کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری مثل ہیں ٢

انشاء اللہ سطور ذیل میں فی الوقت نورانیت مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے مسئلہ کو الگ رکھتے ہوئے صرف حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے متعلق بالخصوص اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی بالعموم بے مثل بشریت پر قرآن و سنت کی روشنی میں دلائل دیئے جائیں گے۔

سب سے اول اہلسنت کا عقیدہ بیان کرنا مناسب ہو گا جو یہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام بشر ہیں لیکن عام انسانوں کی طرح نہیں ، حق تعالیٰ نے ان کو بے مثل شان ، درجات رفیعہ، کمالات لازوال ، وجاہت ، عزت ، شوکت، رفعت، علو مرتبت اور عقول کو محو حیرت کر دینے والے معجزات سے ممتاز کیا ۔ اور یہ ساری شانیں ذات و صفات دونوں میں ودیعت فرمائیں۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ صفات اپنا کوئی علحدہ وجود نہیں رکھتیں بلکہ ذات ہی میں ودیعت ہوتی ہیں ، کیسی نامعقول بات ہے کہ کوئی شخص انبیا ئے کرام علیہم السلام کی صفات کو بے مثل مانتا ہے لیکن ان کی ذات کو بے مثل ماننے میں اس کو تأمل ہے۔

مزید یہ کہ قرآن مجید کی کئی آیات اس بات پر ناطق ہیں اور ہر دور میں یہ تمام ائمہ کا متفق نظریہ رہا ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کو اپنے جیسا بشر کہنا یا صرف بشر کہنا یہ شیطان اور منافقین و کفا ر کا طریقہ رہا ہے اور فرق اتنا ہے کہ دیگر انبیاء علیہم السلام کےادوار میں اور عہد رسالت میں بھی کفار و منافقین انبیاء کو بشر کہہ کر ان کی نبوت و رسالت کا انکار کرتے رہے اور دور حاضر کے منافقین انبیا ء علیہم السلام اور بالخصوص حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کو اپنے جیسا بشر کہہ کر انبیا ئے کرام کے فضائل و کمالات ، رب تعالیٰ کے حضور ان کی قدر ومنزلت و وجاہت کو کم کرنا چاہتے ہیں لیکن سوائے رب تعالیٰ کی نعمتوں سے حسد اور انبیائے کرام سے بغض و عناد کے ان منافقین کے ہاتھ کچھ نہیں آیا اور بلاشبہ یہ دونوں جہان میں ذلت و رسوائی کا موجب ہے۔اور انبیاء کی بشریت پرنظر وہی لوگ کرتے ہیں جو بارگاہ لم یزل کے نافرمان ہوتے ہیں۔
مختصر تمہید کے بعد میں اب دلائل پیش کرتا ہوں:
سب سے پہلے انبیاء کو بشر شیطان نے کہا چنانچہ پارہ ۱۴ الحجر آیت نمبر ۳۲
قَالَ لَمْ اَكُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ
ترجمہ
بولا مجھے زیبا نہیں کہ بَشر کو سجدہ کروں جسے تو نے بَجتی مٹی سے بنایا جو سیاہ بودار گارے سے تھی
یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی بشریت ابلیس کے لئے حجاب بن گئی اور وہ رب تعالیٰ کے حکم کو نہ دیکھ سکا اور بارگاہ خداوندی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مردود قرار پایا ، چنانچہ اس سے اگلی آیت میں ارشاد ہوا
قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۙ
ترجمہ
فرمایا تو جنّت سے نکل جا کہ تو مردود ہے
اسی طرح اگلی امتوں کے لوگ انبیائے کرام علیہم السلام کو بشر کہہ کر کافر ہوئے ، چنانچہ پارہ ۲۸ التغابن آیت نمبر ۵ اور ۶
اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ١٘ فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝
ذٰلِكَ بِاَنَّهٗ كَانَتْ تَّاْتِیْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْۤا اَبَشَرٌ یَّهْدُوْنَنَا١٘ فَكَفَرُوْا وَ تَوَلَّوْا وَّ اسْتَغْنَى اللّٰهُؕ
ترجمہ:
کیا تمہیں ان کی خبر نہ آئی جنہوں نے تم سے پہلے کفر کیا اور اپنے کام کا وبال چکھا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے یہ اس لئے کہ ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں لاتے تو بولے کیا آدمی ہمیں راہ بتائیں گے تو کافر ہوئے اور پھر گئے اور اللہ نے بے نیازی کو کام فرمایا
آیت مبارکہ نہایت واضح و صریح ہے کہ ان لوگوں کے کفر کی علت ان کا یہ قول اَبَشَرٌ یَّهْدُوْنَنَا١٘ یعنی انہوں نے کہا کہ کیا بشر ہمیں راہ بتائیں گے تو رب تعالیٰ نے فرمایا فَكَفَرُوْا وَ تَوَلَّوْا یعنی وہ کافر ہوگئے اور پھر گئے۔

