30جو لائی کی شام اسلام آباد کے نام تھی۔ مراکش ایمبیسی
کی دعوت پر مرحوم شاہ محمد پنجم کی رسم تاج پوشی کو انیس سال مکمل ہونے پر
منعقدہ تقریب میں شامل ہونے کے لئے مرکزی علماء کونسل کی طرف سے نمائندگی
کرتے ہوئے محترم حافظ طیب قاسمی کے ہمراہ سفر کا آغاز کیا تو تمام راستے
برادر اسلامی ملک مراکش سے محبت کی دو بڑی وجوہات کو سوچ کر محظوظ ہوتا رہا
۔ان وجوہات میں سے پہلی وجہ دین اسلام تھا جس نے بغیر کسی تفریق کے ہمیں
امت کے بندھن میں پرو دیا۔اسلام کی ترویج میں جن کلمہ گواقوام نے اپنا عظیم
کردار ادا کیااگر ان کی فہرست ترتیب دی جائے تو اولین سطور میں مراکشی قوم
کا ذکر پائیں گے۔دین اسلام کی خدمت اور ترویج کا بہت سا حصہ اس بہادر قوم
کے حصے میں آتا ہے۔مثال کے طور پرآپ’’ جامعہ قرویین‘‘ کو ہی لے لیجئے۔جو
مراکش کے شہر’’ فاس ‘‘میں واقع ہے۔ 859ء میں قائم ہونے والی یہ جامعہ مسلم
دنیا کے اہم تعلیمی مراکز میں سے ایک تھی۔اور آج بھی وہاں سے علم و عرفان
کے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔ جبکہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈز اسے اب تک موجود دنیا
کا سب سے قدیم تعلیمی ادار ہ قرار دیتا ہے۔
دنیا شاہد ہے کہ اُس دور میں جامعہ قرویین نے قرون وسطیٰ میں یورپ اور
اسلامی دنیا کے درمیان ثقافتی ور اکادمی تعلقات میں اہم ترین کردار ادا کیا
۔اس میں قرآن اور فقہ کے علاوہ صرف و نحو، منطق، ادویات، ریاضیات، فلکیات،
کیمیا، تاریخ، جغرافیہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس میں تعلیم حاصل کرنے والے
معروف غیر مسلموں میں یہودی فلسفی موسیٰ بن میمون سب سے زیادہ مشہور ہیں۔
معروف جغرافیہ دان محمد الادریسی کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے
جب’’ فاس ‘‘شہر میں کچھ عرصہ گزارا تو اس دوران جامعہ قرویین ہی میں تعلیم
حاصل کی ۔اسی طرح یورپ کو عربی اعداد اور صفر کا نظریہ دینے والے پوپ
سلویسٹر ثانی نے بھی اس جامعہ میں تعلیم حاصل کی ۔جامعہ قرویین کے کتب خانہ
میں آج بھی نایاب و نادر قلمی نسخے موجود ہیں۔جن میں امام مالک کی موطا
المالک، سیرت ابن اسحاق، 1602ءمیں سلطان منصور ذہبی کی جانب سے جامعہ کو
دیے گئے نسخہ ء قرآن اور ابن خلدون کی کتاب’’ العبر‘‘شامل ہیں۔ یہاں 4000
سے زائد ایسی کتابیں اور نسخے ہیں جو دنیا میں اور کہیں بھی موجود نہیں
ہیں۔
1957ء میں جامعہ قرویین کے اندر عظیم المرتبت شاہ محمد پنجم نے ریاضی،
طبیعیات، کیمیا اور غیر ملکی زبانوں کے علوم کو متعارف کروا کر انسانیت کی
خدمت کے نئے باب کا آغاز کیا تھا۔میں آج بھی اس عظیم درسگاہ ’’جامعہ قرویین
‘‘کی بارے میں سوچتا ہوں تو روح فخر انسانی و وقار اسلامی سے منور و معطر
محسوس ہوتی ہے۔لیکن ستم ظریفی یہ کہ نہ تو ہم اپنے آنے والی نسلوں کو ان
لاجواب آثاثوں سے آگاہ کر سکے اور نہ ہی اس سے فیض حاصل کرنے کا شعور بیدار
کر سکے۔ مجھ جیسے سینکڑوں پاکستانی دلوں میں ’’وجوہ محبت ‘‘کی حیثیت رکھنے
والے ان تاریخی سرمایہ جات سے آگاہی کے لئے مراکش ایمبیسی اورپاکستان کے
اہل نظر و فکر کو مل کر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
یہ تو تھی محبت کی پہلی وجہ ،اب آتے ہیں دوسری اہم وجہ کی طرف۔اگر آپ تاریخ
