تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان نے انتخابات میں
کامیابی کے بعد اپنے پہلے خطاب میں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی خواہش کا
اظہا رکیا ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں جموں کشمیر تنازعہ کا تذکرہ کرتے
ہوئے کہاہے کہ پاکستان اور بھارت کے راہنماؤں کومسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے
ذریعے حل کرنا ہوگا ۔ انہوں نے بال بھارت کی کورٹ میں پھینکتے ہوئے کہا کہ
اگر بھارت اگر ایک قدم آگے بڑھائے گا ہم دو قدم آگے بڑھیں گے اور اگر بھارت
کی قیادت اس کے لیے تیار ہے تو ہم بھی بات چیت کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے
مزید کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہونے
چاہئیں۔پاکستان کے متوقع وزیر اعظم نے جس مثبت انداز میں مسئلہ کشمیر پربات
کی وہ قابل ستائش ہے ۔ ریاست جموں کشمیر کے دونوں جانب سے اس بیان کی تائید
کی گئی ہے۔ حریت کانفرس کے راہنماؤں سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق،
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے قائد یاسین ملک اور سفارتی ترجمان طفر خان نے اس
کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ برصغیر کے اس اہم ترین مسئلہ کو جموں کشمیر
کی عوام کی رائے اور حق خود آرادیت کی بنیاد پر حل کیا جانا چاہیے۔ حریت
رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے مسئلہ کشمیر بات
چیت سے حل کرنے کے بیان کے بعد امید جاگ گئی ہے ۔ امید ہے کہ دونوں پڑوسی
ممالک حقیقی امن کے امکانات پیدا کریں گے۔کشمیر کمیٹی سویڈن کے صدر برکت
حسین اورکشمیر کونسل یورپ کے راہنما علی رضا سید نے بھی عمران خان کے بیان
کو انتہائی مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عمران خان
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سنجیدہ ہیں اور اس مسئلے کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔
کشمیری راہنما ؤں نے واضح کیا کہ مذاکرات کے متوقع عمل میں کشمیریوں کو بھی
شامل کیا جائے کیونکہ وہ اس مسئلہ کے بنیادی فریق ہیں۔آزاد حکومت ریاست
جموں کشمیر کے سنئیر وزیر چوہدری طارق فاروق نے بھی تحریک انصاف کے قائد کی
نشری تقریر کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے مثبت، متوازن اور حلم پر مبنی قرار
دیا۔آزادکشمیر میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے سنئیر وزیر نے عمران خان کے خطاب
پر مزید رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ذمہ دارانہ خطاب ہے اورعمران خان
نے مسئلہ کشمیر اور بھارت کے حوالے سے خوش آئند اور متاثر کن خیالات
کااظہار کیا ہے۔ چوہدری طارق فاروق نے ایک طرف عمران خان کے خطاب کاخیر
مقدم کیا ہے جبکہ دوسری جانب یہ بھی خبردارکیا ہے کہ پاکستان میں تحریک
انصاف کی کامیابی کے بعد آزادکشمیر میں حکومت کی کسی ممکنہ تبدیلی کی کوشش
کرنے والوں کو مایوسی ہوگی۔ ان کا یہ بیان ایک قدرتی امر ہے کہ کیونکہ
پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد اکثر آزادکشمیرحکومت کی باری آتی ہے۔
آزادکشمیر کے سنئیر وزیر کو چاہیے تھا کہ وہ ان خدشات کا اظہار اپنے وزیر
اعظم راجہ فارق حیدر بھی کرتے جو پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کا
استقبال کرنے لاہور پہنچ گئے تھے اور انہوں نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ 27
جولائی کو پاکستان کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر بلائی گئی آل پارٹیز
کانفرس میں گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمن کے ساتھ شرکت کی۔
آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں کے راہنماؤں کی حزب اختلاف کی کانفرس میں
شرکت مدعی سست گواہ چست کے متراد ف ہے کیونکہ حالیہ انتخابات ان دونوں
علاقوں میں منعقد ہی نہیں ہوئے ۔ آزاد جموں کشمیر کے راہنما اکثر یہ شکوہ
کرتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت اور سیاست دان آزادکشمیر میں غیر ضروری
مداخلت کرتے ہیں لیکن انہیں خود بھی اس کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے تاکہ یہ
خطہ سیاسی محاذ آرائی کا شکار نہ ہو۔
عمران خان کی جانب سے جموں کشمیر کے مسئلہ کو اپنے اہم خطاب میں شامل کرنا
اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ اس مسئلہ کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں اور
ریاست جموں کشمیر کے عوام کے مصائب کے پیش نظر اس مسئلہ کو بھارت سے پر امن
مذاکرات سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ اب بھارت کی قیادت کو چاہیے کہ دنیا کے اس
اہم مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ہمت اور جرات کا مظاہرہ کرے اور مثبت جواب دے۔
یہ حقیقت ہے کہ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا بر صغیر میں پائیدار امن ممکن
نہیں اور یہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعہ ہی حل ہونا چاہیے کیونکہ اس کا کوئی
فوجی حل نہیں جس کا اعتراف پاک بھارت کے عسکری ماہرین بار ہا کر چکے ہیں۔
دونوں ممالک کے بانیوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ کشمیری عوام کو غیر مشروط حق
خود آرادیت دیا جائے گا اور بھارت نے اس کا اعتراف اقوام عالم سے بھی کیا
تھا۔ چونکہ کشمیر ی عوام اس مسئلہ کے بنیادہ فریق ہیں اس لیے ان کو مذاکرات
میں شامل کیے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ عمران خان بانی پاکستان قائد اعظم
کے نظریات اور تصورات سے بہت متاثر ہیں اور ان پر عمل پیرا ہونے کا اظہار
کرتے رہتے ہیں۔ امید ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر بھی بانی پاکستان کے پالیسی
ساز بیانات جوا نہوں نے 17جون ، 11 اور 30جولائی 1947ء میں دیئے تھے اور جو
اس وقت کے اخبارات پاکستان ٹائمز اور ڈان میں شائع ہوئے اورجو قائد اعظم کی
تقاریر اور بیانات پر مبنی کتاب Quaid Azam Mohammad Ali Jinnah - Speeches
and Statements میں شامل ہیں ان کا ضرور مطالعہ کریں گے اور ان کر روشنی
میں کشمیر پالیسی مرتب کریں گے۔ ڈیڑھ کروڑ آبادی اور 222236مربع کلومیٹر
علاقے پر مشتمل ریاست جموں کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کے غیر
مشروط حق خود آرادیت اور مسلمہ عالمی جمہوری اصولوں کے تحت ہوناچاہیے تاکہ
برصغیر میں مستقل امن قائم ہوسکے۔
|