈاکے اور سینہ زوری کا فریضہ شاہ والے انجام دیا کرتے تھے۔ لوگ پھر بھی شاہ اور شاہ والوں کو‘ ایشور کا اوتار سمجھتے تھے۔ ان کی دیا اور کرپا کے‘ گن گایا کرتے تھے۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں‘ مورکھ نے بھی ان کے کھاتے میں‘ وہ وہ کارنامے میں ڈال دیے ہیں‘ جن کا ان کے فرشتوں کو بھی علم نہ رہا ہو گا۔ آتے وقتوں میں وہ تاریخی ہیرو بن گئے۔ یہ الگ بات ہے‘ ان کی بڑی بڑی عمارتوں میں بنی قبروں پر‘ پھول چڑھانے والوں کا ہونا تو بڑی دور کی بات‘ وہاں کتے استراحت فرماتے ہیں۔ یہ ہی نہیں‘ ٹٹی پشاب بھی کرتے ہیں۔ ایسا بھی ہے کہ ان کی قبروں کے نشان تک نہیں ملتے۔ وہ زبانی کلامی ہیرو چلے آتے ہیں۔ مظلوم‘ انسان دوست‘ دیس بھگت‘ شاہ دشمن ڈاکو مشہور کر دیے گیے۔ دلا بھٹی یا نظام لوہار کو باطور مثال لیا جا سکتا ہے۔

ایک شخص نے چوری کا پیشہ اختیار کیا۔ اس پیشے میں بڑا نام کمایا۔ کبھی پکڑا نہیں گیا۔ شک میں پکڑے جانے کی صورت میں تفتیش کار ایڑی چوٹی کا زور لگا بیٹھے‘ ‘انتہائی درجہ کی کٹ پھانٹ برداشت کر گیے لیکن جرم ماننے کا پاپ نہیں کیا۔ بیٹا بڑا ہوا تو اس نے اسے بھی اس کار بد میں شامل کر لیا۔ ایک بار وہ دھندے پر رات گیے جا رہے تھے کہ ایک جگہ پر وہ شخص رک گیا اور پھر بیٹے سے بولا: اس گھر میں دسویں بار چوری کرنے آیا ہوں۔ سوئی سلائی سمیٹ کر لے جاتا رہا ہوں۔ ہر بار اس گھر میں دیا جلتا ہوا دیکھا ہے لیکن ہمارے گھر کا دیا آج تک نہیں جل سکا۔ پھر اس نے محنت سے کمائی کرنے کا ارادہ کر لیا۔ جب سے اس نے مشقت کی کمائی کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے گھر کا دیا جل گیا اور پھر کبھی گل نہ ہوا۔

فانی مقصو حسنی
About the Author: فانی مقصو حسنی Read More Articles by فانی مقصو حسنی: 184 Articles with 211004 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.