صرف اسی قدر پر اکتفا کرتے ہوئے میں اب بات کرنا چاہوں گا کہ جب کفار نے انبیاء کو بشر کہا تو انبیائے کرام علیہم السلام نے ان کو کیا جواب دیا، چنانچ پارہ ۱۳ ابراہیم آیت نمبر ۱۱ میں ہے۔
قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَمُنُّ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖؕ
ان کے رسولوں نے ان سے کہا ہم ہیں تو تمہاری طرح انسان مگر اللہ اپنے بندوں میں جس پر چاہے احسان فرماتا ہے۔

اس آیت کریمہ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انبیائے کرام نے ان کو فرما دیا کہ تم ہمارے ظاہر کو دیکھ کر ہم کو اپنے جیسا سمجھتے ہو تو سمجھتے رہو ، ہمارا ظاہر تو تمھاری طرح ہے لیکن وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَمُنُّ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِه
اللہ جس بندے کو چاہتا ہے اپنے احسان سے ممتاز کردیتا ہے۔

اب اس کے بعد میں اس آیت کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کی آڑ میں زمانہ حاضر کے منافقین اپنے مذموم نظریات کا واویلا کرتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ قرآن مجید میں دو مقامات پر ہے سورہ کہف آیت نمبر ۱۱۰ اور سورہ حم السجدہ کی آیت نمبر ۶ ہے ، آئیے اب ان آیات کا بغور جائزہ لیتے ہیں۔
پارہ ۱۶ الکہف آیت نمبر ۱۱۰
قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠۝۱۱۰
تم فرماؤ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے۔
پارہ ۲۴ حم السجدہ آیت نمبر ۶
قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِیْمُوْۤا اِلَیْهِ وَ اسْتَغْفِرُوْهُ١ؕ وَ وَیْلٌ لِّلْمُشْرِكِیْنَۙ۝
تم فرماؤ آدمی ہونے میں تو میں تمہیں جیسا ہوں مجھے وحی ہوتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو اس کے حضور سیدھے رہو اور اس سے معافی مانگو اور خرابی ہے شرک والوں کو

ان دونوں آیات کا مکمل متن و ترجمہ پڑھنے کے بعد آپ کو اس ارشاد کی حکمت ، سبب نزول اور مخاطب کا بخوبی اندازہ ہو جانا چاہیے، چنانچہ پہلی بات کہ رب تعالیٰ نے یایھا البشر نہیں کہا بلکہ فرمایا قل یعنی آپ فرما دیجئے

دوسری بات یہ کہ پہلے حصہ میں بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ فرمایا اور ساتھ ہی یہ امتیاز بھی بیان کردیا یُوْحٰۤى اِلَیَّ یعنی مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ یعنی میرا ظاہر دیکھ کر مجھے اپنا مثل سمجھنے والو میری بشریت بھی تمھارے جیسی نہیں کیونکہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے، یہاں ضمنی طور پر ایک اور آیت پیش کرتا ہوں چنانچہ پارہ ۲۸ الحشر آیت نمبر ۲۱ میں ارشاد ہوتا ہے۔
لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ١ؕ وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ
اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارتے تو ضرور تو اسے دیکھتا جھکا ہوا پاش پاش ہوتا اللہ کے خوف سے اور یہ مثالیں لوگوں کے لئے ہم بیان فرماتے ہیں کہ وہ سوچیں۔

قارئین کرام غور کریں وہ قرآن جو کہ پہاڑوں پر نازل ہوتا تو پاش پاش ہو جاتے لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس قرآن کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل کیا تو اندازہ کریں جس قلب پر رب کا قرآن نازل ہوا وہ کیسے ہماری مثل ہو سکتا ہے، فاعتبروا یا اولی الابصار

پس یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثل بشریت کا اعجاز ہے اور آپ کی اعلیٰ و ارفع بے مثل بشریت پر شاہد ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر وحی نازل ہوئی۔

تیسری بات ان دونوں آیت کریمہ میں توحید کے حوالے سے بیان ہوا اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ
یعنی تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے اور پھر ان آیات کریمہ کے آخری حصہ پر غور کریں تو ان کے نزول کی حکمت واضح ہو جاتی ہے چنانچہ پہلی آیت کے آخر میں یوں ارشاد ہوا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا
اور ثانی الذکر آیت کریمہ میں یہ الفاظ ہیں فَاسْتَقِیْمُوْۤا اِلَیْهِ وَ اسْتَغْفِرُوْهُ١ؕ وَ وَیْلٌ لِّلْمُشْرِكِیْنَۙ

یعنی ان آیات کی حکمت یہ تھی کہ میں الہ نہیں بلکہ تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے ، تم اسی کی عبادت کرو اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اوراس کے حضور توبہ کرو اور ہلاکت مشرکین کے لئے ہے۔

لہٰذا یہ آیات بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اعلیٰ و ارفع بشریت پر حجت تامہ ہیں اور منافقین کے لئے اس میں تاویلات فاسدہ کی کوئی راہ نہیں۔

اختصار کے پیش نظر فی الوقت اتنا ہی ورنہ ابھی دیگر آیات قرآنیہ و احادیث نبویہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اعلیٰ و ارفع و بے مثل بشریت پر ناطق ہیں۔
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 452848 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.