کا مطالعہ کریں تووطن عزیز پاکستان اور مراکش کے مابین بہت سے پہلو مشترک
نظر آئیں گے۔آپ مراکشی قوم کی جد و جہد آزادی کو دیکھ لیں اور پاکستانی قوم
کی جد و جہد آزادی کو دیکھ لیں۔ان کی اپنی نظریہ آزادی سے والہانہ محبت کو
دیکھ لیں اور پاکستان قوم کی نظریہ آزادی سے والہانہ کو محبت دیکھ لیں۔ان
کی قابض قوتوں کے خلاف جد و جہد دیکھ لیں پاکستانی قوم کی قابض قوتوں کے
خلاف جدوجہد دیکھ لیں۔آپ کو طرفین میں قدرے مشترک جدوجہداوراندازِفکر نظر
آئے گا۔جدوجہد اور اندازِفکر سے مجھے وہ واقعہ پھر سے یاد آ رہا ہے ۔جسے
درج نہ کرنا قلمی خیانت ہو گی۔
1952ء کا سال تھا۔ قوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی موقع پر مراکش کے
مرحوم شاہ محمدپنجم نے اپنی طرف سے سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں صدائے حق
بلند کرنے کے لئے عظیم انقلابی رہنماء و قائداحمد عبدالسلام بلفرج کو
بھیجا۔ احمدعبدالسلام بلفرج مراکش کی آزادی کے حق میں آواز بلند کرنے کے
لیے جب کھڑے ہوئے تو وہاں موجود فرانسیسی نمائندے نے ا حمدبلفرج کو یہ کہہ
کر خطاب کرنے سے یہ کہہ کر روکا کہ " مراکش چونکہ فرانس کی کالونی ہے ،لہذا
احمدبلفرج کو اس پلیٹ فارم سے بولنے کی اجازت نہیں"۔ اس اجلاس میں پاکستان
کے وزیرخارجہ بھی شریک تھے۔انہوں نے جب ایک مسلمان رہنما کے ساتھ فرانسیسی
نمائندے کا ہتک آمیز سلوک دیکھا تو احمدبلفرج کو فوری پاکستان کی شہریت کی
پیشکش کی اور رات گئے نیویارک میں قائم پاکستانی سفارت خانہ کھلوا کر
احمدبلفرج کوپاکستانی پاسپورٹ جاری کر دیا۔اس کے بعد اگلے روز احمدبلفرج نے
پاکستانی چیئر سے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کر کے مراکش کی فرانس سے
آزادی کے حق میں آواز بلند کی ۔جس کے بعدمراکش کی تحریک آزادی میں نئی روح
نے جنم لیا اور پھر اس دنیا میں ایک دن ایسابھی آیا جب19 نومبر 1956ء کو
مراکش، فرانس کے تسلط سے آزاد ی حاصل کرلی۔محبتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا اور
آزادی کے بعد مراکش کے بادشاہ محمدپنجم نے احمدعبدلسلام بلفرج کو مراکش کا
پہلا وزیراعظم نامزدکیا۔احمدبلفرج مرحوم آج دنیا میں نہیں مگر وہ جب تک
وزیراعظم کے منصب پر فائز رہے،انہوں نے اپنے دفترمیں پاکستانی پاسپورٹ کی
کاپی آویزاں کئے رکھی،وہ اپنے دفترمیں آنیوالے ہر شخص کو پاکستانی پاسپورٹ
دکھاتے ہوئے بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ ’’مراکش کی آزادی کی تحریک میں
پاکستان اور پاکستانی پاسپورٹ نے انکی بڑی مدد کی‘‘۔شاید یہی وجہ ہے کے
ترکی کی بعد مراکش وہ ملک ہے جہاں کے لوگ پاکستانیوں سے بہت محبت و عقیدت
رکھتے ہیں۔
بہر کیف!ان دو وجوہات محبت کو تخیل میں بسائے مراکش ایمبیسی کی منعقدہ
تقریب میں مجنونانہ شرکت کی۔تمام برادر اسلامی ممالک کے سفراء ،یورپی یونین
سمیت دیگر ممالک کے سفراء اور خصوصا پاکستان کی دینی، مذہبی ،سیاسی شخصیات
سمیت شبہائے زندگی کے تمام نمائندگان کو ایک چھت تلے دیکھ کر دل باغ باغ
بھی ہوا اور سفیر مراکش کا شکر گزار بھی۔میری دعا ہے کہ جب تک یہ دنیا قائم
ہے اﷲ رب العزت مراکش اور پاکستان کو ہمیشہ شاد و آباد رکھیں ۔ آمین
|